دہلی میں پاک بھارت تجارت پر دو طرفہ بات چیت کا انعقاد اس امر کا ثبوت ہے کہ امن اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کے سوا دونوں ملکوں کے سامنے اور کوئی راستہ نہیں۔ سیکرٹری سطح پر مذاکرات کا یہ دور تقریباً ایک سال کے تعطل کے بعد شروع ہوا۔ اس عرصہ میں دونوں ملکوں کے تعلقات سخت کشیدگی کے ادوار سے گزرے۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے سلسلے نے دونوں طرف ہیجانی کیفیت پیدا کر دی تھی‘ جس کا فائدہ اٹھا کر انتہاپسند عناصر دونوں ملکوں کو ''جنگ اور بدلے‘‘ پر اکساتے رہے‘ لیکن پاکستان اور بھارت کی قیادت نے ذمہ داری اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان اقدامات سے اجتناب کیا‘ جن سے کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا تھا‘ بلکہ عقلمندی اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرکاری سطح پر باہمی رابطوں کا سلسلہ نہ صرف برقرار رکھا بلکہ سرحدوں پر کشیدگی کم کرنے اور ان کے آرپار غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے دونوں کی مسلح افواج اور سرحدی محافظوں کے درمیان ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ جن سے نہایت مثبت اور حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔
حال ہی میں دونوں ملکوں کے ڈی جی ملٹری آپریشنز اور پاکستان رینجرز اور بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورسز کے سربراہان کے درمیان مذاکرات نے فضا بہتر بنانے میں خاصی مدد دی۔ ڈی جی ایم اوز کی ملاقات میں دونوں ملکوں نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر امن کے قیام کے لیے اہم اقدامات کرنے پر اتفاق کیا جبکہ رینجرز اور بی ایس ایف کے کمانڈروں کے درمیان ملاقات میں سمگلنگ اور سرحدی خلاف ورزیوں کی روک تھام کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
ان دو اہم پیش رفتوں کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اعلیٰ سطح پر سفارتی رابطوں اور گزشتہ برس ستمبر میں نیویارک میں ہونے والی نواز شریف من موہن سنگھ ملاقات نے بھی دونوں ملکوں کے مابین سرد مہری ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے کیلئے پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کی ملاقات کی تجویز وزرائے اعظم کی اسی ملاقات میں منظور کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور اور نیشنل سکیورٹی سرتاج عزیز اور بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کے درمیان ملاقاتوں نے بھی پاک بھارت رسمی مذاکرات کے آغاز کی راہ ہموار کرنے میں بڑی مدد دی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان امن، دوستی اور تعاون کی ضرورت اور افادیت کا اعتراف دونوں طرف سے ایک عرصہ سے کیا جا رہا ہے۔ اس اعتراف کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ دس برس سے امن مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ لیکن مئی 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت نے ہمسایہ ممالک خصوصاًَ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر جس تواتر اور ثابت قدمی سے زور دیا، اس نے جنوبی ایشیائی خطے میں امن، سلامتی اور تعاون کے امکانات کو پہلے سے کہیں زیادہ روشن کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم نواز شریف نے مختلف مواقع پر جو بیانات دیے، ان سے پاکستان اور بھارت کے درمیان فاصلے سمٹتے نظر آرہے ہیں۔ مثلاً 28 نومبر کو اسلام آباد میں تاجروں و کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ''بھارت ہمارا ہمسایہ ہے اور ہمسایوں کو آپ تبدیل نہیں کر سکتے‘ بہتر یہی ہے کہ ان سے اچھے تعلقات قائم کریں اور صبر اور فراخ دلی کی مظاہرہ کرتے ہوئے آگے کی طرف قدم بڑھائیں‘ ورنہ ترقی کی دوڑ میں دونوں ملک پیچھے رہ جائیں گے‘‘۔
یہ خیالات وزیر اعظم نوازشریف کی انفرادی اور ذاتی سوچ کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ بھارت کے ساتھ امن اور تعاون پر مبنی تعلقات کے حق میں اب ملک کی تقریباً سبھی بڑی سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی بھارت کے ساتھ دوستانہ روابط اور تجارتی تعلقات کے فروغ کی پہلے سے حامی ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے بھی حال ہی میں پاک بھارت تجارت بلکہ مشترکہ منصوبوں کی حمایت کی ہے۔ بھارت کے دورے سے واپسی پر عمران خان نے تجویز پیش کی کہ بھارت اور پاکستان کو بیرونی دنیا پر انحصار کم کرنے اور توانائی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے سول نیوکلیئر شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
پاک بھارت تعلقات میں گزشتہ ایک برس سے جاری تعطل کو ختم کرنے اور دوطرفہ تنازعات طے کرنے کیلئے مذاکراتی عمل کے احیا میں ایک اور عنصر نے اہم کردار ادا کیا۔ موجودہ بھارتی قیادت کی طرف سے پاکستان کی منتخب جمہوری حکومت پر اعتماد کا اظہار اور مثبت رویے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ 23 نومبر کو لاہور میں ایک ادبی محفل میں وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ ایک پرامن اور خوشحال جنوبی ایشیا کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کیلئے پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات کو نارمل سطح پر لانے کیلئے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے۔
وزیر اعظم کے ان مثبت اور دور اندیشانہ بیانات کے جواب میں بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور وزیر خارجہ سلمان خورشید نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ سیاسی اور سفارتی سطح پر دونوں جانب سے خیر سگالی کے جذبات پر مبنی بیانات اور جذبات کے اظہار کے علاوہ کچھ اور عوامل بھی ہیں‘ جنہوں نے کشیدگی اور بار بار تعطل کے باوجود پاکستان اور بھارت کو ایک دفعہ پھر گفت و شنید کی میز پر لا بٹھایا ہے۔ ان میں سے بعض کا تعلق دونوں ملکوں کی اندرونی، سیاسی اور معاشی صورتحال سے ہے اور بعض کا تعلق خطے میں ہونے والے حالیہ واقعات سے۔ پاکستان اور بھارت اپنے اپنے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے چیلنج سے دوچار ہیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے انہیں اپنے تمام وسائل معاشی ترقی پر صرف کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا وہ تب ہی کر سکتے ہیں جب جنگی تیاریوں پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کی جائے گی اور وسائل کو مہنگا اسلحہ خریدنے کی بجائے تعلیم، صحت، صنعت، زراعت، توانائی اور انفراسٹرکچر کو ترقی دینے پر خرچ کریں گے۔
اگرچہ چین اور بھارت کے درمیان روز افزوں رابطے اور دوطرفہ تجارت اور اقتصادی تعاون میں اضافہ دونوں ملکوں کا اپنا معاملہ ہے اور اس سے کسی تیسرے ملک کا کوئی تعلق نہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے دوطرفہ تعلقات نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے بارے میں اپنی دیرینہ پالیسی پر نظرثانی کیلئے مجبور کر دیا ہے۔ ملک کی پولیٹیکل کلاس اب بھارت کے ساتھ تعلقات اور مسئلہ افغانستان کو ایک وسیع تر علاقائی اور عالمی تناظر میں دیکھ رہی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل اور استحکام نے اس سوچ کو تقویت بخشی ہے اور آنے والے دنوں میں اس سمت مزید پیش قدمی کی امید کی جا سکتی ہے۔ خصوصاً تجارت کے شعبے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کو زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تجارت پر عائد تمام پابندیاں ختم نہیں کیں تاہم گزشتہ پانچ چھ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس وقت دوطرفہ تجارت کا حجم ڈھائی ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس حجم کو 20 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچایا جا سکتا ہے‘ لیکن پاکستانی نقطہ نظر سے اس میں سب سے اہم مسئلہ بھارت کے حق میں بھاری تجارتی توازن ہے‘ جسے متوازن بنانے کیلئے ان رسمی اور غیررسمی پابندیوں کو ختم کرنا ضروری ہے جو بھارت نے اپنے ہاں پاکستانی مصنوعات کی درآمد پر لگا رکھی ہیں۔ اسی مقصد کیلئے نئی دہلی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی مذاکرات کا اہتمام ہے اور دونوں طرف سے امید کی جا رہی ہے کہ اس مسئلے کا کوئی تسلی بخش حل تلاش کر لیا جائے گا۔