"DRA" (space) message & send to 7575

مذاکرات برائے امن!

حکومت کی طرف سے مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کے جواب میں طالبان نے بھی پانچ رکنی کمیٹی کا اعلان کیا۔ حکومتی کمیٹی اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے طالبان کمیٹی کا نہ صرف خیر مقدم کیا ہے بلکہ اس کے ارکان پر اعتماد کا اظہار بھی کیا؛ اگرچہ بعد میں طالبان کمیٹی کے دو ارکان‘ عمران خان اور مفتی کفایت اللہ نے شمولیت سے معذرت کر لی؛ تاہم طالبان نے باقی رہ جانے والے تین ارکان مولانا سمیع الحق‘ مولانا عبدالعزیز اور پروفیسر ابراہیم پر مشتمل کمیٹی کو ہی اپنی حتمی کمیٹی قرار دے دیا۔ دونوں طرف سے جس طرح مفاہمت اور خیر سگالی ظاہر کی جارہی ہے اس سے مجھے1963ء میں امریکہ اور سابق سوویت یونین کے درمیان این ٹی بی ٹی (Nuclear Test Ban Treaty) پر مذاکرات یاد آرہے ہیں۔ان مذاکرات کا جب ماسکو میں آغاز ہوا، تو سوویت یونین کے وزیر اعظم خرو شچیف جو حس ِمزاح (Wit)کی وجہ سے کافی مشہور تھے؛ امریکی وفد سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ پہلے معاہدے پر دستخط کرلیتے ہیں،اس کے بعد اس پر مذاکرات کریں گے۔ان کے اس بیان کا سیاق وسباق یہ ہے کہ 1962ء میں کیوبا میزائل بحران اور چین اور سوویت یونین کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں نے ماسکو اور واشنگٹن کوایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا تھا۔ دونوں نئی نئی دوستی اور تعاون کے رشتوں کے مزے لے رہے تھے۔روسی وزیراعظم اپنے اس بیان کے ذریعے یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان جب کسی مسئلے پر اختلاف ہی نہیں ہے تو بحث یا مذاکرات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔پہلی ہی نشست میں معاہدہ کرلیں‘ مذاکرات کی کیا ضرورت ہے اور اگر یہ رسم پوری کرنی ہے تو بعد میں دیکھا جائے گا۔
کچھ ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات نظر آتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ بات چیت کیلئے 4رکنی حکومتی کمیٹی‘ حکومت سے زیادہ طالبان کے نکتہ نظر کی نمائندگی کرتی نظر آئی ہے۔ یہ بات اس کمیٹی کے بعض ارکان کی تحریروں اور ٹیلی ویژن ٹاک شو یا انٹرویو میں کہی گئی باتوں سے صاف جھلکتی ہے۔اس کمیٹی کے ایک قابل احترام رکن نے تجویز پیش کی ہے کہ قبائلی علاقے یعنی فاٹا کو تحریکِ طالبان پاکستان کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ ہاں اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرسکیں۔حالانکہ یہ مطالبہ خود ٹی ٹی پی کی طرف سے ابھی تک پیش نہیں کیا گیا لیکن سب سے اہم یہ بات ہے کہ کیا ٹی ٹی پی پورے فاٹا کے عوام کی نمائندگی کرتی ہے اور اگر اس کا ایسا کوئی دعویٰ ہے،تو اس نے یہ مقام کس طریقے سے حاصل کیا ہے۔
دوسری طرف طالبان نے جو پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی اس میں ایک رکن یعنی پروفیسر محمد ابراہیم خیبر پختون خوا میں جماعت اسلامی کے صوبائی صدر ہیں۔ پہلے یہ اطلاعات آئی تھیں کہ طالبان جماعت اسلامی کے صوبائی وزیر سراج الحق کو کمیٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ سراج الحق اسلامی جمعیت طلباء کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ خیبر پختون خوا میںجماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ صوبائی حکومت کا حصہ ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ پختون خوا کی صوبائی حکومت جسے دہشت گردی کے خاتمے کی خاطر وفاقی حکومت کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیے،اس میں شامل ایک اہم جماعت کے صوبائی سربراہ طالبان کی صفوں میں کھڑے نظر آرہے ہیں۔ان کے بیان کے مطابق ان کی اپنی پارٹی کے سربراہ یعنی امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے انہیں طالبان کی نمائندگی کرنے کی اجازت دے دی ہے۔طالبان نے تحریک ِانصاف کے چئیرمین عمران خان کو بھی اپنی مذاکراتی کمیٹی کیلئے نامزد کیا۔ لیکن عمران خان نے یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑا لیا کہ وہ ایک پارٹی کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے طالبان کی نمائندگی نہیں کرسکتے حالانکہ مولانا سمیع الحق ابھی تک اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ عمران خان طالبان کمیٹی کی رکنیت قبول کر لیں۔ طالبان کمیٹی کے ایک رکن مفتی کفایت اللہ کا تعلق جمعیت العلماء اسلام(فضل الرحمن گروپ)سے ہے اور اس جماعت کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ خطیب لال مسجد اسلام آباد مولانا عبدالعزیز بھی طالبان کمیٹی کے رکن ہیں۔ انہوں نے حق نمائندگی ادا کرتے ہوئے ابھی سے معاہدے کی شرائط کا اعلان کر دیا اور حکومت پرواضح کیا کہ طالبان کی طرف سے سب سے پہلا مطالبہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان کے اسیر رہنمائوں کو رہا کیا جائے، تاکہ وہ بھی مذاکرات میں حصہ لے سکیں۔دوسری طرف حکومتی کمیٹی کی طرف سے ابھی کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔البتہ ان کے ایک آدھ رکن نے دبے لفظوں کہا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے جنگ بندی لازمی ہے۔لیکن یہ مطالبہ طالبان سے نہیں بلکہ حکومت سے کیا جارہا ہے۔ جو پہلے ہی جنگ بندی پر عمل کر رہی ہے اور ایکشن صرف اس وقت لیا جاتا ہے جب حفاظتی دستوں یا فوجی چوکیوں پر حملہ کیا جاتا ہے۔اگر طالبان سے جنگ بندی کا مطالبہ مقصود ہوتا تو صاف کہا جاتا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘ اور یہ کہ اگر طالبان امن کیلئے واقعی مخلص اور سنجیدہ ہیں تو انہیں دہشت گردی سے اجتناب کرنا ہوگا۔ لیکن دہشت گردی کے واقعات برابر ہورہے ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال پشاور کے سینما گھر میں دستی بموں سے حملہ ہے جس میں 6افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی‘ لیکن حکومت کا مسئلہ تو دہشت گردی ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے تحفظات کے باوجود طالبان سے مذاکرات کا انعقاد کیا گیا اگر ان کے باوجود دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہے اور لوگوں کی جانیں جاتی رہیں تو پھر ان مذاکرات کا کیا فائدہ؟ ابھی تک حکومت کی طرف سے سوائے مذمت کے کوئی پالیسی بیان سامنے نہیں آیا۔تاہم اس مسئلے کو زیادہ دیر تک معرض التواء میں نہیں رکھا جاسکتا۔اگر طالبان وفاقی حکومت کو حکیم اللہ محسود پر امریکی ڈرون حملے کا ذمہ دار قرار دے کر مذاکرات سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں،تو حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ملک میں یا کم از کم صوبہ خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں میں بم حملوں،خود کش حملوں اور سیکورٹی فورسز پر دہشت گردوں کی طرف سے حملوں کی روک تھام کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان پر ڈالیں اور اسے مذاکرات کے جاری رکھنے سے مشروط کرے۔لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب خیبر پختون خوا کی صوبائی اور وفاقی حکومت میں مکمل تعاون اور ہم آہنگی ہوگی۔اس وقت یہ تعاون اور ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔ حالانکہ اس کی ایک قابل تقلید مثال کراچی میں امن وامان کی ابتر صورت حال پر قابو پانے کیلئے پیپلز پارٹی کی صوبائی اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کی وفاقی حکومت کے درمیان پائے جانے والے اشتراک اور تعاون کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔حالانکہ سیاست میں یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی حریف ہیںلیکن وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں ایک دوسرے سے تعاون کر رہی ہیں۔ کراچی آپریشن میں جس حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس میں اس تعاون کا بڑا ہاتھ ہے۔
بد قسمتی سے فاٹا اور صوبہ خیبر پختون خوا جو کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، کی دوحکمران جماعتوں کے درمیان اس قسم کا تعاون ناپید ہے۔اور اس کی وجہ سے دہشت گردی نہ صرف جاری ہے بلکہ جب سے پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت تشکیل پائی ہے، دہشت گردوں کی موجودگی پہلے سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ جو رخ اختیار کر چکا ہے،اس کے پیشِ نظر اس کا حل مذاکرات کے ذریعے ممکن نظر نہیں آتا۔اس کیلئے سیاسی پارٹیوں اور خصوصاً تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور مسلم لیگ(ن)کی وفاقی حکومت کو ایک صفحہ پر آنا پڑے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں