21ویں صدی کو ایشیا کی صدی کا نام دیا گیا ہے کیونکہ معاشی ترقی کی رفتار میں ایشیائی ممالک خصوصاً چین، یورپ، امریکہ اور جاپان کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں بالکل اسی طرح جیسے بیسویں صدی کو امریکہ کی صدی کہا جاتا تھا کیونکہ انیسویں صدی کے اختتام پر امریکہ نصف کرئہ شمالی اور بحرالکاہل کے ساحلوں سے نکل کر کرئہ ارض کی سب سے طاقتور معاشی اور عسکری قوت کے طور پر اْبھر چکا تھا۔ اس کا مظاہرہ پہلی جنگ عظیم (1918ء۔1914ء) اور دوسری جنگ عظیم(1945ء۔1939ء)کے دوران اْس وقت دیکھنے میں آیا جب تاریخ کی سب سے بڑی نو آبادیاتی قوموں یعنی انگریزوں اور فرانسیسیوں کو جرمنی اور اْس کے اتحادیوں کے ہاتھوں شکست سے بچنے کے لیے امریکہ سے مدد بلکہ مداخلت کی درخواست کرنا پڑی‘ حالانکہ اْس سے پچھلی یعنی انیسویں صدی میں یورپ پوری دنیا پر چھایا ہواتھا‘ دنیا کی قسمت کے فیصلے لندن،پیرس اور برلن میں ہواکرتے تھے کیونکہ یورپ کے صرف سات ممالک نے کرئہ ارض کے دوتہائی حصے کو نو آبادیات کی شکل میں اپنے قبضے میں لے رکھا تھا۔ان میں سے سب سے بڑی نوآبادیاتی طاقت برطانیہ تھی جس کی نوآبادیوں کی تعداد ایک سو سے زائد تھی۔ لیکن نہ وہ سلطنت رہی اور نہ وہ سطوت۔ویسے تو اْنیسویں صدی کے آخر میں اپنے انتہائی عروج پر پہنچ کر بیسویں صدی کے آغاز میں ہی نو آبادیاتی نظام زوال کا شکار ہوچکا تھا لیکن پہلی اور دوسری جنگِ عظیم نے یورپی نو آبادیاتی نظام پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ اس سے پھر جانبر نہ ہوسکا۔ اس کے بعد امریکہ نہ صرف اْن علاقوں مثلاً مشرقِ وسطیٰ،افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں بالادست طاقت بن کر اْبھرا جہاں ایک زمانے میں یورپی طاقتیں سیاہ سفید کی مالک تھیں،بلکہ خود یورپ کو بھی اپنے دفاع اور معاشی بقا کے لیے امریکہ کا دستِ نگر ہونا پڑا۔ لیکن اس کا ہر گزیہ مطلب نہیں کہ یورپ اور اْس کی سابق نو آبادیات کے درمیان تعلقات ختم ہوچکے ہیں۔نوآبادیاتی دور دوسوسال ہوئے ختم ہوچکا‘ لیکن اْس کی باقیات اب بھی باقی ہیں۔اگرچہ ان کی نوعیت مختلف ہے‘ اس کے باوجود یورپ کے بعض ممالک اور اْن کی راج دھانیاں اب بھی سابق نوآبادیاتی ممالک کے لیے کسی نہ کسی حوالے سے اہمیت کی حامل ہیں۔
برطانیہ کے دارلحکومت لندن کو ہی لے لیجیے۔برطانوی دولتِ مشترکہ کے رْکن ممالک کے سیاسی رہنما‘ خواہ وہ حکومت کے اندر ہوں یا باہر‘ اکثر لندن یاتراکرتے ہیں۔ضروری نہیں کہ اس کا مقصد برطانوی حکومت سے معاملات طے کرنا ہوبلکہ آپس کے معاملات طے کرنے کے لیے بھی لندن کو موزوں ترین مقام سمجھ کر اس کا انتخاب کیا جاتا ہے۔پاکستان کی تقریباً ہر بڑی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے زعما اکثر لندن یاتراکرتے رہتے ہیں۔یہ یاترا کبھی خالصتاً ذاتی نوعیت کی ہوتی ہے اور کبھی سیاسی نوعیت کی‘ کبھی کبھی یہ یاترا سیاسی اجتماع کی شکل میں بھی نظر آتی ہے۔
اس قسم کا ایک سیاسی اجتماع گزشتہ دنوں لندن میں ہوا تھا۔اس میں اگرچہ صرف دو سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان مسلم لیگ(ق) اور ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے رہنما شریک ہوئے لیکن اس کے نتیجے میں دونوں پارٹیوں نے جو10نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا‘ اْس سے پاکستانی سیاست میں کھلبلی مچ گئی۔ ہر اخبار نے اس اعلامیہ کو شہ سرخیوں کے ساتھ چھاپا اور نجی ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں اس پر تبصرہ کیا جارہا ہے۔ اعلامیے میں موجودہ حکومت کو غیر قانونی ،غیر آئینی اور ملک دشمن کہہ کر اس کے خاتمے کو واجب قرار دیا گیا ہے۔
مشترکہ اعلامیہ میں جو دس نکات پیش کیے گئے‘ اْن میں سے کوئی بھی آئٹم نئی نہیں ہے۔بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنا،پلک جھپکنے میں بدعنوانی ختم کرنا اور مہنگائی کو جڑ سے اْکھاڑ پھینکنا، ایسے وعدے ہیں جو ہر پارٹی خصوصاً انتخابات کے موقع پر عوام سے کرتی ہے اور پھر جتنے زور اور تواتر کے ساتھ یہ وعدے کیے جاتے ہیں ،اقتدار میں آنے کے بعد اْتنی ہی سرعت اور آسانی کے ساتھ اْنہیں بھلا دیا جاتا ہے؛ البتہ ڈاکٹر طاہر القادری کہہ سکتے ہیں کہ اْن کی جماعت کو کبھی اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملا اس لیے اْن پر وعدہ کر کے پھر جانے کا الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔لیکن اْن کی حلیف جماعت مسلم لیگ(ق)تو جنرل مشرف کی عنایت سے دوبار اقتدار کی پینگیں جھول چکی ہے۔کوئی ان سے پوچھے کہ یہ وعدے جو آج کیے جارہے ہیں،اْنہوں نے اپنے دور میں کس حد تک پورے کیے تھے۔اعلان لند ن کا اصل مقصود وعدے پورا کرنا نہیںبلکہ بقول طاہرالقادری موجودہ نظام کو تبدیل کرنا ہے اور اس جانب بڑھنے کے لیے پہلا قدم پاکستان مسلم لیگ(ن)کی مرکز میں حکومت کو ختم کرنا ہے‘ لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کو علم ہوگا کہ حکومت کا اختتام صرف تین صورتوں میں ممکن ہے۔ پہلی یہ کہ حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرے۔دوسری یہ کہ وزیراعظم خود صدر سے قومی
اسمبلی کو تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کی درخواست کریں اور تیسری یہ کہ قومی اسمبلی میں برسرِاقتدار پارٹی اپنی عددی اکثریت کھو دے اور حزب مخالف تحریک عدم اعتماد لے آئے۔ڈاکٹر طاہرالقادری اور چودھری برادران کو معلوم ہے کہ ان تینوں مذکورہ بالا طریقوں سے حکومت کی چھٹی کا کوئی امکان نہیں کیونکہ ابھی اس کی آئینی مدت کے چار سال باقی ہیں۔جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے تو اْس کے بھی دور دور تک آثار نظر نہیں آتے اور اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں کہ وزیراعظم خود اپنی ہی حکومت کے خاتمے کیلئے صدر مملکت سے درخواست کریں۔جہاں تک حکومت کے خلاف کسی تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے اس کی کامیابی کا بھی کوئی امکان نہیں کیونکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کو اکیلے ہی قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اس کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان کی تحریک انصاف اکیلے اس حکومت کو گرانے کی پوزیشن میں نہیں اور اسمبلی میں کوئی اور سیاسی پارٹی اس مقصد کے لیے تحریک انصاف کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔
اس لیے ڈاکٹر طاہر القادری اور چودھری برادران کے سامنے اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ملک کے طول وعرض میں حکومت مخالف جلسے،جلوس اور ریلیاں منظم کر کے حکومت کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔اگرچہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک آدھ مرتبہ کہا ہے کہ وہ ملک میں مارشل لا کے حامی نہیں لیکن مسلم لیگ(ق) کی قیادت نے حال ہی میں فوج کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے جس طرح ملک گیر ریلیاں نکالیں، اْن سے تو یہی اشارہ ملتا ہے کہ اگر حالات بے قابو ہونے کی صورت میں فوج حکومت کو اقتدار سے الگ کر کے خود اقتدار سنبھال لے تو مسلم لیگ (ق)کو اس پر کوئی تعرض نہ ہوگا بلکہ اعلانِ لندن جاری کرنے والی پارٹیاں اس اقدام کا خیر مقدم کریں گی۔ان کے خیال میں پاکستان کے موجودہ حالات میں ایسے اقدام کے قوی امکانات موجود ہیں ۔ملک کے طول و عرض میں احتجاجی جلسے اور جلوس منظم کر کے یہ دونوں پارٹیاں حکومت مخالف تحریک چلا کر دراصل ایسے اقدام کیلئے راہ ہموار کرنا چاہتی ہیں۔ اس ضمن میں اْنہیں عمران خان کے اسلام آباد اور فیصل آباد کے جلسوں سے حوصلہ ملا ہے۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق لندن میں تشکیل دیے جانے والے اس حکومت مخالف سیاسی اتحاد میں عمران خان کی تحریکِ انصاف کو بھی شریک ہونا تھا لیکن عمران خان نے یہ کہہ کر کہ وہ کسی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے، ڈاکٹر طاہرالقادری اور چودھری شجاعت کی اْمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ان دونوں حضرات نے لندن میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا ہے کہ اْنہیں ایم کیو ایم کی بھی حمایت حاصل ہے اور اتحاد میں شمولیت کے لیے ایم کیو ایم کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن ایم کیو ایم سندھ میں پیپلز پارٹی کی اتحادی ہے اور پیپلز پارٹی نے نہ صرف اس اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے بلکہ ایسی تمام کوششوں کی مذمت کی ہے جن کا مقصد موجودہ حکومت کی مخالفت کی آڑ میں جمہوریت کی ٹرین کو پٹڑی سے اْتارنا ہے۔
ان حالات میں صاف نظر آتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور چودھری برادران کی طرف سے اعلان کردہ دس نکاتی پروگرام کی بنیاد پر ملک میں کسی بڑی تحریک کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں کیونکہ نہ صرف بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں اس سے الگ تھلگ ہیں بلکہ عوام نے بھی اس میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔