پاکستان نے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو مکمل طور پر کھولنے کے فیصلے کو ایک دفعہ پھر موخر کر دیا ہے۔اس دفعہ یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ بھارت کے آئندہ انتخابات سے قبل اتنا بڑا قدم اٹھانامناسب نہیں ہوگا ؛ تاہم اصل حقیقت یہ ہے کہ ملک کے طاقتور حلقوں کو بھارت کے ساتھ تجارت کو تمام پابندیوں سے آزاد کرنے پر تحفظات ہیں۔ان تحفظات کا تعلق قومی معیشت سے بھی ہے اور نیشنل سکیورٹی سے بھی۔انتہا پسند حلقوں اورجہادی عناصرکی جانب سے ان کی جو مخالفت ہوتی رہی ہے، وہ اس کے علاوہ ہے۔
دو ہمسایہ ملکوں میں اختلافات کے باوجود باہمی تجارت کوئی انوکھی بات نہیں۔اس کی سب سے نمایاں مثال چین اور بھارت کے درمیان ہر سال اربوں ڈالر مالیت کے سامان کا لین دین ہے۔ باوجود اس کے کہ ماہرین پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کے فروغ کو دونوں ملکوں کی معیشت کے لیے نہایت سود مند قرار دیتے ہیں،ان کے درمیان تجارت پر بدستور پابندیاں عائد ہیں۔پاک بھارت تجارت کے حق میں بہت سے مضبوط دلائل دیے جاتے ہیں ، ان میں سب سے زیادہ اہم جغرافیہ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک طویل سرحد ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے اس سرحد کے آر پار بہت سے راستے تجارت کے لیے استعمال ہوتے تھے ، ان کو بحال کر کے دونوں ملک نہ صرف ایک دوسرے کو اپنی برآمدات بڑھا سکتے ہیں بلکہ صارفین کو متعدد اشیاء سستے داموں بھی فراہم ہوسکتی ہیں،اس لیے کہ فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے تجارتی سامان پر اٹھنے والے کرایوں میں نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان جو تجارت ہورہی ہے وہ ممبئی،
دوبئی اور کراچی کے راستے سے ہورہی ہے۔ فاصلہ طویل ہونے کی وجہ سے کرائے زیادہ ہیں اس لیے پاکستان میں بھارتی سامان مہنگے داموں بکتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ صرف تجارت جاری ہے بلکہ اس میں گزشتہ دس برسوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے ، لیکن اس کا توازن بھارت کے حق میں ہے۔ پاکستان کو بھارتی برآمدات کے مقابلے میں، بھارت کو پاکستانی برآمدات کی مقدار1/6 سے بھی کم ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اگر بھارت اپنے ہاں پاکستانی اشیائے تجارت پر غیر رسمی پابندیاں دورکر دے تو بھارت کو پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم دو ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے جس میں پاکستانی برآمدات کا حصہ صرف35کروڑ ڈالر ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت پر سے پابندیاں اٹھالی جائیں تو بھارت کو پاکستانی برآمدات ایک ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے بلکہ بعض ماہرین کے مطابق ان کا حجم دو ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست اور خشکی کے ذریعے تجارت کی بحالی کے لیے ان ممالک کی طرف سے بھی دبائو ہے جو سارک ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں ، ان میں امریکہ، یورپی یونین اور جاپان شامل ہیں۔ چین کی طرف سے اگرچہ اس سلسلے میں
کبھی کوئی برملا بیان نہیں آیا،لیکن نئی چینی حکومت نے اپنی علاقائی خارجہ پالیسی کے لیے جو ترجیحات متعین ہیں،ان کے تحت چین ، پاک ـ بھارت امن مذاکرات اور علاقائی تعاون پر زور دیتا ہے۔
پاکستان اور بھارت بین الاقوامی برادری کے ان اہم رکن ممالک کی طرف سے مشوروں کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ ان سب کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے اہم تجارتی اور معاشی تعلقات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے2012ء میں بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس پر دسمبر2012ء میں عمل ہونا تھا، لیکن کچھ حلقوں( جن کا تعلق اقتصادی،سیاسی اور سکیورٹی امور سے بھی ہے ) کی طرف سے تحفظات کے اظہار کے بعد اس فیصلے پر31دسمبرکی ڈیڈ لائن تک عمل درآمد نہ ہوسکا ۔اوائل جنوری 2013ء میں جب راجہ پرویز اشرف وزیراعظم تھے، وفاقی کابینہ کے ایک فیصلے میں اعلان کیا گیا کہ فروری2013ء کے آخر تک بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے کے حکومتی فیصلہ پر عمل درآمد کا آغازکر کے ممنوعہ اشیاء کی فہرست کو ختم کر دیا جائے گا۔اس کے لیے وفاقی کابینہ نے وزارتِ تجارت کو تمام ضروری ہدایات بھی جاری کر دی تھیں ، لیکن اعلان پر پھر بھی عمل درآمد نہ ہوسکاکیونکہ لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں۔
موجودہ حکومت بھی بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات اور اقتصادی تعاون بڑھانے میں برابر کی دلچسپی رکھتی ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف پاکستان کے ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ بہتر ہمسائیگی کے تعلقات اور تعاون کے حق میں متعدد بیانات دے چکے ہیں ۔ رواں سال کے آغاز میں وفاقی وزیرتجارت خرم دستگیر نے اسی سلسلے میں بھارت کا دورہ بھی کیا تھا۔ان کے دورہ سے قبل 4جنوری کو حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ایک ہفتے تک بھارت کو ایم ایف این درجہ دے دیاجائے گا لیکن وفاقی وزیر تجارت نے بھارت کے دورے سے واپسی پر اعلان کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایم ایف این کے بجائے منڈی تک غیر امتیازی رسائی(Non Discriminatory Market Access) کی بنیاد پر تجارتی تعلقات قائم کیے جائیں گے۔ایک ہفتہ قبل یعنی مارچ کے وسط میں یہ اطلاع آئی تھی کہ ایک ہفتے کے اندر پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت پر سے تمام پابندیاں اٹھا لی جائیں گی کیونکہ بھارت اپنے ہاں پاکستانی مصنوعات کی درآمد پر عائد شدہ غیر رسمی ٹیرف ختم کرنے پر راضی ہوگیاہے۔اس کے بدلے پاکستان بارہ سو سے زائد ممنوعہ اشیاء کی فہرست ختم کردے گا۔ان اطلاعات میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ حکومت کے اس فیصلے میں فوج کی رضا مندی بھی شامل ہے۔
لیکن بھارت کو ایم ایف این درجہ دینے کا مسئلہ ایک دفعہ پھرکھٹائی میں پڑ گیا ہے۔اس کی وجہ کیا ہے؟بظاہر اس کی دو وجوہ بیان کی جاتی ہیں۔ایک یہ کہ بھارت نے پاکستان کوایم ایف این کا درجہ دینے کے باوجود پاکستانی مصنوعات کے لیے اپنی مارکیٹ بلاک کر رکھی ہے۔ دوسری وجہ وہ ہے جس کا ذکر خرم دستگیر نے اپنے دورۂ بھارت کے موقع پر بھارت کے ایک مقتدر اخبار ''ہندو‘‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیاتھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ آزاد تجارت پر پاکستان میں زرعی اور صنعتی حلقوں مثلاً فارماسیوٹیکل، آٹوپارٹس، آٹوموبیل اور فائبر کلاتھ وغیرہ کی طرف سے تحفظات ہیں۔ پاکستانی ماہرین کی رائے ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے سے قبل حکومت کو پاکستانی معیشت کے ان اہم سیکٹرز کے مفادات کے تحفظ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جو حلقے بھارت اور پاکستان کے درمیان عدم کشیدگی اور امن چاہتے ہیں، وہ ان دونوں ملکوں میں تجارت پر زور دے رہے ہیںکیونکہ ان کے خیال کے مطابق تجارت کی صورت میں باہمی اعتماد فروغ پائے گا ، اس کے علاوہ دونوں ملکوں کی معیشت بھی مضبوط ہوگی ، لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو دونوں میں امن کے مخالف ہیں اور نہیں چاہتے کہ دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہو۔ لیکن علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر قوموں کے درمیان تعلقات میں جو نئے رجحانات زور پکڑ رہے ہیں، ان کی روشنی میں پاکستان اور بھارت باہمی دوطرفہ تجارت کو زیادہ دیر تک پابندِ سلاسل نہیں رکھ سکتے۔