اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 22جنوری سے سوئٹزرلینڈ کے شہر مونٹریکس میں شام میں تین سال سے جاری خانہ جنگی ختم اور ملک میں امن قائم کرانے کے لیے بین الاقوامی کانفرنس شروع ہو چکی ہے۔ اس کانفرنس میں امریکہ، روس اور کچھ مغربی ممالک کے علاوہ مشرقِ وسطی اور خلیج فارس کے ممالک شرکت کر رہے ہیں۔کانفرنس میں شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار حزب مخالف کی جماعتیں پہلی دفعہ شرکت کر رہی ہیں جبکہ امریکہ اور روس کے درمیان شام میں قیام امن کے لیے ضروری اور ممکنہ اقدامات پر پہلے سے زیادہ اتفاق پایا جاتا ہے۔ غیر ملکی مبصرین کے مطابق اس کانفرنس اور جنیوا میں براہ راست مذاکرات کے نتیجے میں شام کے مسئلے کے حل کا بہت کم امکان ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اہم سٹیک ہولڈر مثلاً روس،امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان آخری وقت تک اس بات کا فیصلہ نہ ہوسکا تھا کہ کانفرنس میں خطے کے دوسرے کن ممالک کو مدعو کیا جائے گا۔ چند روز پیشتر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی طرف سے ایران کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن امریکی دبائو کے تحت یہ دعوت واپس لے لی گئی‘ حالانکہ سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری اس کانفرنس میں ایران کے کردار کی اہمیت کا اعتراف کر چکے ہیں۔خیال کیا جارہا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب نے بھی ایران کی شرکت کی مخالفت کی تھی ،کیونکہ اگر ایران کی مداخلت سے شام میں امن کا قیام عمل میں آتا ہے تو علاقے میں ایران کے اثرونفوذ میں اور بھی اضافہ ہوجائے گا ۔ لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کے ساتھ قریبی تعلقات، عراق میں نوری المالکی کی شیعہ حکومت کی موجودگی اور صدر اسد کو ایرانی فوجی امداد کی فراہمی کے سبب ایران کو شام،لبنان اور عراق کے علاقوں میں پہلے ہی کافی اثرورسوخ حاصل ہے۔ شام میں ایرانی مدد سے متحارب فریقوں کے درمیان
سمجھوتہ ہونے کی صورت میںمشرقِ وسطی میں ایران کا قد اور بھی بڑھ جائے گا۔ یہ صورتِ حال نہ صرف اسرائیل بلکہ سعودی عرب کے لیے بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ اس صورت میں سعودی عرب کے مشرقی علاقوں، بحرین اور یمن میں بھاری شیعہ آبادی اپنے سیاسی اور اقتصادی حقوق کے لیے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کرے گی۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے ، صدر اوباما شام میںایرانی کردار کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ دسمبر میں ایران کے جوہری پروگرام پر ایران اور مغرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کی کامیابی کا انحصارخطے میں ایران کے کردار سے منسلک ہے۔ اگر ایران کو شام کے معاملات سے الگ تھلگ رکھا گیا تو اس سے نہ صرف شام میں امن کی کوششیں ناکام رہیں گی بلکہ جوہری پروگرام کے معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جس اعتماد کی ضرورت ہے وہ بھی حاصل نہیں ہوگا ، اس لیے امریکہ جنیوا مذاکرات (Geneva II)میں ایران کی شرکت پر مائل ہے تاہم اس نے سعودی عرب اور اسرائیل کے دبائو کے تحت اس شرکت کو ایران کے حزب اللہ اور حماس کے ساتھ روابط سے مشروط کر دیا ہے۔
دوسری طرف ایران نے بھی شام کے حوالے سے بین الاقوامی مذاکرات کو متاثر کرنے کے لیے سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔اس مقصد کے لیے ایران نے روس کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک سے بھی ایک مشترکہ موقف اختیار کرنے کے لیے رابطے قائم کیے ہیں۔کانفرنس کے انعقاد سے تقریباً ایک ہفتہ قبل ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے شامی وزیر خارجہ معلم اور روسی وزیرخارجہ سرجی لیورف کے ساتھ ماسکو میں شام کے مسئلے پر بات چیت کے لیے ملاقات کی تھی۔ایرانی وزیرخارجہ نے اس مقصد کے لیے انہی دنوںمیں لبنان،اردن،عراق اور شام کا دورہ بھی کیا تھا تاکہ شام پر ایرانی موقف کے لیے ان ممالک کی حمایت حاصل کی جاسکے۔ دوسری طرف شام کے بحران کے حوالے سے ترکی کے موقف میں بھی تبدیل کے آثار دِکھائی دے رہے ہیں۔ شام کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے القاعدہ کی ہمنوا انتہا پسند اسلامی تنظیموں نے جس تیزی سے ملک میں اثر ورسوخ حاصل کیا ہے، اس سے مغربی ممالک ہی نہیں بلکہ ترکی بھی پریشان ہے۔ صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم طیب اردوان کی حکومت شام میںجاری جنگ کو ترکی کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ تصور کرتی ہے ، اس لیے ایران اور روس کی طرح ترکی بھی اب شام میں خانہ جنگی کا جلد ازجلد خاتمہ چاہتا ہے۔ اگرچہ امریکہ، مغربی ممالک اور سعودی عرب اب بھی صدر اسد کو عہدے سے ہٹانے پر اصرار کر رہے ہیں اور ان کے خیال میں جون2012ء میں جنیوا میں شام پر ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا،اس کے تحت قائم ہونے والی عبوری حکومت میں صدر اسد کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ روس اور دیگر ممالک میں یہ سوچ تقویت پکڑتی جارہی ہے کہ صدر اسد کو ان کے موجودہ عہدے سے ہٹانے اور آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے سے زیادہ اہم شام میں انتہا پسند تنظیموں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھنا ہے اور یہ صرف اس صورت ممکن ہے جب شام میں معروضی حقیقتوں کو تسلیم کر کے اس کے بحران کے حل کے لیے حقیقت پسندی پر مبنی اقدامات تجویز کیے جائیں۔
شام کی ایک معروضی حقیقت یہ ہے کہ تین سال سے جاری جنگ اور بیرونی امداد کے باوجود حزبِ مخالف صدر اسد کو اقتدار سے الگ نہیں کرسکی۔ دوسری جانب اندرونی اختلافات کے باعث اپوزیشن کمزور پڑرہی ہے اور صدر اسد کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔ دوسرے ، صدر اسد کو نہ صرف ایران سے بلکہ روس اور عراق کی طرف سے بھی اسلحہ کی فراہمی جاری ہے اور ان کی جنگی صلاحیت پہلے کی طرح مضبوط ہے۔ تیسرے ، ایران کسی صورت بھی نہیں چاہے گا کہ شام میں صدر اسد اور ان کے حامی قبیلے کی حکومت ختم ہوجائے کیونکہ اس صورت میں نہ صرف شام اور اس کے ارد گرد ملکوں میں ایران کا اثرورسوخ ختم ہوجائے گا بلکہ امریکہ کو مشرق ِوسطیٰ میں ناپسندیدہ حکومتوں‘ جن میں ایران کی موجودہ اسلامی حکومت بھی شامل ہے، بزورطاقت تبدیل کرنے کی ترغیب حاصل ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ شام میں صدر اسد کی حکومت کو بچانے کے لیے ایران کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اور غالباً اسی بنا پر یہ دلیل پیش کی جارہی ہے کہ اگر شام میں جنگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنا ہے اور ملک میں دیرپا اور مستقل امن کا قیام مقصود ہے، تو بین الاقوامی مذاکرات میں ایران کو بھی شامل کیا جائے۔
اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے شام اہم ملک ہے جس کے اندرونی حالات مشرقِ وسطیٰ کے پورے خطے کو متاثر کرسکتے ہیں، اس لیے بڑی طاقتوں میں اب یہ احساس تیزی سے تقویت پکڑتا جارہا ہے کہ شام میں امن جلد ازجلد قائم ہونا چاہیے‘ ورنہ شام میں بھڑکنے والی یہ آگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میںلے سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان خدشات نے روس اور امریکہ کی سوچ میں کسی حد تک یکسانیت پیدا کر دی ہے اور دونوں ممالک شام میں فوری طور پر تین اقدامات پر متفق نظر آرہے ہیں۔ان میں سے پہلا قدم جنگ بندی ہے، دوسرا شام کی علاقائی سالمیت اور ریاستی ڈھانچے کا تحفظ اور تیسرا انتہا پسند تنظیموں کا قلع قمع کرنا ہے ؛ تاہم دونوں ملکوں میں صدر اسد کے مستقبل کے باے میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور مبصرین کے مطابق اگر ایران کی شرکت اور صدر اسد کے مستقبل کے بارے میں اتفاقِ رائے نہ ہوسکا تو جنیوا 2 مذاکرات کو ناکام ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا؛ البتہ بین الاقوامی رائے عامہ ان ممالک کو اختلافات ختم کرنے پر مجبور کر سکتی ہے، کیونکہ گزشتہ تین برسوںسے شام کے عوام ہولناک تباہی سے دوچار چلے آرہے ہیں۔اس خانہ جنگی کی وجہ سے ساٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ اپنے ہی ملک میں گھر بار سے محروم بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،20لاکھ کے قریب افراد ملک چھوڑ کر ہمسایہ یا دور دراز ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ لاکھوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور30سے40فیصد شہری علاقے کھنڈرات کا ڈھیر بن چکے ہیں۔شام اب مزید تباہی کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لیے بیرونی طاقتوں کو اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر شام میںامن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔