بھارت میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے بعد اب نئی یعنی سولہویں لوک سبھا کے 543ارکان کے چنائو میں ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔ شیڈول کے مطابق یہ انتخابات نو مرحلوں میں مکمل ہوںگے۔ پہلے مرحلے کا آغاز 7اپریل کو ہوگا جبکہ ووٹ ڈالنے کا آخری رائونڈ 12مئی کو وقوع پذیر ہوگا۔یوں ایک ماہ سے زائد عرصہ تک بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ کُل ووٹوں کی تعداد814ملین ہے جن میں 100ملین یعنی دس کروڑ پہلی دفعہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان انتخابات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس دفعہ نوجوان ووٹرز کا تناسب زیادہ ہوگا۔ تمام مراحل کی تکمیل کے بعد نتائج کا اعلان 16مئی کوکیا جائے گا۔
ملک میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ سب سے نمایاں حکمران کانگرس پارٹی اور اپوزیشن پارٹی بی جے پی ہے۔ وہ ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہیں۔ بی جے پی کے امیدوار نریندرا مودی ملک کے تقریباً تمام حصوں کا دورہ کر کے انتخابی جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ ان میں سے بعض جلسے حاضری کے اعتبار سے کافی بڑے تھے۔اس کے مقابلے میں کانگرس کی انتخابی مہم جس کی رہنمائی راہول گاندھی کے ہاتھ میں ہے اتنی متاثرکُن نہیں۔ بھارت کے طُول و عرض میں نریندرامودی کا جس طرح عوامی سواگت کیا گیا ہے، اُس سے بہت سے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہے کہ وہی بھارت کے آئندہ وزیراعظم ہوں گے۔ اگر نریندرامودی بھارت کے آئندہ وزیراعظم منتخب ہو جاتے ہیں تو ملک کی خارجہ پالیسی کیسی ہوگی؟ خصوصاً بھارت کے دو بڑے ہمسایہ ممالک یعنی چین اور پاکستان کے تعلقات پرکیا اثر پڑے گا؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے اپنی پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے بعد نریندرامودی نے تقریباًاپنی ہر تقریر میں چین اور پاکستان کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔مودی نے بھارتی عوام کے جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے کانگرس حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس کے دور میں بھارت کے قومی مفادات کو نقصان پہنچا ہے اور ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت نے چین اور پاکستان کے بارے میں ایک کمزور اور معذرت خواہانہ خارجہ پالیسی اپنائے رکھی۔ نریندرا مودی اپنی تقاریرمیں چین کو ایک جارح اور توسیع پسند ملک قرار دے چکے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں بھی نریندرامودی نے بڑے اشتعال
انگیز بیانات دیے ہیں۔گزشتہ سال کے آغاز میں اور پھر اگست 2013 ء میں جب کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستانی اور بھارتی فوجوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں کچھ بھارتی فوجی جوان مارے گئے تو نریندرامودی نے پاکستان کے خلاف فوری اور سخت فوجی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ گزشتہ برس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور اُن کے پاکستانی ہم منصب میاں نواز شریف کے درمیان نیویارک میں جو ملاقات ہُوئی تھی، نریندرامودی اُس کے بھی بہت خلاف تھے۔ اُنہوں نے ڈاکٹر من موہن سنگھ پر پاکستان کی مبینہ اشتعال انگیزیوں کے مقابلے میں کمزوری دکھانے کا الزام عائد کیا تھا۔ نریندرامودی کے ان اعلانات کے پیشِ نظر بہت سے مبصرین کی رائے ہے کہ مودی کے وزیراعظم بننے سے چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کشیدہ ہو جائیںگے،خصوصاً پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی کیونکہ نریندرامودی نے اپنی تقاریر میں پاکستان کو خاص طور پر نشانہ بنایا ہے۔کیا نریندرامودی کے وزیراعظم بننے سے جنوبی ایشیا میں کشیدگی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا؟
نریندرامودی نے گجرات کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اپنے بارے میں جو تاثر پیدا کیا وہ انتہا پسند ہندو قوم پرست اور مسلمانوں کے دُشمن کا ہے۔ یہ تاثرصرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دُنیا بھرکے علاوہ خُود بھارت میں بھی پایا جاتا ہے۔اِسی وجہ سے اُس کا امریکہ میں داخلہ بند ہے کیونکہ اُس پر 2002 ء میں گجرات میں
انتہا پسند ہندوئوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کے قتلِ عام میں بالواسطہ ملوث ہونے کا الزام ہے۔نر یندرا مودی نے اس الزام کی نہ توکبھی تردیدکی اور نہ ہی اس پر پچھتاوے کا اظہارکیا ہے۔ لوک سبھا کے آئندہ انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بی جے پی مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے لیکن نریندرامودی اب بھی بڑے فخرسے اپنے آپ کو ایک ہندو قوم پرست کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اِسی بنا پر بھارت کے اندراور باہر خصوصاً پاکستان میںخدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ نریندرامودی کے وزیراعظم بننے سے نہ صرف بھارت کے اندر فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوگا بلکہ چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات بھی متاثر ہوں گے ۔لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں،اس کی تین بڑی وجوہ ہیں۔ نریندرامودی اس وقت جو کچھ کہہ رہا ہے وہ بطور ایک اپوزیشن لیڈرکہہ رہا ہے لیکن اگروہ برسراقتدارآگیا تو وُہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات نہیں دے سکے گا۔
دوسرے، چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے دو طرفہ تعلقات اس قدر آگے بڑھ چکے ہیںکہ اُنہیں بیک گیئر لگانا ناممکن ہے۔اِس وقت بھارت اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 60 بلین ڈالرکے قریب ہے۔دوطرفہ تجارت میں اضافے سے دونوں ملکوں کے مفادات کو فائدہ پہنچا ہے، اسی لیے گزشتہ برس چینی وزیراعظم کے دورہ بھارت کے موقع پر اِسے مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اِسی طرح پاکستان اور بھارت میں اگرچہ دو طرفہ تجارت پر اب بھی کئی پابندیاں موجود ہیں لیکن ایک دہائی میں اس کے حجم میں پانچ گُنا سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور مزید اضافہ متوقع ہے۔ بھارت کا کارپوریٹ سیکٹر جو اس وقت کانگرس کے مقابلے میں نریندرامودی کا ساتھ دے رہا ہے، پاکستان کے ساتھ تجارت اور اقتصادی تعاون بڑھانے کے حق میں ہے۔ نریندرامودی اِس سیکٹرکادبائونظر انداز نہیں کرسکے گا۔
تیسرے، غالب امکان یہی ہے کہ آئندہ حکومت کانگرس کی ہو یا بی جے پی کی، یہ مخلوط حکومت ہوگی جس میں شامل دیگر پارٹیوں کے نظریات اور پالیسیاں مختلف ہو سکتی ہیں۔ حکومت کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ اِن سب کو ساتھ لے کر چلے۔اگر بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے اپنی ساتھی پارٹیوں کی ترجیحات پر توجہ دینی پڑے گی اور اِسے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر لچک کا اظہار کرنا ہوگا۔
اِس کی سب سے بڑی مثال خود بی جے پی کا گزشتہ دورِ اقتدار ہے۔ پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کوششوں کا آغازاسی کی حکومت نے کیا تھااور اس سلسلے میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کاکرداراہم تھا جنہوں نے چین اور پاکستان کا دورہ کر کے امن مذاکرات کی بنیاد رکھی تھی۔ اگرچہ مودی واجپائی کا ہم پلہ نہیں؛ تاہم علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کے اُبھرتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظرمودی کو بھی واجپائی کا راستہ اختیارکرنا پڑے گا۔