بلوچستان کے وزیرِ داخلہ میر سرفراز احمد بگٹی کے ایک بیان کے مطابق صوبے کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک ناراض بلوچوں کو منانے اور انہیں قومی سیاست کے دھارے میں واپس لانے کیلئے ان رہنمائوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جنہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔ اس کوشش میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کو نہ صرف وفاقی حکومت کی پوری حمایت حاصل ہے بلکہ بلوچستان اسمبلی نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے انہیں ناراض بلوچ عناصر سے رابطہ قائم کرنے اور ان کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دے رکھا ہے۔ ابھی یہ نہیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک نے کن بلوچ رہنمائوں سے ملاقات کی اور کن امور پر بات چیت ہوئی؛ تاہم قیاس کیا جاتا ہے کہ انہوں نے لندن میں مقیم بلوچ رہنمائوں سے رابطہ قائم کیا‘ کیونکہ حال ہی میں وہ لندن میں ایک ہفتہ کے قیام کے بعد واپس لوٹے ہیں۔ اس سے قبل اوائل فروری میں وزیر اعلیٰ نے کوئٹہ میں زیرِتربیت سینئر سرکاری افسران کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کیلئے ناراض بلوچ رہنمائوں کے ساتھ ڈائیلاگ شروع کرنے کی کوشش کررہی ہے‘ کیونکہ ان کے مطابق بات چیت کے ذریعے صوبے میں جاری سرکشی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بلوچستان میں ماضی کی شورشوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ ہر دفعہ جب بھی صوبے میں اختلافات نے سَر اٹھایا، اس پر بات چیت کے ذریعے ہی قابو پایا گیا۔ انہوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ بات چیت کے ذریعے بلوچستان کے مسئلے کا پُرامن، تسلی بخش اور دیرپا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟ بنیادی طور پر اس کا تعلق صوبائی خود مختاری کی حدود سے ہے جن کے بارے میں وفاق اور بلوچ قوم پرست حلقے ایک دوسرے سے مختلف موقف رکھتے ہیں۔ وفاق کا اصرار ہے کہ موجودہ آئین میں خصوصاً اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی خود مختاری کے مسئلے کو بڑی حد تک حل کر دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے، متعدد وزارتوں کو وفاقی حکومت سے صوبائی حکومتوں کو منتقل کرنے اور زمین کے اندر دفن قدرتی وسائل مثلاً تیل، گیس اور معدنیات کی ملکیت وفاق اور صوبوں میں برابر کی سطح پر تقسیم جیسی شِقوں کی مثال دی جاتی ہے۔ لیکن غالباً قوم پرست حلقے اس سے مطمئن نہیں اور ان میں سے بعض عناصر نے اپنے مطالبات کے حق میں جدوجہد شروع کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور مسلح تنظیموں کے اراکین کے درمیان خونریز تصادم، گیس پائپ لائنوں اور بجلی کے کھمبوں پر حملوں اور ریلوے لائنز کو دھماکوں سے اڑانے کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان مطالبات میں بلوچ قومی دولت پر مکمل ملکیت کا نعرہ بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسے مطالبات ہیں کہ کوئی بھی حکومت‘ جسے ملک کی سالمیت اور خود مختاری عزیز ہے، جن کو تسلیم نہیں کر سکتی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ صوبائی خود مختاری کے انتہا پسندانہ اور بظاہر ناقابل قبول مطالبات کے باوجود بالآخر سیاسی پارٹیوں کے درمیان بات چیت اور کچھ لو اور کچھ دو کی حکمتِ عملی کے تحت ایسے مشکل اور پیچیدہ مسائل کا بھی حل تلاش کر لیا گیا جن کا حصول بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔ اس کی ایک مثال 1956ء کے آئین پر پاکستان کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کا متفق ہونا تھا۔ ان پارٹیوں میں عوامی لیگ اور اس کی ہم خیال بنگالی پارٹیاں بھی شامل تھیں جو مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم میں اول الذکر کو صرف تین محکمے دفاع، کرنسی اور خارجہ امور دینے پر اصرار کر رہی تھیں‘ لیکن 1956ء کے آئین کے تحت انہوں نے پاکستان کے اتحاد اور یک جہتی کی خاطر نہ صرف صوبوں کے مقابلے میں مرکز کو زیادہ اختیارات دے دیے بلکہ قومی اسمبلی میں آبادی کی بنیاد پر حق نمائندگی سے دستبردار ہو کر مساوی نمائندگی کے اصول کو بھی تسلیم کیا۔ یہی سپرٹ 1973ء میں بچے کھچے پاکستان کے چھوٹے صوبوں نے نئے آئین کی تشکیل کے وقت دکھائی تھی حالانکہ1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے نتیجے میں ملک جس صورتِ حال سے دوچار تھا، انتہا پسند عناصر اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے‘ لیکن بات چیت کے ذریعے بالآخر ان اختلافات کو دور کر کے 1973ء کا متفقہ آئین تشکیل دیا گیا۔ ان مثالوں کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ
بلوچستان کا مسئلہ بھی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ بنیادی طور پر یہ سیاسی مسئلہ ہے۔ لیکن ہمارے حکمران طبقوں خصوصاً غیر جمہوری حکمرانوں نے اس مسئلے کی سیاسی نوعیت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے یا تو محض لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ قرار دے کر قوت کے استعمال سے حل کرنے یا پیسے کے ذریعے سیاسی جدوجہد کو دبانے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں نہ تو مسلح آپریشن کامیاب ہوئے، نہ دوسرے ادارے امن قائم کر سکے اور نہ پیپلز پارٹی کے دور میں وفاقی حکومت کی طرف سے مالی امداد پر مشتمل مختلف پیکجز صوبے کے حالات کو بہتر بنا سکے۔
لیکن2013ء کے انتخابات کے بعد مرکز اور بلوچستان میں نئی حکومتوں کے اقتدار سنبھالنے کے نتیجے میں بلوچستان کے مسئلے کے حل کی ایک نئی اور قوی امید پیدا ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کے باوجود ایک موثر حکومت قائم ہے‘ کیونکہ وزیر اعلیٰ کا تعلق ایک ایسی پارٹی سے ہے جو نیشنلزم کے مطالبات کی حمایت کرتی رہی ہے اور مرکز میں محمد نواز شریف کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی بلوچستان کے مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی کا آغاز کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں جنوری کے آخر میں وزیر اعظم نواز شریف کا دورہ کوئٹہ خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ انہوں نے صوبائی دارالحکومت میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ہدایات جاری کی تھیں کہ ناراض بلوچ رہنمائوں
کے ساتھ بات چیت اور مفاہمت کا سلسلہ شروع کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اس اجلاس میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک، چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان، جنوبی کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ، پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، سینیٹر میر حاصل بزنجو، وفاقی وزیر برائے ریاستی امور اور فرنٹیر ریجن ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ، چیف سیکرٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد، آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد، آئی جی پولیس مشتاق سکھیرا اور ان کے علاوہ سینئر سول اور فوجی افسران نے شرکت کی تھی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے بلوچستان میں احساسِ محرومی کو ختم کرنے اور صوبے میں ترقی کے عمل کو تیز کرنے کیلئے جہاں کئی تجاویز دیں، وہاں انہوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے سیاسی اور فوجی قیادت مل کر کوشش کریں اور ناراض بلوچ رہنمائوں سے مذاکرات اور مفاہمت کا عمل شروع کرنے کیلئے کمیٹی صوبے کی سیاسی قیادت سے مشورہ کے ذریعہ تشکیل دی جائے۔
وقت گزرنے کے ساتھ اور ماضی کے حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث بلوچستان کا مسئلہ ایک پیچیدہ نوعیت اختیار کر چکا ہے‘ اس لیے اس کے حل کی خاطر نہ صرف ثابت قدمی، خلوص اور سنجیدگی درکار ہے بلکہ اس میں دیر بھی ہو سکتی ہے؛ تاہم اس سمت کامیابی کی منازل طے کرنے کیلئے اعتماد سازی کے چند اقدامات کی ضرورت ہے جن میں سب سے زیادہ اہم گم شدہ افراد کی بازیابی اور مائنڈ سیٹ میں تبدیلی ہے۔