"DRA" (space) message & send to 7575

بھارتی انتخابات:نتائج اور مضمرات

بھارت کے پارلیمانی انتخابات کے آغاز پر ہی مبصرین کی یہ متفقہ رائے تھی کہ ان میں کانگرس شکست کھائے گی اور بھارتیہ جنتا پارٹی لوک سبھا میں اکثریت حاصل کرلے لگی، لیکن کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اتنی بھاری اکثریت سے جیتے گی کہ خود بی جے پی کے رہنما یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پارٹی کو اتنی بڑی جیت کیسے حاصل ہوگئی۔ نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی ووٹرز سے کہا تھا کہ انہیں 543نشستوں میں 300پر کامیابی درکار ہے تاکہ وہ آزادی سے اور بغیر کسی اتحادی پارٹی کی مدد کے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کرسکیں ، لیکن بھارتی عوام نے بی جے پی کو ساڑھے تین سو سے بھی زیادہ نشستوں سے نوازا ہے۔ دوسری طرف کانگرس جس نے آزادی سے لے کر اب تک تقریباً پچاس برس حکومت کی ہے اور گزشتہ دس سال سے برسراقتدار تھی،اپنی تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسے ساٹھ کے قریب نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ صرف کانگرس ہی نہیں بلکہ بھارت کے دیگر حصوں میں جو پارٹیاں کانگرس کی حمایتی تھیں، انہیں بھی لوک سبھا کے ان انتخابات میں بری طرح شکست ہوئی ہے ۔اس سلسلے میں تامل ناڈو میں کرونانندی کی ڈی ایم کے ،اتر پردیش میں مایا وتی کی بھوجن سماج پارٹی اور ملائم سنگھ یادیو کی سماج وادی پارٹی کی مثالیں دی جاسکتی ہیں جنہیں لوک سبھا کے ان انتخابات میں بری طرح شکست ہوئی ہے۔ اتر پردیش کی 80لوک سبھا نشستوں میں سے بی جے پی 70 سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے ۔اس کے علاوہ راجستھان ، اتارکھنڈ اور چھتیس گڑھ کی لوک سبھا کی تمام نشستوں پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ خود 
نریندر مودی بنارس اور ودو درہ (گجرات) کی جن دو نشستوں پر انتخاب لڑرہے تھے کامیاب ہوچکے ہیں اور بنارس میں ان کا مقابلہ کرنے والے '' عام آدمی پارٹی‘‘ کے سربراہ اروند کجری وال شکست کھاگئے ہیں ۔'' عام آدمی پارٹی ‘‘کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ ان انتخابات میں وہ 70سے زائد نشستوں پر کامیاب ہوگی لیکن اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسے صرف چار نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی نے درست کہا ہے کہ بھارت کی پوری انتخابی تاریخ میں اس قسم کے انتخاب کی مثال نہیں ملتی اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بات پر تحقیق ہونی چاہیے کہ عوام نے بی جے پی کو اتنا بھاری مینڈیٹ کیوں اور کیسے دیا؟ بی جے پی کو 545ارکان کے ایوان میں اکیلے اتنی سیٹیں مل چکی ہیں کہ اسے کسی اور سیاسی پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پنڈت نہرو کے بعد نریندر مودی بھارت کے سب سے زیادہ طاقتور وزیراعظم ہوں گے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔
بی جے پی کے لیے یہ بات اطمینان کا باعث تو ہوسکتی ہے لیکن بھارت کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر نریندر مودی کے ہاتھ میں اتنی قوت کا ارتکاز باعث تشویش بھی ہوسکتا ہے کیونکہ مودی ایک متنازع شخصیت ہیں اور ملکی اور غیر ملکی حلقوں میں ان کے نظریات پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ان پر 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے چشم پوشی بلکہ حوصلہ افزائی کا الزام ہے۔ انتخابات کے دوران میں بھی انہوں نے ہندوئوں کے مذہبی جذبات کو ابھار کر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگ (آر ایس ایس) جس کے ایجنڈے میں ایودھیا میں مسمار بابری مسجد کی جگہ رام مندر 
تعمیر کرنا شامل ہے، نے مودی کی کامیابی میں اہم کردارادا کیا ہے۔ بی جے پی کی اس عدیم المثال کامیابی اور مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد آر ایس ایس اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے مودی حکومت پر دبائو ڈالے گی ۔اس سلسلے میں آر ایس ایس کے ایک سینئر لیڈر اور نظریاتی رہنما پہلے ہی ایک بیان جاری کرچکے ہیں۔ رام مندر کی تعمیر کے علاوہ آر ایس ایس کے ایجنڈے میں کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کی منسوخی اور کامن سول کوڈ کا نفاذ بھی شامل ہے۔ 1998-99ء میں بی جے پی نے اسی ایجنڈے کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس وقت اسے لوک سبھا میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہوسکی تھی اور اس نے 2004ء تک دیگر علاقائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت کے ساتھ راج کیا تھا۔یہ جماعتیں سیکولر نظریات کی حامل تھیں اور انہوں نے رام مندر آرٹیکل 370 اور کامن سول کوڈ کے متنازع مسائل پر بی جے پی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس لیے وہ اس ایجنڈے پر عمل درآمد نہیں کرسکی لیکن 2014ء کے انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد بی جے پی اب تمام پابندیوں اور قدغنوں سے آزاد ہے اور اگر وہ چاہے تو لوک سبھا میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر آرٹیکل 370کی تنسیخ کے لیے نہ صرف ضروری آئینی ترمیم کرسکتی ہے بلکہ کامن سول کوڈ کے نفاذ کے لیے بھی بل ایوان سے منظور کروا سکتی ہے لیکن انتخابات کے حیران کن نتائج آنے کے فوراً بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنمائوں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی اس سمت جلدی میں قدم نہیں اٹھائے گی۔ انتخابات کے نتائج آنے کے ساتھ ہی پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بی جے پی اور خصوصاً نریندر مودی کے بارے میں پائے جانے والے خدشات کو دور کرنے کے لیے یہ بات زور دے کر کہی کہ نئی حکومت سب کو ساتھ لے کر چلے گی اور یہ کہ ان انتخابات میں کامیابی دلاکر بھارتی عوام نے پارٹی پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی ہے۔
بی جے پی نے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے تو دنیا کو اب نریندر مودی بطور وزیراعظم سے ہی معاملات طے کرنا پڑیں گے اور قرائن بتاتے ہیں کہ دنیا اس کے لیے تیار ہے۔ برطانیہ نے نریندر مودی کو مبارک باد دیتے ہوئے انہیں برطانیہ کا دورہ کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔ اسی طرح امریکہ کے صدر بارک اوباما نے مودی کی کامیابی کا خیر مقدم کرتے ہوئے مستقبل میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یورپی یونین تو پہلے ہی مودی پر ویزے کی عام پابندی کو اٹھانے کااعلان کرچکی ہے۔ البتہ چین اور پاکستان کے ساتھ مودی دور میں بھارت کے تعلقات کیسے ہوں گے؟ اس سلسلے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ کیونکہ مودی نے اپنی انتخابی تقریروں میں ان دونوں ممالک کے ساتھ سخت رویے کی حمایت کرتے ہوئے کانگرس حکومت کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا تھا ۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بھارت کی پالیسی میں کسی یوٹرن کی گنجائش نہیں۔ دونوں ملکوں میں جو اختلافات ہیں مثلاً سرحدی جھگڑا اور ارونا چل پردیش کی حیثیت کا مسئلہ ان پر دونوں کے موقف میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے مودی حکومت بھی بھارت میں پاکستان کی '' مبینہ دہشت گردی کی پشت پناہی ‘‘ کے مسئلے کو ہوا دے گی۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر روی شنکر پرشاد ،جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ مودی حکومت میں بھارت کے وزیر خارجہ ہوں گے، نے برطانوی اخبار '' گارڈین‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی بہتری کے متمنی ہیں البتہ ان کی حکومت پاکستان کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ سٹینڈ آف جاری رہے گا لیکن دونوں ملکوں میں اس وقت منتخب جمہوری سیاسی حکومتیں ہیں، اس لیے دونوں ملکوں میں رابطہ زیادہ دیر تک منقطع نہیں رہے گا بلکہ امن مذاکرات کی گاڑی دوبارہ پٹڑی پر چڑھ سکتی ہے،جس کا آغاز بھی 2004ء میں بی جے پی کے دور حکومت میں ہوا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں