29 جنوری کو قومی اسمبلی میں طالبان سے مذاکرات کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف نے کہا کہ وہ ماضی کے تلخ تجربات کو پس پشت ڈالتے ہوئے طالبان کو امن مذاکرات کا ایک موقع دے رہے ہیں اور اس مقصد کیلئے انہوں نے ایک چار رکنی کمیٹی کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ کمیٹی دو سینئر صحافیوں، ایک سابق سفارت کار اور ایک ریٹائرڈ فوجی پر مشتمل ہے۔ اس کمیٹی کے بارے میں ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کی حیثیت کیا ہو گی۔ اس کے دائرہ اختیار یعنی ٹرمز آف ریفرنس (Terms of Reference) کا بھی اعلان نہیں کیا گیا‘ لیکن کمیٹی کے ایک آدھ رکن نے میڈیا کے سامنے جو باتیں کہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس کمیٹی کا کام مذاکرات کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اصل مذاکرات حکومت کرے گی۔ وزیر اعظم کی تقریر سے قبل قومی سطح پر غالب تاثر یہ تھا کہ طالبان کی طرف سے دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے پیشِ نظر اور عوامی دبائو کے تحت حکومت طالبان کے خلاف بڑا فوجی آپریشن کرنے والی ہے۔ اس کا اعتراف خود وزیر اعظم کی تقریر میں بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ریاست پوری طاقت سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے کارروائی کرتی تو پوری قوم اس کی پشت پر ہوتی۔ وزیر اعظم نے فرمایا کہ چونکہ دوسری طرف سے مذاکرات کی پیش کش کی گئی ہے اس لیے امن کو ایک اور موقع دینے کیلئے مذاکرات کے حق میں فیصلہ کیا گیا ہے۔
توقع کے عین مطابق حکومت کے اس فیصلے پر مختلف حلقوں نے مختلف پیرائے میں اپنے ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ وہ پارٹیاں‘ جو طالبان کے ساتھ ہر قیمت پر مذاکرات کی حامی ہیں بلکہ مذاکرات کو واحد آپشن سمجھتی ہیں، وزیر اعظم کے اس بیان پر خوش اور مطمئن ہیں کیونکہ فوجی آپریشن کے بڑھتے ہوئے امکانات نے ان کو پریشان کر دیا تھا اور ان کی طرف سے اس قسم کے اقدام کی سخت مخالفت کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ ان پارٹیوں میں مذہبی جماعتوں کے علاوہ تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ ان جماعتوں نے نہ صرف اطمینان کا سانس لیا بلکہ وزیر اعظم کے اعلان کی برملا حمایت بھی کی ہے۔ اس صورتحال میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے انعقاد میں چار رکنی کمیٹی کامیاب ہو یا نہ ہو، اس کے قیام سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں ایک پچ پر آ گئی ہیں۔ جس طرح عمران خان نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے نواز شریف حکومت کی تعریف کی اور مذاکرات کے حق میں ان کے فیصلے کو سراہا‘ وہ اپنی نوعیت کا پہلا اور واحد واقعہ ہے‘ ورنہ اس سے قبل کہا جاتا تھا کہ عمران خان کی سیاست کا واحد ہدف صرف اور صرف نواز شریف کی ذات ہے‘ کیونکہ پنجاب میں سیاسی اثرورسوخ حاصل کرنے کے معاملے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
کچھ سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں‘ جنہوں نے مذاکرات کے حق میں فیصلے کی حمایت تو کی ہے لیکن وہ اس کیلئے اعلان کردہ اقدام کی کامیابی کو مشکوک سمجھتی ہیں۔ ان میں سے بعض نے چار رکنی کمیٹی کو ہدفِ تنقید بھی بنایا ہے۔ ان کو یہ بھی اعتراض ہے کہ وزیر اعظم نے فیصلے سے قبل انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔ ان پارٹیوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی شامل ہیں۔ اے این پی کے ایک رہنما نے چار رکنی کمیٹی پر تنقید کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اس کے ایک دو ارکان طالبان کے حامی رہے ہیں۔ اس وجہ سے اس کمیٹی کے ٹاسک کے حوالے سے بلاول بھٹوکے اس ٹویٹر پیغام کا چرچا ہو رہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے طالبان کو بھیجا جارہا ہے۔
جن پارٹیوں کو طالبان نے اپنی ہٹ لسٹ پر رکھا ہوا ہے ان کی طرف سے وزیراعظم کے اس بیان پر سخت مایوسی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ان میں تنظیم وحدت المسلمین اور متحدہ قومی موومنٹ شامل ہیں۔ان دونوں پارٹیوں کی طرف سے طالبان کے خلاف سخت اقدام کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کیونکہ کوئٹہ اور کراچی میں ان دونوں جماعتوں سے منسلک لوگ طالبان اور ان کی ہم سفر دہشت گرد تنظیموں کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں فیصلے اور اس فیصلے کے تحت چار رکنی کمیٹی کے قیام پر جو ردِعمل سامنے آیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے پر بعض حلقے بٹے ہوئے ہیں۔ اس سے نمٹنے کیلئے عملی اقدامات پر مشتمل ایک جامع حکمتِ عملی کی تشکیل تو بعد کی بات ہے، ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ دہشت گردی کے اصل اسباب کیا ہیں۔بعض سیاسی پارٹیاں بم دھماکوں، خودکش حملوں اور طالبان کے ہاتھوں فوج،پولیس او ردیگر سکیورٹی فورسز کے ارکان کے علاوہ معصوم شہریوں‘ جن میں عورتیں‘ بچے اور طالب علم بھی شامل ہیں‘کی شہادت کو دہشت گردی نہیں بلکہ امریکہ کے خلاف جنگ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب یہ واقعات رونما ہوتے ہیں تو ان پر افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے،لیکن ان افراد کے ذمہ داروں کی نہ تو مذمت کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزم کا اعلان کیا جاتا ہے بلکہ
دہشت گردی کی ان وارداتوں کی برملاذمہ داری قبول کرنے والے افراد کو ''شہید‘‘ اور ''ہیرو‘‘ کہا جاتا ہے۔دہشت گردی کے مسئلے پر پائے جانے والے کنفیوژن کا یہ عالم ہے کہ کچھ لوگ اسے صرف ڈرون حملوں کا ردِعمل سمجھتے ہیں۔بعض کے نزدیک اس کا ذمہ دار سابق صدرجنرل(ر)پرویز مشرف ہے۔ایک طرف دہشت گردی کو ملک کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے اور اسے جڑ سے اکھیڑ دینے کے عزم کا اعلان کیا جاتا ہے،تو دوسری طرف یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ہماری نہیں بلکہ امریکہ کی جنگ ہے‘ جسے ہم پر ٹھونسا گیا ہے۔وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کو ابھی تک یقین ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ نہیں ہے۔وزیراعظم نے بھی قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں اس کی ساری ذمہ داری سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف پر ڈال دی ہے‘ حالانکہ اس حقیقت کو بہت سے لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں بہت گہری ہیں۔اس کا آغاز نہ تو نائن الیون کے واقعہ سے ہوا اور نہ اس کی وجہ صرف افغانستان میں امریکیوں کی موجودگی یا ڈرون حملے ہیں۔یہ دراصل مذہبی انتہا پسندی کا نتیجہ ہے جسے پاکستان کی مختلف حکومتوں نے اپنے مفاد میں پروان چڑھایا اور جواب دہشت گردی کا روپ دھارچکی ہے۔ہمارا حکمران طبقہ جب تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا، اس وقت تک نہ تو دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی کوئی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے اور نہ ہی دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔