افغانستان میں5اپریل کے صدارتی انتخابات نے بہت سے خدشات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔انتخاب زیادہ تر پْرامن رہا۔اگرچہ تشدد کے چند واقعات روْنما ہوئے لیکن دارالحکومت کابل اور دیگر بڑے شہروں میں صورتِ حال قابو میں رہی۔اس کا سہرا افغان سکیورٹی فورسز کے سرجاتا ہے جس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ملک کی سکیورٹی سنبھالنے کی اہل ہیں۔اس طرح اگرچہ الیکشن کمیشن کو ایک ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں،لیکن بڑے پیمانے پر دھاندلی اور فراڈ کے الزامات سامنے نہیں آئے اور نہ ہی اْمیدواروں نے اپنے حریفوں پر انتخاب میں بے ضابطگیوں کاالزام عائد کیا ہے۔سب سے زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ تینوں نمایاں اْمیدواروں یعنی عبداللہ عبداللہ،اشرف غنی اورزلمے رسول نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس لیے یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ان تینوں اْمیدواروں میں سے کوئی بھی کامیاب ہو،افغانستان میں اب قومی اتحاد اور سیاسی استحکام کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔لیکن ملک کو درپیش گمبھیر چیلنجز بدستور موجود ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت ان چیلنجز سے کس طرح نبردآزما ہوتی ہے۔افغانستان کی صورت حال اگرچہ کافی پیچیدہ ہے،اور نئے صدر کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا،تاہم ان میں سے تین ایسے چیلنجز ہیں جن کے بارے میں نئی قیادت کو فوری اور موثر لیکن خوب سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔ان میں سے سب سے پہلے اندرونی امن و امان کی صورت حال بہتر بنانا،اقتصادی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا اور کرپشن اور اقربانوازی کی روک تھام کرنا ہے۔ماضی میں ان
مسائل پر عدم توجہی کے باعث ملک میں نہ صرف غْربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہواہے،بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بھی بڑھے ہیں۔یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے تقریباًتما م اْمیدواروں نے اپنی مہم میں معاشی مسائل حل کرنے اور ملک کی انتظامیہ کو بہتر،مستعد اور دیانت دار بنانے پر زور دیا ہے۔اس کے نتیجے میں افغان آبادی کے کچھ حصوں خصوصاً نوجوان طبقے میں سے بہت سے افراد نے قبائلی اور لسانی وفاداریوں سے بالاتر ہوکر حقِ رائے دہی استعمال کیا ہے۔اس لیے اْمید کی جاسکتی ہے کہ نئے صدر کو کرپشن سے پاک شفاف انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں نہ صرف افغان عوام کی بھاری حمایت حاصل ہوگی،بلکہ اس سے بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی افغانستان کو مالی امداد ملنے کے امکانات روشن ہوجائیں گے، کیونکہ امن وامان کی خراب صورتِ حال کے علاوہ کرپشن اور اقربا نوازی ایسے مسائل تھے جن پربین الاقوامی برادری خصوصاً اُن ممالک کو جو افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنا چاہتے تھے،سخت تشویش تھی۔ایک ایسا معاشرہ جہاں قبائلی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کی جڑیں بہت گہری ہوں، خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر اور اقربا نوازی سے پاک نظام قائم کرنا آسان نہیں،لیکن کسی حکومت کیلئے جو خود ان قدروں پر یقین رکھتی ہواور انہیں نافذ کرنے میں سنجیدہ ہو،ایسا کرنا ناممکن نہیں۔
نئے صدر کے سامنے دوسرا اور اہم مسئلہ طالبان شورش سے نمٹنا ہے۔اگرچہ 5اپریل کے کامیاب اور پْرامن صدارتی انتخاب کو افغانستان میں جمہوریت کی فتح اور طالبان کی شکست سے تعبیر کیا جارہا ہے،تاہم طالبان اب بھی ایسی قوت ہیں جسے نہ تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اْن کی صلاحیت کے بارے میں غلط اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اگرچہ طالبان کا ہدف افغانستان میں ملا عمر کی قیادت میں ''اسلامی امارات‘‘بحال کرنا ہے اور وہ اس انتخاب اور اس کے نتائج کو مسترد کر چکے ہیں،تاہم نئے صدر کو چاہیے کہ وہ طالبان کو امن اور مصالحت کی پیش کش دہرائے۔ طالبان کو بھی اب ہوا کا رُخ پہچان جانا چاہیے۔5اپریل کے صدارتی انتخاب نے افغانستان میں ایک بالکل نئے سیاسی منظر نامے کو جنم دیا ہے۔اس سال کے آخر تک امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء سے تبدیلی کا یہ عمل اور بھی تیز ہوجائے گا۔اب تک طالبان کو افغانستان میں کامیابی اس لیے حاصل ہوتی رہی ہے کہ وہ ایک غیر ملکی فوج سے لڑرہے تھے جسے افغانیوں کی اکثریت غاصب سمجھتی تھی،لیکن اب اْن کا افغان سکیورٹی فورسز کی صورت میں اپنے بھائیوں سے مقابلہ ہوگا جو نہ طالبان کیلئے غیر ہوں گے اور نہ اْن کیلئے طالبان اجنبی ہوں گے۔5اپریل کے صدارتی انتخاب کے دوران میں ملک گیر پیمانے پر تحفظ فراہم کر کے افغان سکیورٹی فورسز نے اپنی صلاحیت اور قوت کا لوہا منوا لیاہے۔طالبان کو اب بدلتی ہوئی حقیقتوں کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
نئے صدر کے سامنے تیسرا بڑا چیلنج بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ، ہمسایہ ممالک اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نارمل سطح پر لانا ہوگا۔جہاں تک امریکہ کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ ہے،تمام صدارتی اْمیدوار امریکہ کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی پیکٹ کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔اگراس معاہدے پر دستخط ہوجاتے ہیں تو افغانستان میں تربیت اور ہنگامی صورت میں امداد فراہم کرنے کیلئے نہ صرف 10سے15ہزار امریکی فوجی مقیم رہیں گے،بلکہ اس کی وجہ سے افغانستان کو امریکہ سمیت یورپی یونین،جاپان،چین اور روس سے مالی امداد بھی ملتی رہے گی۔
جہاں تک پاکستان کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے،یہ افغانستان کیلئے15اپریل سے پہلے بھی اہم تھا اور اب بھی خطے میں امن و استحکام کیلئے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔لیکن اس میں شامل پیچیدگیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔افغانستان کی دیرینہ شکایت ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں افغان سکیورٹی فورسز اور نیٹو افواج پر حملہ آورطالبان کو اپنے ہاں محفوظ اڈے دے رکھے ہیں۔صدارتی انتخاب سے چند روزقبل صدر حامد کرزئی نے پاکستان پر افغان امن اور مفاہمت کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا تھا۔پاکستان نے ان دونوں الزامات کی تردید کی ہے تاہم نئے افغان صدر کیلئے پاکستان کے ساتھ دوستی اور تعاون پر مبنی تعلقات کو قائم کرنے کیلئے ایک سنہری اور تاریخی موقع پیدا ہوا ہے کیونکہ پاکستان میں اب ایک جمہوری اور نمائندہ سول حکومت قائم ہے۔جس نے گزشتہ مئی میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بشمول افغانستان اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دوستانہ قریبی تعلقات قائم کر نے کی پالیسی کا اعلان کررکھا ہے۔وزیراعظم محمد نوازشریف نے متعدد بار اپنے اس ارادے کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ قریبی معاشی تعاون اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ اور خود وزیراعظم کی طرف سے افغانستان کے صدارتی انتخاب کے کامیاب اور پْرامن انعقاد کا جس طرح خیر مقدم کیا گیا ہے،اْس سے افغانستان کے ساتھ تعلقات پر حکومت کی نئی سوچ کی تائید ہوجاتی ہے۔اگر نئے افغان صدر کی طرف سے بھی دوستی اور تعاون کے جذبے کا اسی طرح اظہار کیا گیا تو اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات کی نہ صرف ایک نئی تاریخ رقم ہوگی،بلکہ پاکستان میں اْن انتہا پسند مذہبی جنونیوں اور مہم جوْ عناصرکی بھی حوصلہ شکنی ہوگی جو افغانستان میں اب بھی ''سٹرٹیجک گہرائی‘‘ کے متلاشی ہیں۔البتہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن سمجھوتے کے نتیجے میں اگر پاکستانی طالبان نے افغانستان کا رُخ کیا ، جس کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر ابھی سے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیںاور پاکستان کی حکومت انہیں روکنے میں ناکام رہی تو پاک افغان تعلقات بدتر صورت اختیار کر سکتے ہیں۔