پاکستان ،افغانستان اور افغانستان میں مقیم امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈروں کے درمیان آج تک اسلام آباد یا کابل میں جتنی بھی میٹنگیں ہوئی ہیں ان میں بلا استثناء پاک افغان سرحد پر صورتِ حال کو کنٹرول میں رکھنے پر نہ صرف تفصیلاً بحث ہوتی رہی ہے بلکہ اس سلسلے میں مختلف اقدامات پر اتفاق کا بھی اعلان ہوتا رہا ہے۔اس قسم کی ایک میٹنگ 19مئی کو کابل میں ہوئی تھی جس میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے علاوہ ایساف کمانڈر جنرل جوزف ڈلفورڈ اور افغانستان آرمی کے چیف جنرل شیر محمد کریمی نے بھی شرکت کی تھی۔سب سے اہم موضوع پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے ممکنہ اقدامات تھے تاکہ اس سال کے آخر میںجب افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلاء مکمل ہوجائے گا تو اس پار سے اْس پار مسلح طالبان کی آمدورفت کو روکا جاسکے۔غالباًاسی میٹنگ میں کیے گئے فیصلوں کی روشنی میںپاکستان کے سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل(ریٹائرڈ)عارف یاسین ملک نے بلوچستان کے ساتھ ملنے والی افغان سرحد پر واقع چمن کا دورہ کیا تھا۔فرنٹیئرکورکے انسپکٹر جنرل بھی اْن کے ہمراہ تھے۔اس موقعہ پر اْنہوں نے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ پاک افغان سرحد پر ایسے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں جہاں سے غیر قانونی طور پر لوگ ایک دوسرے کے ہاں آیا جایا کرتے تھے۔اس موقع پر اْنہوں نے کئی دیگر اقدامات کا بھی ذکر کیا جن میں حکومت ِپاکستان کا یہ فیصلہ بھی تھا کہ پاک افغان سرحد پر باقاعدہ فوج تعینات نہیں کی جائے گی بلکہ اس کی نگرانی ایف سی ہی کے ہاتھ میں رہے گی۔تاہم فوج اپنے مورچوں اور چیک پوسٹوں پر موجود رہے گی۔سیکرٹری دفاع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ غیر قانونی طور پر سرحد کو عبور کرنے والوں کو روکنے کیلئے پاکستان نے سرحد کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں ایک گہری خندق بھی کھودنے کا فیصلہ کیا ہے۔اْنہوں نے افغانستان کی حکومت کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اپنی طرف بھی ایسی خندق کھو دیں،تاکہ بلا اجازت غیر قانونی اور خفیہ طور پر سرحد عبور کرنے کی روک تھام ہوسکے۔
لیکن اس کے باوجود پاک افغان سرحد ایک دفعہ پھر کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ اس کی وجہ افغانستان کی طرف سے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر سینکڑوں مسلح دہشت گردوں کے حملے ہیں۔گزشتہ تقریباًایک ہفتے میں اسی طرح کے تین بڑے حملے ہوچکے ہیں۔تازہ ترین حملے میں جو پاکستان کی قبائلی ایجنسی باجوڑ میں ہوا،سات پاکستانی جوان شہید ہوئے۔پاکستانی حکام کے مطابق ان حملوں میں وہ پاکستانی طالبان ملوث ہیں جنہوں نے قبائلی علاقوں اور خصوصاََ شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی کارروائی کے پیش نظر بھاگ کر افغانستان کے صوبے کْنر میں پناہ لے رکھی ہے اور یہ حملے جن میں راکٹ اور بھاری ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں،افغانستان کے علاقے سے ہی کیے جارہے ہیں،لیکن افغانستان کی حکومت نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔یا تو ان جنگجوئوں کی کارروائیوں کو روکنا افغان حکومت کے بس میں نہیں یا پھر جان بوجھ کر چشم پوشی سے کام لیا جارہا ہے۔اسی بناء پر حکومت ِ پاکستان نے افغانستان سے سخت احتجاج کرتے ہوئے ان حملوں کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔افغانستان کے صدر(جن کے عہدے کی مْدت میںاب چند روز باقی رہ گئے ہیں)نے پاکستانی موقف کے برعکس پاکستان سے شکوہ کیا ہے کہ سرحد پر تعینات ہماری فوج افغانستان کے علاقوں میں گولہ باری کر رہی ہے اور راکٹ برسارہی ہے اور افغان ذرائع کے دعووں کے مطابق یہ سلسلہ کئی روز سے جاری ہے اور اس کے ساتھ پاکستانی سرحد کے پار سے طالبان نے بھی افغانستان میںافغان اور امریکی افواج پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔صدر حامد کرزئی کے دعوے کے مطابق ان حملوں کا مقصد 14جون کو افغانستان کے صدارتی انتخابات کے دوسرے اور آخری مرحلے کو سبو تاژ کرنا ہے۔پاکستان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ حقیقی صورتِ حال کچھ بھی ہو ،پاک افغان سرحد پر موجودہ کشیدگی نہ صرف قابل افسوس بلکہ دونوں ملکوں کی سلامتی کیلئے انتہائی خطر ناک مضمرات کی حامل ہے۔سرحد کے آر پار گولہ باری اور مسلح حملے یا جنگجوئوں کی دراندازی کے واقعات ایک ایسے موقعہ پر رْونما ہورہے ہیں جب امریکہ اور اْس کے اتحادی ممالک کی افواج افغانستان سے انخلاء کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔امریکی صدر باراک اوباما کے ایک حالیہ بیان کے مطابق یہ انخلاء اس سال کے آخر یا اگلے سال کے اوائل تک مکمل ہوجائے گا۔افغانستان میں سکیورٹی اور بڑے بڑے شہروں کے دفاع کی ذمہ داری امریکیوں نے پہلے ہی افغان فوج کے سپرد کر رکھی ہے۔ اب وہ ایک آدھ برس میں یہاں سے مکمل طور پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اس موقعہ پر اگر پاک افغان سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اور دونوں ملکوں
کی بارڈر پولیس کے درمیان جھڑپوں کی نوبت آجاتی ہے،تو اس سے اْن خدشات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ امریکیوں کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں شدید انارکی کی صورتِ حال پیدا ہوجائے گی اور اس کا سب سے خطرناک پہلو پاک۔افغان سرحد پر کشیدہ صورت ِ حال ہوگا۔افغانستان اور امریکہ کی جانب سے پاکستان پر پہلے ہی الزام عاید کیا جارہا ہے کہ افغانستان میں مسلح کارروائیاں کرنے والے افغان طالبان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں، خصوصاََ شمالی وزیرستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور اس سلسلے میں حقانی نیٹ ورک کا خاص طور پر نام لیا جاتا ہے۔افغانستان اور امریکی ذرائع کو شکایت ہے کہ بار بار درخواست کے باوجود پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں میں قائم افغان طالبان کے ان محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی۔ غیر ملکی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں اپنے محفوظ ٹھکانوں میں مقیم افغان طالبان اور اْن کے ساتھ پاکستانی طالبان،افغانستان سے امریکیوں کے مکمل انخلاء کے منتظر ہیں اور جوں ہی آخری امریکی یا نیٹو کا فوجی افغانستان سے رْخصت ہوا،یہ طالبان پاکستان کی سرحد کو عبور کر کے افغانستان پر دھاوا بول دیں گے۔دوسرا محاذ بلوچستان کی سرحد پر کھولاجائے گا جہاں امریکیوں اور افغان ذرائع کے مطابق ملا عمر کی قیادت میں ''کوئٹہ شوریٰ‘‘افغانستان میں عسکری کارروائیوں کی نگرانی کررہی ہے۔ان خدشات میں کہاں تک صداقت ہے، اس بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم اگر ماضی کی مثال کو سامنے رکھا جائے تو اس کا امکان نظر آتا ہے۔افغانستان پر روسی قبضے کے
دوران سابق فوجی آمر جنرل ضیا ء الحق نے پاک افغان بین الاقوامی سرحد کو '' فری فار آل ‘‘بنا دیا تھا۔افغانستان سے ہجرت کرنے والوں کی پاکستان میں آمد پر کوئی پابندی نہیں تھی اور اس طرح پاکستان سے ''افغان جہاد‘‘میں شرکت کرنے والوں کو بھی سرحد عبور کرنے کی مکمل آزادی تھی۔اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ضیاء الحق اور اْس کی حلیف مذہبی جماعتوں کی غلط پالیسی کے سبب ڈیورنڈ لائن عملی طور پر ناپید ہوچکی تھی،تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔پاکستان کی آزادی ،سلامتی اور اقتدار ِ اعلیٰ کیلئے اس سے بڑے نقصان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اور یہ سلسلہ نہ صرف روسیوں کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد افغانستان میں ''افغان مجاہدین‘‘کے گروپوں کے درمیان طویل عرصہ تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران جاری رہابلکہ طالبان کے دور(1996-2001ء)میں بھی پاک افغان سرحد کو پاکستان اور افغانستان کے باشندے، جن میں دہشت گرد بھی شامل تھے،جہاں سے چاہتے اور جب چاہتے بلا روک ٹوک عبور کرسکتے تھے۔
پاک افغان سرحد کی دونوںا طراف سے خلاف ورزیاں اسی روایت کا تسلسل ہیں اور اس تسلسل کو سیاسی حکمرانوں یا عسکری رہنمائوں کی محض رسمی ملاقاتوں یا اجلاسوں کے ذریعے نہیں توڑا جاسکتا۔اس کیلئے سیاسی عزم درکار ہے جو بدقسمتی سے دونوں طرف غائب ہے اور اْس کی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان حائل بد اعتمادی کی ایک وسیع خلیج ہے۔افغانستان سے امریکیوں کے نکل جانے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافے کا خطرہ ہے کیونکہ اس کو روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں طے کیے گئے اور اگر بعض اقدامات پر اتفاق بھی ہوا ہے تو اْن پر بے دلی سے عمل درآمد ہورہا ہے۔پاک افغان سرحد پر حالیہ افسوسناک واقعات اسی غفلت کا نتیجہ ہیں۔