وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف نے بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کر کے ایک ایسا بروقت اور جرأت مندانہ قدم اٹھایا ہے‘ جسے پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ خود بھارت کے سرکاری اور غیرسرکاری حلقوں میں بھی سراہا جا رہا ہے۔ کچھ عناصر سرحد کے اِس پار اور اُس پار، ناک بھوں چڑھاتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن ان کو کوئی وقعت حاصل نہیں کیونکہ یہ حلقے ہمیشہ سے اقلیت میں چلے آ رہے ہیں اور دوسرے ان کی تنقید بالکل بلاجواز ہے۔ پاکستان اور بھارت میں اس وقت جمہوری طریقے سے منتخب مضبوط حکومتیں ہیں‘ جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان عرصہ سے چلے آ رہے پیچیدہ اور نازک مسائل کے حل کے لیے فیصلہ کن اقدام کا قوی امکان پیدا ہو گیا ہے۔ آج سے پندرہ برس قبل یعنی فروری 1999ء میں یہی بات بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران لاہور میں ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔ نئے وزیر اعظم نریندر مودی کا تعلق بھی بی جے پی سے ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے سخت موقف پر مبنی پالیسی کے حامی ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی پانچ ماہ سے زائد جاری رہنے والی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے بارے میں جو بیانات دیے‘ اْن سے ان خدشات کی تصدیق ہو جاتی ہے‘ اس کے باوجود اس حقیقت سے چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی کہ بھارت پاکستان کا سب سے بڑا ہمسایہ ملک ہے۔ اس کے ساتھ ہماری سب سے لمبی بین الاقوامی سرحد ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں ملکوں میں ایک عرصہ سے حل طلب اہم تنازعات موجود ہیں‘ جن کا حل تلاش کرنے کے لیے دونوں ملکوں میں رابطہ اور مذاکرات ناگزیر ہیں۔ نریندر مودی کی تقریب حلف برداری ایک ایسا موقع تھا‘ جو دونوں ملکوں کے رہنمائوں کو ایک دوسرے سے متعارف ہونے اور خیر سگالی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت اور بین الاقوامی برادری پر واضح کر دیا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور امن کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
اگرچہ اس دورے کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی اہم پیش رفت یا ڈرامائی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ یہ ایک باضابطہ دورہ نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی سفارتی ایجنڈا ہے۔ اس کے باوجود اس دورے کو محض رسمی کارروائی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ حلف برداری کی تقریب سے اگلے دن دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ون ٹو ون ملاقات اور پاکستانی وزیر اعظم کی بھارتی صدر پرناب مْکھرجی سے ملاقات بھی طے ہے۔ خود بی جے پی کے حلقوں کی رائے ہے کہ پاکستانی اور بھارتی رہنمائوں کی اس موقع پر ملاقات محض ایک رسمی ملاقات نہیں ہو گی بلکہ اس مختصر ملاقات میں بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کے بارے میں اپنے خیالات اور احساسات سے ایک دوسرے کو آگاہ کر سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے بی جے پی کے حلقوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی نریندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہو گی۔
اس رائے کو اس امر سے بھی تقویت حاصل ہوتی ہے کہ نریندر مودی کی حلف برداری کی اس تقریب میں جنوبی ایشیا کی 8 رکنی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ کے سربراہان بھی شرکت کر رہے ہیں۔ ان میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد‘ سری لنکا کے صدر مہندا راج پاکسے اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی بھی شامل ہیں۔ یہ رہنما نریندر مودی کی خصوصی دعوت پر تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔ بھارت کے سرکاری حلقوں کے مطابق ماضی میں بھارت کے کسی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں ''سارک‘‘ کے رہنمائوں کو اس طرح کبھی مدعو نہیں کیا گیا۔ یہ نریندر مودی کا اپنا ذاتی اقدام تھا‘ جس پر خود بھارتی وزارتِ خارجہ کے حلقوں نے حیرانی کا اظہار کیا؛ تاہم اسے نہ صرف سفارتی بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی ایک اہم اقدام تسلیم کیا جا رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس کا مقصد بھارت کے کچھ ہمسایہ ممالک میں پیدا ہونے والے ان خدشات کو دور کرنا ہے‘ جو انتخابی مہم کے دوران میں نریندر مودی کی بعض تقریروں اور بیانات سے پیدا ہو گئے تھے۔ نریندر مودی نے بنگلہ دیش پر اپنے ہاں ہندوئوں سے بدسلوکی اور آسام میں بنگلہ دیشی باشندوں کی غیر قانونی آمد کی حوصلہ افزائی کا الزام عائد کیا تھا۔ نرنیدر مودی کی ان تقریروں سے آسام میں مسلم کْش فسادات بھی ہوئے تھے۔ نریندر مودی نے اپنی تقاریر میں پاکستان کے بارے میں بھی سخت لہجہ اختیار کیا تھا۔ جنوری 2012ء اور پھر اگست 2013ء میں
کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت فوجی دستوں کے درمیان جھڑپوں کے باعث نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف سخت جوابی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا‘ اور اس سلسلے میں کانگرس کی سابق حکومت کی طرف سے نرم ردِعمل پر نریندر مودی نے سخت تنقید کی تھی بلکہ ستمبر 2013ء میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کے درمیان نیویارک میں ہونے والی ملاقات کی بھی نریندر مودی نے مخالفت کی تھی، لیکن انتخابات کے شور اور تقریروں کی گھن گرج مدھم پڑنے کے بعد نریندر مودی کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ بی جے پی اور خود اْن کی ذات کے حوالے سے بھارت کے پڑوسی ممالک میں جو خدشات پائے جاتے ہیں، اْن کو دور کیے بغیر بھارت ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اس رائے کو بھارت یا جنوبی ایشیا میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ نریندر مودی نے اسی سوچ کے تحت ''سارک‘‘ سربراہان کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی اور وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اس میں شرکت کر کے ایک صحیح قدم اْٹھایا ہے۔
اس فیصلے کا ایک ہم پہلو یہ ہے کہ اسے نہ صرف پاکستان کی تمام اہم سیاسی جماعتوں بلکہ فوج کی بھی حمایت حاصل ہے۔ جن پارٹیوں نے وزیر اعظم کی شرکت کی حمایت کی‘ اْن میں پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) شامل ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے حمایت اس لیے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ یہ جماعت متحدہ مجلس عمل کا حصہ رہ چکی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صوبہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں پشتون آبادی کی نمائندہ جماعت سمجھی جاری ہے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے فیصلے کو قومی سطح پر حمایت حاصل ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی وزیر اعظم کے اس اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نریندر مودی نے چین کے خلاف بھی سخت بیانات داغے تھے‘ لیکن انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی پر چین نے نریندر مودی کو نہ صرف مبارک باد کا پیغام بھیجا بلکہ تجارت اور اقتصادی شعبے میں تعلقات کو مزید آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ چند ماہ میں چین کے صدر بھارت کا دورہ کرنے والے ہیں۔ چینی وزیر اعظم ایک برس قبل بھارت کا دورہ کر چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نریندر مودی کی انتخابی تقریروں سے پیدا ہونے والی تلخی سے قطع نظر چین اور بھارت کے درمیان تجارت اور اقتصادی شعبے میں تعاون جاری رہے گا کیونکہ سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے گزشتہ برس چینی وزیر اعظم کے دورہ بھارت میں باہمی تعاون اور تجارت بڑھانے کے حوالے سے متعدد معاہدات پر دستخط کیے تھے۔
پاکستان کے لیے اس عمل سے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں۔ اگر بھارت کے دیگر ہمسایہ ممالک جن میں ''سارک‘‘ کے رْکن ممالک کے علاوہ چین، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی شامل ہیں، بھارت کے ساتھ قریبی روابط، تجارتی تعلقات اور اقتصادی تعاون بڑھانا چاہتے ہیں تو پاکستان کے لیے اس رجحان کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ جلد یا بدیر پاکستان کو اس دھارے میں شامل ہونا پڑے گا۔ وقت ضائع کیے بغیر ایسا ہو جائے تو بہتر ہے۔