بھارت میں سولہویں لوک سبھا کے لیے اپریل کے آغاز سے مرحلہ وار انتخابات کا جو سلسلہ جاری ہے اس کے چند ایسے پہلو سامنے آ رہے ہیں‘جو نئے بھی ہیں اور دلچسپ بھی‘مثلاً اب تک ہونے والے انتخابات میں غیر معمولی ٹرن آئوٹ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جن علاقوں میں غیر معمولی تعداد میں ووٹ ڈالے گئے‘ ان میں ایسی ریاستیں بھی شامل ہیں جہاں مائو پرست‘نکسل باڑی اور دیگر انقلابی تحریکوں کا زور ہے۔ صورت حال افغانستان سے ملتی جلتی ہے جہاں حال ہی میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ طالبان کے خوف سے بہت سے لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ سٹیشنوں پر پہنچنے کی بجائے‘ اپنے گھروں میں بند رہیں گے‘ لیکن جو ہوا وہ توقعات کے بالکل برعکس تھا۔ افغانستان کے تقریباً تمام علاقوں خصوصاً شہروں میں لوگ جوق در جوق پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آئے۔یہی حال بھارت کا ہے اور غیر معمولی ووٹرز ٹرن آئوٹ نے مقامی اور غیر ملکی دونوں مبصرین کو حیران کر دیا ہے۔
اس کے باوجود انتخابات میں نہ تو اندرونی سیاست اور نہ ملک کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی بڑا مسئلہ اٹھایا جا رہا ہے۔ بی جے پی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار چن کر انتخابی مہم میں دوسری سیاسی پارٹیوں سے آگے نکلنے کی کوشش کی ۔لیکن پارٹی کوجلد ہی اپنا کانٹا بدلنا پڑاکیونکہ بی جے پی کے اپنے سرکردہ رہنما‘ جن میں اس کے سابق صدر بھی شامل ہیں‘ کرپشن کے سکینڈل میں ملوث پائے گئے۔نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران میں پاکستان اور چین کے خلاف تیز و تند تقریریں کر کے بھارتی عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی‘ لیکن اس میں بھی اسے مطلوبہ حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔اب نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم میں گرمی پیدا کرنے کے لیے ایک اور فائر داغا ہے۔ یہ کہ اگر وہ وزیر اعظم منتخب ہوئے تو سب سے پہلے بھارت کی اس نیو کلیر ڈاکٹر ائین (Nuclear Doctrine)پر نظر ثانی کریں گے‘ جس کے تحت بھارت نے پوری دنیا کے سامنے اس بات کا عہد کر رکھا ہے کہ وہ کسی ملک کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں پہل نہیں کرے گا۔بھارت نے یہ اعلان جسے ''نو فرسٹ یوز‘‘(No First Use)کا اعلان کہا جاتا ہے‘ 1998ء کے ایٹمی تجربات کے بعد کیاتھا اور اس کا اہم سبب دراصل پوری دنیا کی طرف سے بھارتی ایٹمی تجربات پر سخت تنقید تھی۔بی جے پی نے موجودہ انتخابات کے موقع پر مینی فیسٹو جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے تحت ملک کی ایٹمی پالیسی پر نظرثانی کی جائے گی۔مبصرین نے اس اعلان سے جو مطلب اخذ کیا ہے‘ یہ ہے کہ اگر بی جے پی انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کر لیتی ہے اور نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو جنوبی ایشیا بے یقینی اور عدم استحکام کے ایک نئے دور سے دوچار ہو جائے گا کیونکہ خطہ میں واقع دیگر ممالک خصوصاً پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے مزید اقدامات کرنے پڑیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ امن پسند اور جمہوریت نواز حلقوں کی طرف سے بی جے پی کے اس نئے ایٹمی نظریے پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ ان حلقوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ جس طرح 1998ء میں بی جے پی کی حکومت نے ایٹمی دھماکے کر کے جنوبی ایشیا میں نئی ایٹمی دوڑ کا آغاز کیا تھا‘ اسی طرح نئے ایٹمی نظریے کا اعلان کر کے وہ خطے میں پاک بھارت کشیدگی میں مزید اضافہ کرنا چاہتی ہے۔یہ صورت حال کسی بھی لحاظ سے خطے کے لیے سود مند ثابت نہیں ہو گی۔اس اعلان کے ذریعے نریندر مودی اپنے ووٹوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ضروری نہیں کہ ایسا ہو۔ اس لیے کہ 1998ء میں بھی بی جے پی نے ایٹمی دھماکے اس لیے کیے تھے کہ پاکستان کو ڈرایا اور دھمکایا جا سکے‘ لیکن اس کے برعکس پاکستان نے پانچ بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کر ڈالے اور اس طرح پاکستان نے جو مبہم ایٹمی پالیسی اختیار کر رکھی تھی‘ اسے ترک کر کے ایٹمی طاقت ہونے کا برملا اعلان کر دیا۔خود بھارتی مبصرین کے مطابق 1998ء میں ایٹمی دھماکے کر کے بی جے پی کی حکومت جو سٹریٹجک فوائد حاصل کرنا چاہتی تھی اس میں وہ بری طرح ناکام رہی بلکہ ایٹمی دھماکوں سے پہلے غیر ایٹمی یعنی روایتی فوجی طاقت میں برتری کی بنیاد پر بھارت کو پاکستان پر جو فوقیت حاصل تھی‘ ایٹمی دھماکے کر کے بھارت نے اسے کھو دیا کیونکہ جواب میں پاکستان بھی ایک کھلی (overt)ایٹمی طاقت بن کر سامنے آ گیا۔ اب بھارت کے پاس پاکستان کو نہ تو ڈرانے دھمکانے کے لیے کوئی ہتھیار تھا اور نہ ہی غیر ریاستی عناصر کی طرف سے دہشت گردی کی کسی کارروائی پر پاکستان کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کی گنجائش رہی تھی۔ بہت سے مبصرین نے دیکھا ہے کہ 1998ء میں پاکستان کی طرف سے جوابی ایٹمی دھماکے
کرنے پر بھارتی حکام اور خصوصاً ایل کے ایڈوانی ششدر رہ گئے تھے۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ پاکستان کے پاس ایٹمی دھماکہ کرنے کی سائنسی اور تکنیکی صلاحیت موجود ہے۔لیکن بھارت نے پہل کر کے نہ صرف پاکستان کو بھی ایٹمی طاقتوں کی صف میں لاکھڑا کیا‘بلکہ غیر متوقع طور پر بھارت کو بین الاقوامی تنقید اور تادیبی کارروائیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات قائم کرنے والے سب سے اہم ملک یعنی جاپان نے پاکستان کے ساتھ بھارت کے خلاف بھی اقتصادی پابندیوں کا اعلان کر دیا۔ایٹمی دھماکے کر کے بھارت نہ صرف پاکستان کے خلاف کسی سٹریٹجک فوقیت کے حصول میں ناکام رہا‘ بلکہ اس نے پور ی دنیا کو اپنا مخالف بنا لیا۔اس میں امریکہ سمیت یورپ کے دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی شامل تھے۔ ان ممالک نے بھارت میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا‘ جس کی وجہ سے 1999ء میں بھارت میں بیرونی سرمایہ کاری کی شرح خطرناک حد تک نیچے گر گئی۔اس کا براہ راست اثر بھارت کی معیشت اور پیداوار کی شرح پر ہوا۔اس سے گھبرا کر اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کا اصل مقصد ملک کو دوسرے ممالک کی طرف سے ایٹمی حملوں کے خلاف محفوظ بنانا ہے اور یہ کہ ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد بھارت کسی ملک کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا۔
بہت سے مبصرین کے مطابق نریندر مودی کو بھارت کی مذکورہ بالا ایٹمی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں تھی‘ کیونکہ موجودہ پالیسی کے تحت بھارت نے ایٹمی جنگ میں پہل نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے لیکن یہ قسم اندر سے کھوکھلی ہے اور اسے آسانی سے توڑنے کے لیے بھارت نے پہلے ہی بہت سے بہانے ڈھونڈ رکھے ہیں۔بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر میمن نے کچھ عرصہ پیشتر نیشنل ڈیفنس کالج میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت کو یقین ہو گیا کہ کسی دشمن ملک کے ساتھ ''روایتی جنگ میں بھارت کے اندر یا بھارت سے باہر بھارتی افواج پر ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ حملہ ہونے والا ہے تو ان کا ملک''نو فرسٹ یوز‘‘(No First Use)کے اصول سے انحراف میں بالکل نہیں ہچکچائے گا۔ شیو شنکر مینن کانگرس کی موجودہ حکومت کے سربراہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کے مشیر برائے قومی سلامتی امور ہیں اور وہ پاکستان کی طرف سے حملہ آور بھارتی افواج کے خلاف چھوٹے پیمانے پر ایٹمی ہتھیار (Tactical Nuclear Weapons)کے استعمال کے خطرے پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
نریندر مودی کے بیان کے بارے میں تبصرہ نگاروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ''نو فرسٹ یوز‘‘کے اعلان سے باقاعدہ طور پر دست برداری کا عندیہ دے کر بی جے پی دراصل موجودہ انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ مگر ان حلقوں کی یہ بھی رائے ہے کہ بی جے پی نے اس وعدے کو اپنے انتخابی منشور میں شامل کرنے سے پہلے اس کے مضمرات پر غور نہیں کیا اور جس طرح 1998ء میں ایٹمی دھماکوں سے حاصل ہونے والے فوائد کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے‘ ایٹمی جنگ میں پہل نہ کرنے کے وعدے سے منحرف ہو کر بھی بھارت گھاٹے میں رہے گا کیونکہ اس سے ایک طرف چین اور پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو گا اور دوسری طرف بین الاقوامی برادری کا بھی بھارت پر سے اعتبار اٹھ جائے گا۔