"DRA" (space) message & send to 7575

بھارت کا انتخابی منظرنامہ

بھارت کے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں دوہفتے سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے۔اس لیے انتخابی مہم میں تیزی آگئی ہے اور تمام بڑی سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور اور پارٹی امیدواروں کی فہرستوں کو آخری شکل دینے میں مصروف ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں حکمران کانگرس اور اپوزیشن پارٹی بی جے پی کے علاوہ علاقائی سیاسی جماعتیں مثلاً بھارت کے سب سے بڑے صوبے اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادیو کی سماج وادی پارٹی،مایاوَتی کی بھوجن سماج پارٹی، بہار میں جنتادَل کے تینوں دھڑے،بنگال میں ممتا بینر جی کی تیرینا مول کانگرس،تامل ناڈو میں کرونانندی کی ڈی ایم کے اور جیالالیتا کی اے آئی ڈی ایم کے،پنجاب میں پرکاش سنگھ بادل کی شرومنی اکالی دَل اور جموں کشمیر میں عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس شامل ہیں۔ لیکن اصل معرکہ کانگرس اور بی جے پی کے درمیان متوقع ہے جس میں بی جے پی کا پلہ بھاری نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ گجرات کے چیف منسٹر نریندرا مودی کی ملک گیر اور جارحانہ انتخابی مہم ہے۔اس کے مقابلے میں کانگرس کی انتخابی مہم میں کوئی جان نظر نہیں آتی۔وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ آئندہ وزیراعظم کے عہدے سے دستبرداری کا اعلان کر چکے ہیں۔پارٹی کی صدر سونیا گاندھی بیماری کی وجہ سے پہلے کی طرح سرگرم نہیں اور آہستہ آہستہ سیاسی پس منظر میں جارہی ہیں۔ راہول گاندھی سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہوسکیں۔ حالانکہ بھارت کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کانگرس میں نائب صدر کا دوسرا بڑا عہدہ ان کے پاس ہے، مگر وہ اپنے شرمیلے پن اور اعتماد کی کمی پر قابو نہیں پا سکے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کانگرس قیادت کے بحران سے دوچار ہے تو بے جا نہیں ہو گا۔ بیشتر مبصرین کی رائے میں اور انتخابی نتائج کے بارے میں رائے عامہ معلوم کرنے والے اداروں کی رپوٹوں کے مطابق اس دفعہ انتخابات میں کانگرس کی شکست یقینی ہے اور وہ لوک سبھا (بھارتی پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں)کی542نشستوں میں سے 60-70سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں کرسکے گی۔
اس کے مقابلے میں بی جے پی کا ستارہ عروج پر ہے۔ بھارت کے شمال اور مغربی حصوں میں واقع ریاستوںمیں‘ جن میں برہمنزم کا زور ہے، نریندرا مودی نے بڑے بڑے انتخابی جلسے کیے ہیں اور اپنی انتخابی مہم میں مزیدتیزی لانے کیلئے پارٹی نے بدھ26مارچ سے ملک کے طول وعرض میں تین سو انتخابی جلسوں کا پروگرام بنایا ہے۔پارٹی کے اعلان کے مطابق بی جے پی اس خصوصی انتخابی مہم کا پہلا جلسہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے شہر ادھم پور میں منعقد کرے گی۔
بی جے پی کی بھر پور انتخابی مہم اور نریندرا مودی کی دھواں دھار تقریروں کے باوجود،تقریباً تمام مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ بی جے پی آئندہ انتخابات میں دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے واحد بڑی جماعت کے طور پر تو ابھر سکتی ہے لیکن اکیلے حکومت بنانے کیلئے اسے جس تعداد میں لوک سبھا کی سیٹیں درکار ہیں‘ وہ اسے حاصل نہیں ہو سکیں گی۔
لوک سبھا کی کل نشستوں کی تعداد 542 ہے اور بغیر کسی اور سیاسی جماعت کو ساتھ ملائے،بی جے پی کو حکومت بنانے کیلئے 272 نشستوں کی ضرورت ہے۔ لیکن مبصرین کے مطابق اسے 160 اور 170 کے درمیان نشستیں حاصل ہوں گی۔ جس کی وجہ سے اسے حکومت بنانے کیلئے دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملانا ہو گا۔ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ ماضی کی طرح آئندہ بھی بھارت میں ایک مخلوط حکومت قائم ہوگی۔لیکن کیا یہ مخلوط حکومت بی جے پی کی سربراہی میں ہوگی یا علاقائی اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں مل کر حکومت بنائیں گی؟ ابھی اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی کیونکہ بھارت کی انتخابی سیاست کے تیور ہر گھڑی بدلتے رہتے ہیں اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ آئندہ ماہ شروع ہونے والے انتخابات کے بعد بھارت میں کون کون سی سیاسی پارٹیوں پر مشتمل مرکزی حکومت تشکیل پائے گی۔
اگرچہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں اکیلے ہی مطلوبہ اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی، اپنے اس دعوے کے حق میں بی جے پی انتخابی جلسوں میں لوگوں کے ہجوم اور کچھ کانگرس کی سابق حلیف جماعتوں کی طرف سے بی جے پی کی حمایت کے اعلانات کی مثال دیتی ہے۔ لیکن دوسری طرف یکے بعد دیگرے ایسے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں جن کی روشنی میں بی جے پی اور خصوصاً نریندرا مودی کی بطور وزیراعظم کامیابی کے امکانات معدوم نظر آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک بی جے پی کے اندرونی اختلافات بھی ہیں جن میں مودی کی ذات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان اختلافات کی وجہ سے ہی بھارت کی دوسری بڑی ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نقیش کمار نے گزشتہ برس ریاست میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد ختم کر کے این ڈی اے(نیشنل ڈیموکریٹک الائنس)سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ اب بی جے پی نے سابق وزیرخارجہ اور پارٹی کے سینئر رہنما جسونت سنگھ کو پارٹی کا ٹکٹ نہ دے کر ان اختلافات کو اور بھی سنگین کر دیا ہے۔جسونت سنگھ‘ بی جے پی کے ان رہنمائوں میں شامل تھے جنہوں نے نریندرا مودی کی وزیراعظم کے عہدے کیلئے نامزدگی کی مخالفت کی تھی۔ جسونت سنگھ نے پارٹی کے فیصلے کو رَد کر کے راجستھان کی ایک نشست سے لوک سبھا کیلئے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کااعلان کر دیا ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ جسونت سنگھ کی طرف سے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بغاوت بی جے پی کو مہنگی پڑے گی۔اس کے ساتھ ہی بھارت میں فرقہ وارانہ سیاست کے مخالف اور سیکولر سوچ کے حامی حلقوں کی طرف سے بی جے پی اور خاص طور پر نریندرامودی کی پالیسیوں اور انتخابی مہم کے دوران اقدامات پر حملے بھی جاری ہیں۔ان حملوں میں سب سے زیادہ کاری ضرب لگانے والوں میں ''عام آدمی پارٹی‘‘کے سربراہ کجری وال ہیں جنہوں نے حال ہی میں ریاست گجرات کا دورہ کر کے بازاروں،بستیوں اور عام جگہوں پر لوگوں سے ملاقات کر کے ریاست میں ''ترقی‘‘کے بارے میں بی جے پی،نریندرا مودی اور کارپوریٹ میڈیا کی جانب سے کیے گئے دعوئوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور لوگوں کو اس حقیقت سے روشناس کروایا ہے کہ ریاست میںترقی اور گڈ گورننس کے بارے میں نریندرا مودی کے سب دعوے جھوٹے ہیں۔ریاست میں نہ صرف غربت،بے روز گاری اور مہنگائی پوری طرح موجود ہے بلکہ نریندرا مودی نے اقربا پروری اور قانون سے بالاتر اقدامات کی بھرمارکردی ہے۔کجری وال کے مطابق مودی کے آمرانہ رویے کی وجہ سے ریاست گجرات میں حکومتی ادارے تباہ ہوچکے ہیں اور بطور وزیراعلیٰ مودی کا کمال صرف یہ ہے کہ اس نے غریب لوگوں کی زمینیں ہتھیا کر اونے پونے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھ فروخت کی ہیں۔اس کی وجہ سے ریاست میں غریب،غریب تر اور امیر،امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کے زیراثر بھارتی اور انٹرنیشنل میڈیا مودی کو ایک سپر مین کی حیثیت سے پیش کر رہاہے۔لیکن جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں،مودی کا یہ امیج زائل ہورہا ہے۔اب بھارت کے طول وعرض میں رہنے والے کروڑوں لوگ اس بات کے قائل ہوتے جارہے ہیں کہ اگر نریندرامودی بطور وزیراعظم ملک کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں تو حکومتی پالیسیوں سے عام آدمی کی بجائے بڑے بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچے گا۔دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کے کروڑوں ووٹروں پر مشتمل یہ خاموش اکثریت انتخابات کے نتائج پر کہاں تک اثر انداز ہوتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں