ہیگ میں ایٹمی تحفظ کی تیسری سربراہی کانفرنس کے موقع پر جن عالمی رہنمائوں سے وزیراعظم محمد نواز شریف نے ملاقات کی‘ ان میں امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہیں۔ان سے ملاقات کے بعد وزیراعظم نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کو پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان کی شروع سے ہی خواہش رہی ہے کہ امریکہ اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود دوطرفہ تنازعات خصوصاً کشمیر کے مسئلے کو حل کروانے کیلئے بھارت پر دبائو ڈالے۔پاکستان کی اس خواہش کے پیشِ نظر صدر اوباما نے2009ء میں پاک افغان خطے کے بارے میں اپنی جس حکمتِ عملی کا اعلان کیا تھا،اس کے تحت بھارت کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر بحث بھی شامل تھی‘ لیکن بھارت نے کشمیر کے مسئلے پر امریکہ کی طرف سے کسی بھی مداخلت کو ناقابل قبول قرار دے دیا تھا۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کشمیر کے مسئلے پر بھارت کو امریکہ کی مداخلت پسند نہیں، تو امریکہ کو چاہیے کہ وہ دونوں ملکوں میں تعلقات کو معمول پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ خطے میںامن ہو‘ کیونکہ اس امن سے صرف پاکستان کا مفاد ہی وابستہ نہیں بلکہ پورے خطے میں واقع تمام ممالک‘ جن میں بھارت اور افغانستان بھی شامل ہیں،اس امن سے مستفید ہوسکتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی طرح امریکہ بھی اس حقیقت کا معترف ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطے میں امن کیلئے خطرہ ہے‘ اس لیے امن کی ضمانت صرف اس صورت دی جاسکتی ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم ہو اور دونوں ملکوں کے درمیان موجود تنازعات حل کیے جائیں۔اسی وجہ سے امریکہ نے دونوں ملکوں پر ہمیشہ زور دیا ہے کہ وہ اپنے دوطرفہ تنازعات جن میں کشمیر سرِفہرست ہے،کو بات چیت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کریں۔اس مقصد کیلئے امریکہ نے اپنا کردار ادا کرنے کی نہ صرف پیش کش کی بلکہ کوشش بھی کی ہے لیکن بھارت کی طرف سے سردمہری کی وجہ سے اس سمت کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے امریکی کردار پر پاکستان اور بھارت کا اپنا اپنا الگ موقف ہے۔جنوبی ایشیاء کے بارے میں اپنی روایتی خارجہ پالیسی کے تحت بھارت نے علاقائی معاملات میں علاقہ سے باہر کے ممالک کی مداخلت کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت اپنے اردگرد واقع چھوٹے ممالک یعنی پاکستان،نیپال،بھوٹان،بنگلہ دیش،سری لنکا اور مالدیپ کے علاوہ بحرِ ہند کے پورے خطے کو اپنا حلقہء اثر (Sphere of Influence)سمجھتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ خطے میں واقع ممالک کے ساتھ اس کے اختلافات کو دوطرفہ بنیادوں پر بات چیت کے ذریعے بغیر کسی تیسرے ملک کی مداخلت کے حل کیا جائے‘ لیکن اس طریقے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر بات چیت کے ذریعے باہمی تنازعات کو حل کرنے کیلئے جتنی بھی کوششیں کی گئیں وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔اس کی تازہ ترین مثال دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ دس سال سے جاری امن بات چیت (Peace Process) کا سلسلہ ہے‘ جس کے تحت دونوں ملکوں میں کشمیر سمیت دیگر تمام اہم تنازعات پر دوطرفہ بنیادوں پر براہ راست بات چیت کے متعدد رائونڈ ہوئے‘ لیکن اعتماد سازی کے اقدامات اور عوامی سطح پر رابطوں میں اضافہ کے سوا کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ خصوصاً کشمیر، سیاچن، سرکریک اور پانی جیسے اہم مسائل پر کوئی بریک تھرو(Break Through) نہیں ہوا۔ ان مسائل کے حل میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں بے چینی پائی جاتی ہے‘ بلکہ ان عناصر کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرپا امن اور تعاون کے مخالف ہیں۔ انہی وجوہ کی بنا پر وزیراعظم محمد نوازشریف نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کے حل میں اپنا کردار ادا کرے‘ یاد رہے کہ امریکہ ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے 2004ء میں پاکستان اور بھارت کو گفت و شنید کی میز پر بٹھانے میں درپردہ کردار ادا کیا تھا اور اس سے پہلے2001-02ء میں پاک بھارت کشیدگی اور محاذآرائی کو بھی ختم کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔
پاکستان کو توقع‘ بلکہ یقین ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ بھارت اور امریکہ کے درمیان معاشی،تجارتی اور دفاعی تعلقات
روز بروز وسیع ہوتے جارہے ہیں، امریکہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں پہلے سے کہیں زیادہ موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔افغانستان میں ملوث ہونے اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی وجہ سے بھارت اور امریکہ کے باہمی خدشات کی مماثلت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت بھارت اور امریکہ کے درمیان ایک جامع اور وسیع سٹرٹیجک پارٹنرشپ کا رشتہ قائم ہے۔اس کے تحت بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور کاروبار میں شراکت کے شعبوں میں تعاون بڑھ رہا ہے۔دونوں ملکوں میں بڑھتا ہوا دفاعی تعاون اس کے علاوہ ہے۔ جنوبی ایشیا کی سلامتی،استحکام اور ترقی کے بارے میں بھارت اور امریکہ کے نقطۂ نظر میں یکسانیت اس سطح پر آچکی ہے کہ دونوں اس خطے میں ایک دوسرے کے مفادات اور ترجیحات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دنیا کے اس اہم خطے میں اپنے اپنے سٹریٹجک مقاصد کے حصول کیلئے امریکہ اور بھارت کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھ رہا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔اس کے ساتھ ہی امریکہ اور پاکستان کے درمیان سٹریٹجک ڈائیلاگ کے تحت مختلف شعبوں مثلاً توانائی، تعلیم، صحت، زراعت، صنعت اور واٹر مینجمنٹ (Water Managment)میں تعاون جاری ہے۔ہیگ میں وزیراعظم محمد نوازشریف کے ساتھ ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ اس تعاون کو اور بھی گہرا کیا جائے گا۔حال ہی میں دونوں ملکوں نے اسلام آباد اور واشنگٹن میں دفاعی شعبے میں تعاون پر مشاورت کے کئی رائونڈمکمل کیے ہیں۔
اس کے بعد پاک امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ فریم ورک میں دوطرفہ تجارت پر بھی بات چیت کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے امریکہ کے ساتھ تجارت میں اضافے کیلئے بات چیت بہت اہم ہے‘ کیونکہ امریکہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ پاکستان کی ایک عرصہ سے خواہش ہے کہ اسے امریکی منڈیوں تک رسائی حاصل ہو اور اس مقصد کیلئے دونوں ملکوں میں ایک فری ٹریڈ ایگریمنٹ طے پا جائے۔ افغانستان میں امن اور استحکام کے قیام میں پاکستان کے کردار کی اہمیت کے پیشِ نظر،امریکہ بھی پاکستان کے ساتھ قریبی تعاون اور مضبوط رشتوں کا حامی ہے۔افغانستان سمیت جنوبی ایشیاء کے پورے خطے میں امن،استحکام اور ترقی کیلئے امریکی اور پاکستانی مفادات یکساں ہونے کی وجہ سے،خطے میں صلح اور مفاہمت کے فروغ میں امریکہ کا کردار نہ صرف پہلے کے مقابلے میں زیادہ سہل ہے،بلکہ ضروری بھی ہوگیا ہے۔
وزیراعظم جناب محمد نوازشریف نے پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں امریکہ کے کردار کے حق میں جو بیان دیا ہے، اسے اسی سیاق وسباق میں دیکھنا چاہیے؛ تاہم اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے تنازعات کے حل اور باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے دوطرفہ اور براہ راست بات چیت کا راستہ ترک کر دینا چاہیے‘ بلکہ اس راستے پر ان دونوں ملکوں کو پورے عزم اور ثابت قدمی سے گامزن رہنا چاہیے۔کسی بھی تیسرے ملک کا کردار یا مداخلت پاک بھارت براہ راست ڈائیلاگ کی متبادل نہیں ہوسکتی‘ بلکہ دوطرفہ مذاکرات امریکہ اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے حمایت اور امداد کو موثر اور بارآور بنانے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔