وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے حوالے سے نشر ہونے والی ایک اطلاع کے مطابق حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اس مقصد کیلئے ایک نئی حکومتی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ امید کی جارہی ہے کہ مذاکرات کے اگلے ادوار میں طالبان کی طرف سے بھی ایک نئی کمیٹی حصہ لے گی۔حکومتی کمیٹی میں سرکاری افسران حکومت کی جانب سے بات چیت میں حصہ لیں گے لیکن فوج کا کوئی نمائندہ شامل نہیں ہوگا۔البتہ پہلے کی طرح فوج کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری رہے گا اور یہ ہے بھی ضروری اور اہم،کیونکہ فوج نہ صرف حکومت کا حصہ ہے بلکہ اس کی طرف سے اِن پٹ مذاکرات کو صحیح سمت میں رکھنے اور ان سے مطلوبہ مقاصدحاصل کرنے کیلئے لازمی ہے۔تاہم فوج جس کے جوان اور افسران فرنٹ لائن پر دہشت گردوں کے بزدلانہ اور بہیمانہ حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کر رہے ہیں،کو مذاکرات کی میز پر لا کر ان کے برابر بٹھانا کسی طور بھی مناسب نہیں تھا۔حکومت نے فوج کو پسِ منظر میں رکھ کر اور خود مذاکرات کی براہ راست باگ ڈور سنبھال کر انتہائی دانشمندی اور جمہوریت نوازی کا ثبوت دیا ہے۔حالانکہ کچھ حلقوں کی طرف سے‘ جو اپنی طالبان نوازی کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہیں‘نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی میںفوج کا بھی ایک نمائندہ ہونا چاہیے۔کہا جاتا ہے کہ یہ تجویز سب سے پہلے موجودہ حکومتی کمیٹی کے ایک رکن میجر عامر نے پیش کی تھی۔ایک اور رکن رحیم اللہ یوسفزئی نے اس کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج مذاکرات کا حصہ بننے کیلئے تیار ہے اور طالبان بھی یہی چاہتے ہیں۔ حالانکہ طالبان کمیٹی کے رکن اور جماعت اسلامی خیبر پختون خوا کے صوبائی صدر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا تھا کہ ان کی جماعت کی طرف سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا۔البتہ اگر حکومتی کمیٹی میں فوج کے نمائندے کو شامل کر لیا جائے تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ طالبان کی طرف سے کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے تو آغاز میں ہی چیف آف دی آرمی سٹاف اورڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کا مطالبہ کیا تھا۔ ان کے اس مطالبے کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ سویلین حکومت با اختیار نہیں۔اصل اختیارات فوج کے پاس ہیں۔اس لیے حکومت یا حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات بے کار اور سعی لا حاصل ہیں۔اس لیے انہوں نے ابتدائی مراحل میں ہی یہ مطالبہ پیش کیا تھا کہ یا تو ان کی براہ راست آرمی کمانڈ سے بات چیت کروائی جائے یا پھر مذاکرات کی میز پر حکومتی کمیٹی کے ساتھ فوج کے نمائندے کو بھی بٹھایا جائے۔
یہ مطالبہ پیش کرتے ہوئے طالبان یہ بھول جاتے ہیں کہ موجودہ حکومت ایک منتخب آئینی اور قانونی حکومت ہے،جسے پاکستان کے اندرونی اور بیرونی امور کو نمٹانے کا پورا پورا حق اور اختیار حاصل ہے۔دوسرے فوج اور قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے حکومت اور اس کے فیصلہ سازی کے عمل کا اہم حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے فیصلوں کو تسلیم کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ فوج طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حامی نہیں ہے۔بلکہ گزشتہ حکومت کے دور میں جب طالبان نے مذاکرات کی پیش کش کی تھی،فوج کی طرف سے اس وقت بھی اعلان کیا گیا تھا کہ وہ مذاکرات کی مخالف نہیں ہے۔موجودہ حکومت اور فوج میں بھی مذاکرات کے مسئلے پر مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود پھر طالبان اور ان کے حمایتیوں کی طرف سے حکومت کو بائی پاس کر کے ٹی ٹی پی اور فوج کے درمیان براہ راست مذاکرات یا مذاکراتی کمیٹی میں فوج کے نمائندے کی شمولیت پر کیوں اصرار کیا جاتا رہا ہے؟
اس کی واضح طور پر تین وجوہ نظر آرہی ہیں۔ایک یہ کہ اس کا مقصد ٹی ٹی پی کا قد بڑھا کر اسے عوام کی منتخب حکومت کے برابر لاناہے۔مولانا فضل الرحمن نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ طالبان کو سٹیٹ کے برابر درجہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس کوشش میں مصروف لوگوں کو معلوم نہیں کہ اس کے کیا مضمرات برآمد ہوسکتے ہیں۔ایسا کرنے سے خود سٹیٹ کا شیرازہ بکھرنے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اگر کالعدم دہشت گرد تنظیم کو سٹیٹ کے برابر درجہ دیاجاتا ہے تو کل کوئی اور نان سٹیٹ ایکٹر اس مرتبے کا دعوے دار بن سکتا ہے۔اس مطالبے کے پیچھے ان لوگوں کاہاتھ ہے جو فوج اور حکومت میں ہمیشہ دوری پیدا کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ان کے خیال میں حکومت اور فوج دو متوازی اختیارات کے مالک ادارے ہیںحالانکہ نہ تو حکومت اور نہ فوج کی یہ سوچ ہے لیکن اس کے باوجود اہم قومی معاملات میں‘ خواہ ان کا تعلق اندرونی سکیورٹی سے ہو یا خارجہ پالیسی سے‘ یہ عناصر فوج اور حکومت کو الگ راستوں پر چلتے ہوئے دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔تیسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو گزشتہ ایک دہائی سے نمائندہ سیاسی اداروں مثلاً پارلیمنٹ اور اس کے منتخب اراکین کو نہ صرف نااہل،بدعنوان اور بے کار ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں بلکہ اپنے کالموں میں پورے جمہوری سیاسی عمل کی بساط الٹنے کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ اس مقصد کیلئے میڈیا پر سیاسی پارٹیوں، سیاستدانوں، اسمبلیوں اور ان کے اراکین کے خلاف ایک منظم اور نان سٹاپ تحریک چلائی گئی اور کوئی جرم ایسا نہیں تھا جو ان کے پلڑے میں نہیں ڈالا گیا تھا۔مقصد یہ تھا کہ منتخب اداروں اور ان کے منتخب اراکین کو بدنام کرکے پورے جمہوری سیاسی عمل پر سے عوام کا اعتماد ختم کیا جائے‘ یوں عوامی حاکمیت پر ڈاکہ ڈال کر آمریت کی راہ ہموار کی جائے۔لیکن گزشتہ انتخابات میں عوام نے بھر پور شرکت کر کے معتدل سوچ کے حامل لوگوں کو منتخب کر کے اور انتہا پسندی کا پرچار کرنے والوں کو یکسر مسترد کرکے جس سیاسی شعور اور بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے،اس سے جمہوریت کے ان دشمنوں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن اب دہشت گردوں کی وکالت کر کے یہ عناصر اپنے ان مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہیں وہ اب تک حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
ملک میں ایسے تجزیہ نگاروں کی ایک کھیپ موجود ہے جو جمہوریت،جمہوری سیاسی عمل اور موجودہ آئینی اور قانونی نظام کو عوام کی نظر میں گرانے کیلئے مختلف تاویلیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کو بائی پاس کر کے فوج کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے حق میں بیانات اور مطالبات اس مہم کا ایک حصہ ہیں۔حد یہ ہے کہ کچھ حلقوں نے سربراہِ حکومت یعنی وزیراعظم نوازشریف کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کا مشورہ دیاتھا۔اس مطالبات کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ حکومت کے مقابلے میں طالبان جنہوں نے کھلم کھلا آئین سے بغاوت کا اعلان کر رکھا ہے اور قانون کی دھجیاں اڑا رکھی ہیں،کا درجہ بلند کیا جائے،حکومت کو بائی پاس کر کے اسے حقیر اور غیر متعلقہ (Irrelevant)ثابت کیا جائے۔مولانا سمیع الحق جو کہ مذاکرات کیلئے طالبان کی طرف سے مقرر کردہ کمیٹی کے رکن ہیں‘ کے بیان سے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومتی کمیٹی میں فوج کے نمائندے کی شمولیت اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے مذاکرات نتیجہ خیز ہوں گے، یہ سوچ صاف طور پر جھلکتی ہے۔