"DRA" (space) message & send to 7575

پاک افغان تعلقات کا معمہ

گزشتہ اتوار یعنی23فروری کو وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے کابل میں تھے۔انہوں نے اپنے ہم منصب افغان وزیر خزانہ کے ساتھ کمیشن کی صدارت کرتے ہوئے نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو مزید بڑھانے کیلئے اقدامات پر غور کیا،بلکہ جلال آباد میں پاکستان کی مالی امداد سے تعمیر ہونے والے نشتر کڈنی ہسپتال کو افغان حکومت کے حوالے کرنے کی رسم بھی ادا کی۔اس کے علاوہ طور خم سے جلال آباد تک دو رویہ سڑک کی تعمیر کا سنگ بنیاد بھی رکھا جو پاکستان کی مالی اور فنی امداد سے تعمیر کی جارہی ہے۔افغانستان میں پاکستان کی مدد سے ان کے علاوہ چند دیگر منصوبے بھی مکمل کیے جارہے ہیں۔ان میں 400 بستروں پر مشتمل کابل میں جناح ہسپتال اور200بستروں پر مشتمل لوگر میں ہسپتال بھی شامل ہیں۔ افغانستان کے شہر بلخ میں پاکستان کی مدد سے ایک انجینئرنگ یونیورسٹی بھی تعمیر کی جارہی ہے۔ دوسرے منصوبوں میں کابل میں تعمیر کیے جانے والا رحمان بابا سکول اور1500بچوں کیلئے ایک ہوسٹل بھی شامل ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مواصلاتی رابطے بڑھانے کیلئے پشاور،جلال آباد موٹروے اور پشاور جلال آباد ریلوے لائن تعمیر کرنے کی بھی پیش کش کی ہے۔پاکستان کی موجودہ حکومت اور خصوصاً وزیراعظم نواز شریف افغانستان کے ترقیاتی منصوبوں میں پاکستان کی شرکت میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے حال ہی میں پاکستان کی طرف سے افغانستان کو دی جانے والی ترقیاتی امداد میں500ملین ڈالر تک کا اضافہ کردیاہے۔ 
وزیرخزانہ کے دورئہ کابل اور مشترکہ اقتصادی کمیشن کے اجلاس کا بڑا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی سست رفتار 
کو تیز کرنا تھا‘ کیونکہ 2010ء کے افغان پاک ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ(Afghan-Pakistan Transit Trade Agreement)کے باوجود پاکستان او ر افغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی واقع ہورہی ہے۔اگرچہ گزشتہ 6برسوں میں تجارت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً2007ء میں پاک افغان دوطرفہ تجارت کا حجم 0.83بلین ڈالر تھا‘ اور ایک اندازے کے مطابق گزشتہ برس یعنی 2013ء میں یہ مقدار2.38بلین ڈالر تھی۔اس حجم میں افغانستان کو پاکستانی برآمدات کی زیادہ مقدار شامل ہے۔لیکن ماہرین کے مطابق پاکستان کی جانب سے افغانستان کو پاکستان کے راستے بیرونی دنیا اور خصوصاً بھارت کے ساتھ تجارت کی سہولتیں فراہم کرنے کے باوجود دونوں ملکوں میں نہ صرف دوطرفہ تجارت کا گراف گر رہا ہے بلکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں بھی کمی واقع ہورہی ہے۔اس کی دووجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ایک یہ کہ افغانستان اور ایران کی تجارت میں اضافہ ہورہا ہے حالانکہ ایران کے راستے تجارت کرنے سے افغانستان کو50فیصد زیادہ اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں۔ دوسری وجہ سکیورٹی خدشات کی بنا پر پاکستان کے راستے افغانستان مال لے جانے والے ٹرکوں کی تلاشی،کسٹمز حکام کی سست روی اور غیر ضروری تاخیر ہے۔ان مسائل پر قابو پانے کیلئے کابل میں منعقدہ مشترکہ کمیشن نے پاکستان کی تجاویز پر مشتمل متعدد سفارشات تیار کی ہیں‘ جن میں طور خم اور چمن کے علاوہ وزیرستان سے تیسرے تجارتی روٹ کو کھولنے کی تجویز بھی شامل ہے۔پاکستان اور افغانستان نے 
دونوں ملکوں میں سمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات پر بھی زور دیا‘ جس کی وجہ سے سرکاری ذرائع سے کی جانے والی تجارت میں کمی آرہی ہے۔اس کے علاوہ پاکستان نے پاک افغان تجارتی نیٹ ورک میں تاجکستان کو شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ ان سب تجاویز کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاشی تعاون اور مواصلاتی رابطوں کو فروغ دینا ہے‘ تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان صرف تجارت ہی نہیں بلکہ سیاسی میدان میں بھی خیر سگالی میں اضافہ ہو۔
لیکن ابھی ان اعلانات کی سیاہی بھی خشک نہیںہوئی ہوگی کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملحقہ افغانستان کے صوبہ کنر کے علاقے غازی آباد میں واقع ایک سرحدی چوکی پر طالبان کے ایک حملے نے پاک افغان تعلقات میں ایک دفعہ پھر کشیدگی پیدا کر دی ہے۔اس حملے میں‘ جورات کے پچھلے پہر کیا گیا‘ طالبان کے ہاتھوں افغان نیشنل آرمی کے21جوان مارے گئے اور سات کو اغوا کرلیا گیا۔کسی ایک حملے میں افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افغان فوج کے سپاہیوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ افغانستان میں ان ہلاکتوں پر سوگ منایا جا رہاہے۔اطلاعات کے مطابق ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سینکڑوں لوگوں نے اجتماعی جلوس نکالے اور افغان صدر کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔افغان وزارتِ دفاع کے ایک اعلیٰ افسر جنرل دولت وسیری نے الزام عائد کیا ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی سرحد پار کی گئی اور اس میں سینکڑوں طالبان کے علاوہ عرب، چیچنیا اور ازبکستان کے جنگجو بھی شامل تھے۔جنرل وسیری کے مطابق افغانستان میں ایک پراکسی وار جاری ہے اور اس میں پاکستان اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث ہیں۔افغان حکام کے دعووں کے مطابق پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں افغان طالبان کی مدد کر رہی ہیں۔افغان حکام کے ان دعووں کے برعکس کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ کنر کی اس سرحدی چوکی پر افغان طالبان کے تباہ کن حملے میں خود افغان نیشنل آرمی کے ان جوانوں کا کردار ہے جوطالبان سے ملے ہوئے تھے۔ انہوں نے رات کے اندھیرے میں طالبان کو کیمپ میں بلاروک ٹوک داخل ہونے میں مدد فراہم کی اور حملہ آوروں نے انہیں سنبھلنے کا موقعہ ہی نہیں دیا۔افغان فوجی اپنی امداد کیلئے نیٹو طیاروں کی مدد بھی حاصل نہ کرسکے کیونکہ طالبان صرف دوگھنٹے میں اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد قیدیوں سمیت غائب ہوگئے۔ چونکہ یہ حملہ ایک ایسی چوکی پر کیاگیا‘ جو پاکستانی سرحد کے قریب ہے اور ایک ایسے علاقے میں کیاگیا‘ جہاں پاکستان سے بھاگ کر آنے والے پاکستانی طالبان بھی روپوش ہیں‘ اس لیے افغان حکام کو پاکستان پر انگلیاں اٹھانے میں دیر نہیں لگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں جاری خانہ جنگی میں طالبان کا پلہ بھاری ہوتا جارہا ہے۔ اس کا ثبوت اس حملے میں افغان نیشنل آرمی کے بھاری جانی نقصان کی صورت میں ہی نہیں،بلکہ افغانستان کے دیگر حصوں بلکہ خود کابل میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کی شکل میں بھی ہمارے سامنے ہے۔اس حملے سے ان خدشات کو بھی تقویت ملی ہے جن کے تحت بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ اس سال کے آخر تک افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد افغان نیشنل آرمی طالبان کے حملوں کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سگے گی۔اس حملے میں کامیابی سے افغان طالبان کے حوصلے اس حد تک بڑھے ہیں کہ انہوں نے اپنے پانچ رہنمائوں کی رہائی کے عوض ایک امریکی فوجی کو رہا کرنے کیلئے مذاکرات کو معطل کرنے کااعلان کر دیا ہے۔ غالباً آئندہ چند ماہ میں افغانستان کے اندر بڑے اہم واقعات رونما ہونے والے ہیں۔دوماہ کے بعد افغانستان میں صدارتی انتخابات ہوں گے۔طالبان نے ان انتخابات کو ایک ڈھونگ اور محض وقت کا ضیاع قرار دیا ہے اور انہیں ناکام بنانے کیلئے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں اور عملے پر اپنے حملے بھی تیز کر دیے ہیں۔اگر آنے والے دنوں میں افغان طالبان کے حملوں میں شدت آتی ہے اور اگریہ حملے زیادہ تر افغانستان کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں کیے جاتے ہیںتو پاک افغان تعلقات میں کشیدگی ناگزیرہوجائے گی۔ اس لیے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی جتنی مرضی کوششیں کی جائیں، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مشکلات اور رکاوٹوں کو اس وقت تک دور نہیں کیا جاسکتا جب تک افغانستان کی صورت حال میں استحکام نہیں آتا۔پاکستان اور افغانستان دونوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے اگر دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینا مقصود ہے،تو سب سے پہلے اس مشترکہ چیلنج سے نمٹنے کیلئے باہمی اشترک وتعاون پرمبنی حکمتِ عملی اختیار کرنا ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں