بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتائج پر ہر کوئی حیران اور ششدر ہے لیکن جتنی حیرانی بلکہ مایوسی بائیں بازو کے حلقوں میں پائی جاتی ہے،وہ کہیں نظر نہیں آتی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے ایک رہنما کے بیان کے مطابق انتخابی نتائج پر یقین کرنا مشکل ہے۔آخر ایسا کیوں نہ ہو۔سی پی آئی ایم نے بائیں بازو کی دیگر ہم خیال پارٹیوں کے ساتھ مل کر 30برس تک مغربی بنگال پر حکومت کی۔لیکن لوک سبھا کے حالیہ انتخابات میں ترینا مول کانگرس پارٹی کی سربراہ اور شعلہ بیاں مقرر، ممتا بینرجی کے ہاتھوں بہت بْری طرح شکست کھائی ہے۔مغربی بنگال کی ریاستی اسمبلی میں ممتا بینرجی کو پہلے ہی اکثریت حاصل ہے۔اس طرح مغربی بنگال جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں کمیونسٹوں نے ریاست کا کلچر ہی تبدیل کر دیا ہے۔اب ممتا بینر جی کی ترینا مول کانگرس اور اْس کے بعد بی جے پی کا طوطی بول رہا ہے۔
صرف مغربی بنگال میں ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میں کمیونسٹ پارٹیوں کو حالیہ انتخابات میں بْری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(CPI)کو‘ جو 1920ء کی دہائی میں معرضِ وجود میں آئی تھی،صرف ایک سیٹ پر کامیابی ملی۔ اس کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کو بنگال کی لوک سبھا کی نشستوں میں سے دو اور پورے ملک میں صرف 9نشستیں حاصل ہوسکیں۔حالانکہ2009ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں پارٹی کو16نشستیں ملی تھیں۔ 2004ء کے انتخابات میں سی پی آئی ایم مارکسسٹ اور سی پی آئی دونوں کی کل نشستیں 53تھیں۔ان انتخابات میں بی جے پی کے مقابلے میں کانگرس نے کامیابی حاصل کر کے مرکز میں مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سی پی آئی ایم اس کا حصہ تھی۔بعد میں کانگرس حکومت کے چند معاشی اقدامات سے اختلاف کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی حکومت سے الگ ہوگئی تھی۔
ایک زمانہ تھا جب ڈالے جانے والے ووٹوں کے تناسب میں کمیونسٹ پارٹی کانگرس کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتی تھی بلکہ1950ء کی پوری دہائی اور 1960ء کی دہائی کے ابتدائی چند برسوں میں کمیونسٹ پارٹی کو کانگرس کے متبادل کے طور پر پیش کیا جارہا تھا لیکن1960ء کی دہائی کے نصف حصہ کے بعد بھارت میں کمیونسٹ سیاست زوال کا شکار ہونے لگی۔اس کی ایک وجہ پرانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں پھوٹ تھی جو بنیادی طور پر انٹرنیشنل کمیونسٹ موومنٹ کے دو حصوں یعنی چین نواز اور روس نواز دھڑوں میں تقسیم کانتیجہ تھی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ اسی تقسیم کی پیداوار ہے۔ اس پارٹی نے سی پی آئی سے اختلاف کرتے ہوئے اسے رجعت پسند قرار دیا تھا۔لیکن کمیونسٹ رہنمائوں کا ایک دھڑا ایسا بھی تھا جو اپنے آپ کو سی پی آئی ایم سے بھی زیادہ انقلابی سمجھتا تھا اور اْس نے مائوزے تنگ کے نظریات سے متاثر ہو کر مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا۔ اِس جدوجہد کی قیادت کیلئے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ۔ لیننسٹ) تشکیل دی گئی۔ نکسل باڑی کی تحریک جس کی چند باقیات اب بھی بھارت کی کئی ریاستوں میں موجود ہیں‘ اِسی پارٹی کی قیادت میں شروع کی گئی تھی۔ پرانی کمیونسٹ پارٹی یعنی سی پی آئی کی سیاست کا محور کانگرس کے ساتھ اتحاد تھااور پارٹی اِسے متحدہ محاذ کے فلسفے کے تحت درست اقدام قرار دیتی تھی۔ لیکن سی پی آئی ایم کا الزام تھا کہ سی پی آئی کی قیادت مُلک سے باہر یعنی سوویت یونین سے ہدایات حاصل کرتی ہے اور ان ہی ہدایات کے تحت کانگرس کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے۔ لیکن سی پی آئی ایم نے بھی کانگرس مخالف پالیسی اختیار کر کے مروجہ آئینی اور قانونی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے سیاست کی ۔ دیگر الفاظ میں دونوں پارٹیوں نے مسلح جدوجہد سے ہٹ کر بورژوا یعنی پارلیمانی سیاست کا راستہ اختیار کیا۔ البتہ اِس میں سی پی آئی کے مقابلے میں سی پی آئی ایم کو زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ خصوصاً مشرقی اور وسطی بھارت کے علاقوں میں‘ جن میں مغربی بنگال اور تری پورہ شامل ہیں، سی پی آئی ایم کو ایک لمبے عرصہ تک حُکومت کرنے کا موقعہ ملا۔ اِس دوران اُنہوں نے محنت ، دیانتداری اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی بہتری کیلئے اصلاحات پر مبنی پالیسیاں اختیار کیں۔ اِن کی وجہ سے عوام سی پی آئی ایم پارٹی کے امیدواروں کو ہر دفعہ انتخابات میں ووٹ دیتے تھے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکا اور عوام کا رجحان علاقائی پارٹیوں جیسے مغربی بنگال میں ترینا مول کانگرس پارٹی،تامل ناڈو میں اے آئی ڈی ایم کے اور آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی کی طرف زیادہ نمایاں ہونے لگا۔اس تبدیلی کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟یہ اہم لیکن پیچیدہ مسئلہ ہے۔اور اسے پوری طرح بیان کرنے کیلئے اخبارمیں اس کالم کیلئے مختص جگہ کافی نہیں۔ تاہم کچھ وجوہ کی نشان دہی کی جاسکتی ہے ان میں سے1990ء کی دہائی سے بھارت کی معیشت میں سٹرکچرل ریفارمز کا وہ سلسلہ تھا جو سابق وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے شروع کیا تھا جب وہ وزیرخزانہ تھے۔اس سے بھارتی معیشت اور منڈی میں صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کے اثرات میں اضافہ ہوا۔ گلوبلائزیشن کے تحت یہ اثرات اور بھی بڑھے اور بھارت میں قومی سرمایہ داروں اور مڈل کلاس کی صورت میں ایک ایسا طبقہ نمودار ہوا جس کی ضروریات،خواہشات اور تصورات کو پوری طرح سمجھنے اور پورا کرنے کی صلاحیت نہ تو کانگرس کے پاس تھی اور نہ کمیونسٹ پارٹیوں کے پاس۔
آل انڈیا ترینامول کانگرس کی بنیاد یکم جنوری 1998ء کو اس کی رہنما ممتا بینر جی نے رکھی تھی۔ یہ پارٹی ایک عرصہ تک مغربی بنگال میں سی پی آئی ایم کی قیادت میں لیفٹ فرنٹ کی حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہی تھی۔اس مقصد کے حصول کیلئے پارٹی نے اکیلے اور کبھی کانگرس اور بی جے پی کے ساتھ مل کر جدوجہد کی لیکن کامیاب نہ ہوئی۔ اس کی وجہ ریاست میں سی پی آئی ایم کی مضبوط حکومت تھی۔آخر کار کانگرس کے ساتھ مل کر 2011ء میں اسمبلی کے انتخابات میں لیفٹ فرنٹ کو شکست دیکر حکومت بنائی اور ممتا بینر جی وزیراعلیٰ بن گئیں لیکن کانگرس کے ساتھ زیادہ دیر تک نہ چل سکیں اور ستمبر 2012ء میں کانگرس کی سرکردگی میں برسرِ اقتدار یو پی اے سے علیحدگی اختیار کر لی۔
حالیہ انتخابات میں اْن کا مقابلہ نہ صرف سی پی آئی ایم بلکہ کانگرس اور بی جے پی سے بھی تھا۔ ان تینوں پارٹیوں کے اْمیدواروں کو شکست دے کر ممتا بینر جی کی پارٹی نے مغربی بنگال کی لوک سبھا کی42میں سے34نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی۔اس کے مقابلے میں کانگرس پارٹی 4،بی جے پی2اور سی پی آئی ایم2سیٹیں حاصل کر سکی۔مغربی بنگال میں لوک سبھا کی نشستوں
پر انتخابات کی تین اہم اور نمایاں خصوصیات ہیں۔ایک تو ترینا مول کانگرس کی فقید المثال کامیابی اور دوسرے سی پی آئی ایم کی بدترین شکست۔لیکن ان کے علاوہ تیسری اور ریاست میں آئندہ کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے غالباً سب سے اہم خصوصیت بی جے پی کے اْمیدواروں کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کا غیر معمولی تناسب ہے۔ریاست میں اگرچہ پارٹی نے لوک سبھا کی صرف دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے،لیکن ووٹ شیئر 17فیصد ہے جو کہ اب تک کے ووٹ شیئر میں سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ یعنی2009ء کے انتخابات میں بی جے پی نے صرف6.15فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
2014ء کے انتخابات میں ووٹوں کے تناسب میں غیر معمولی اضافے کی بنیاد پر بی جے پی نے اب اپنی نظریں 2016ء میں اسمبلی انتخابات پر لگا رکھی ہیں۔بی جے پی کی ہائی کمانڈ نے اپنے کارکنوں کو ابھی سے ان انتخابات کی تیاری کی ہدایت کر دی ہے۔مبصرین کا خیال ہے کہ مغربی بنگال کے آئندہ (2016ء) کے انتخابات میں اصل معرکہ آل انڈیا ترینا مول کانگرس اور بی جے پی کے درمیان ہوگا۔
کیا مغربی بنگال میں کمیونسٹوں اور بائیں بازو کے عناصر کو ہمیشہ کیلئے دیس نکالا مل چکا ہے؟اس ضمن میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا ابھی مشکل ہوگا کیونکہ تاریخ کی بدترین شکست کے باوجود سی پی آئی ایم اور اْس کی حلیف پارٹیوں نے ریاست میں ایک ایسا سیاسی ورثہ چھوڑ ا ہے جسے مٹانا نہ تو ممتا بینرجی اور نہ نریندرمودی کے بس کی بات ہے۔اس سیاسی ورثہ میں دیہی علاقوں کی ترقی خصوصاً ایک فعال لوکل سیلف گورنمنٹ سسٹم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا قیام شامل ہے۔اس کی بنیاد پر سی پی آئی ایم پلٹ کر ایک دفعہ پھر کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔