"DRA" (space) message & send to 7575

سچ کی موت

کسی نے سچ کہا ہے کہ جنگ میں پہلی موت (First Casualty) سچ (Truth) کی ہوتی ہے۔ پاکستان بھی اِس وقت حالتِ جنگ میں ہے اور یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف لڑی جا رہی ہے۔ مُلک اس وقت بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے اور دہشت گردی اِس کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے ، اس لیے اس میں سچ کو دبانے ‘ اسے توڑ مروڑ کر پیش کرنے یا جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرنے کی کوشش بھی اُسی لیول کی شدت اور قوت سے کی جا رہی ہے ۔ ہٹلر کے پراپیگنڈا منسٹر گوئیبلز کا کہنا تھا کہ جُھوٹ کو اتنے تواتر اور اصرار کے ساتھ بولو کہ سُننے والا اُسے سچ تسلیم کرنے پر تیار ہو جائے۔کچھ اسی قسم کی صورتِ حال سے اِس وقت پاکستان کے عوام بھی دوچار ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بازاروں‘ہوٹلوں‘ سینما گھروں‘ عبادت گاہوں حتیٰ کہ سکولوں میں بم پھٹ رہے ہیں اور معصُوم شہری جِن میں مرد ‘عورتیں‘ بچے ‘طالب علم اور ملازم سبھی شامل ہیں‘ ہلاک ہو رہے ہیں ۔ دوسری طرف خُود کش بمباروں‘ریموٹ کنٹرول بموں سے پولیس اور فوج کے سپاہیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، لیکن کچھ لوگ اِن کی نہ صرف کُھلے انداز میں مذمت کرنے پر تیار نہیں بلکہ کسی تیسری قوت اور نہ معلُوم غیر مُلکی ایجنٹوں کو اِس دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ دہشت گردی کے بارے میں جو سب سے پہلا اور سب سے بڑا جُھوٹ بولا جاتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اِس کی واحد وجہ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملہ ہے؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون سے پہلے بھی پاکستان دہشت گردی کا شکار تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے جس میں مخالف فرقوں سے تعلق رکھنے والے نہ صرف سیاسی کارکن اور رہنمائوں کو قتل کیا گیا بلکہ 1996ء اور 2001ء کے درمیان سینکڑوں ڈاکٹروں ‘وکیلوں ‘پروفیسروں اور دانشوروں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کابل میں طالبان کی حکومت قائم تھی۔ اُس زمانے کے پاکستانی اخبارات ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں جِن سے ثابت ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث عناصر افغانستان میں دہشت گردی کی تربیّت حاصل کر کے پاکستان میں واردات کے ارتکاب کے بعد افغانستان فرار ہو جاتے تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ)معین الدین حیدر کے بقول کابل میں طالبان انتظامیہ ‘ حتیٰ کہ مُلا عمر کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کروائی گئی تھی اور پاکستان کی طرف سے باقاعدہ سرکاری طور پر مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میںدہشت گردی میں ملوث جن عناصر نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اُنہیں نہ صرف پاکستان کے حوالے کیا جائے بلکہ پاکستانی دہشت گردوں کو تربیت دینے کے لیے افغانستان میں جو کیمپ قائم کیے جا چکے ہیں اُنہیں بند کیا جائے۔ جنرل حیدر کے مطابق طالبان کی حکومت نے پہلے تو اس سے انکارکیا اور جب اُنہیں ٹھوس ثبوت مہیا کیے گئے تو اُنہوں نے پاکستان کی درخواست پر عمل کرنے کا وعدہ کیا ؛ تاہم یہ وعدہ کبھی پورا نہیں کیا گیا اور افغانستان میں تربیت حاصل کرنے کے بعد متعدد عناصر پاکستان میں آ کر فرقہ وارانہ دہشت گردی کا ارتکاب کرتے رہے۔
کچھ لوگوں نے نظریہ پیش کیا کہ شمالی وزیرستان میں اپنے مراکز سے طالبان پورے پاکستان کو صرف ڈرون حملوں کی وجہ سے نشانہ بنا رہے ہیں۔اُن کے جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لیے یہ حقیقت بیان کرنا کافی ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے زائد عرصہ سے کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا ، لیکن طالبان کی دہشت گردی کی کارروائیاں نہ صرف برقرار ہیں بلکہ رواں سال کے آغاز سے ان میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ اب طالبان اپنی کارروائیوں کے دفاع میں امریکی ڈرون حملوں کا نام نہیں لیتے ، اس کے بجائے وہ پاکستان کی فوج اور پولیس پر جارحانہ کارروائیوں کا الزام لگاتے ہوئے ''بدلے‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ یہ ایک اور سفید جھوٹ ہے ، اس لیے کہ پاکستانی فوج ہو یا پولیس‘ اُن سب کی کارروائیاں دفاعی ہیں ، اُن سب کی حکمت عملی طالبان کے حملوں کے خلاف دفاع پر مبنی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایک عرصہ سے فوج اور ایف سی کے جوان اپنی چوکیوں میں محصُور ہو کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب بھی قبائلی علاقوں میں تصادم ہُوا ہے‘ یہ طالبان کی طرف سے فوج ‘ ایف سی یا لیویز(Levies)کی چوکیوں پر حملوں کے نتیجے میں ہوا ہے۔ حقیقت کو توڑ مروڑ کر یا بدنیتی کی بنیاد پر اسے جان بوجھ کر جُزوی طور پر بیان کرنے کی ایک اور مثال خود دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی بیان کردہ وضاحت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی نہیں بلکہ امریکہ کی جنگ ہے اور اسے زبردستی پاکستان کے سر پر ٹھونسا گیا ہے؛ حالانکہ حقیقت اس سے مختلف ہے ۔ پاکستان 2001ء سے نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ سے منسلک ہے۔ ہم نے ''سارک‘‘ (SAARC)اور ''آسیان‘‘ (ASEAN)کے اینٹی ٹیررازم پروٹوکول (Anti- Terrorism Protocol)پر دستخط کر رکھے ہیں۔ ہم عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جو خدمات سرانجام دے رہے ہیں اُنہیں ہر پلیٹ فارم پر بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں ۔ نائن الیون واقعات کے بعد اقوام متحدہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو دُنیا کے تمام ممالک کی جنگ قرار دے چکی ہے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اپنی متعدد قراردادوں میں‘ اس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو لازمی قرار دے چکی ہے۔ اِن قراردادوں کی رُو سے اقوام متحدہ کے ہر رُکن مُلک کے لیے ضروری ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف نہ صِرف دوسرے ملکوں کے ساتھ تعاون کرے بلکہ اپنے ہاں بھی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرے جن میں مالی معاونت کے ذرائع پر پابندی‘ دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نظر اور اُن کی گرفتاری بھی شامل ہے۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی تعیناتی امریکی مرضی سے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت عمل میں آئی ہے اور اسی وجہ سے اِس کے لیے رسد کی فراہمی میں مدد دینا بھی اقوام متحدہ کے فیصلوں کی پاسداری میں شامل ہے۔ اِس کے باوجود اِس جنگ کو محض امریکہ کی جنگ کہہ کر نہ صرف اُن قربانیوں اور خدمات پر پانی پھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو پاکستان کی فوج اور سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پیش کی ہیں۔ 
پچھلے دِنوں ایک اہم سیاسی پارٹی کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ بچوں کو پولیو سے محفوظ کرنے والی دوائی کے قطرے پلانے والے مرد اورخواتین ورکرز پر طالبان کے حملے 2011ء میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کی طرف سے اینٹی پولیو مُہم کی آڑمیں اُسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں ٹھکانے پر امریکہ کو مدد فراہم کرنے کے بعد شروع ہوئے ہیں۔ان صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یا تو آپ حالیہ تاریخ سے لاعِلم ہیں یا پھر آپ صریحاً جھوٹ بول رہے ہیں۔ 2009ء سے پہلے سوات میں مُلا فضل اللہ عرف مُلّاریڈیو کی کارروائیوں کی داستانیں ہمارے میڈیا میں اکثر بیان کی جاتی رہی ہیں۔ اِن میں پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی اور اس پابندی کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں سنانے کے واقعات بھی شامل ہیں ، اس لیے یہ دعویٰ کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی ہی پولیو ٹیموں پر طالبان کے حملوں کا ذمہ دار ہے‘ نہ صرف غلط بلکہ منافقت پر مبنی ہے۔
دراصل امریکہ نے ماضی میں پاکستان کے ساتھ جو ہاتھ کیا ہے اور 1979-88ء کے دوران افغان جہاد کو جِس طرح اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے‘اُس کے پیش نظر پاکستانیوں کی اکثریّت نہ صرف امریکہ پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ وہ امریکہ کے خلاف ہر کچی پکی بات پر بغیر کسی غور و فکر‘ چھان بین یا تحقیق و تفتیش کے یقین کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا میں کچھ لوگوں کو خاص طور پر اس بات پر مامُورکیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردی کی جنگ میں جھوٹ کو اِس طرح پیش کریں کہ وہ سچ نظر آئے اور سچ کو اس طرح توڑیں اور مروڑیں کہ اُس میں سچائی کی کوئی رمق باقی نہ رہے تاکہ لوگ کبھی بھی یہ فیصلہ نہ کر سکیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں