"DRA" (space) message & send to 7575

ملکی بقاء کی جنگ

شمالی وزیرستان میں 15جون کو شروع کیا گیا ملٹری آپریشن اب دوسرے ہفتے میں داخل ہونے جا رہا ہے۔ اَب تک کی موصولہ اطلاعات کے مطابق یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ آپریشن گذشتہ دَس برسوں میں ہونے والے تمام آپریشنز سے مختلف ہے۔ سب سے پہلی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ آپریشن حکومت کی ہدایت پر شروع کیا گیا ہے۔ اِس سے یہ ابہام ختم ہوگیا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان طالبان کے خلاف کارروائی کے مسئلے پر اتفاق نہیں ہے۔ دوسرے‘ آپریشن کے آغاز پر واضح کر دیا گیا تھا کہ یہ آپریشن مکمل اور جامع کارروائی ہے یعنی ماضی کے برعکس طالبان کے صِرف چند ٹھکانوں یا گروپوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا جا رہا بلکہ حکومت کی رِٹ کو چیلنج کرنے والے تمام دہشت گرد اِس آپریشن کی زد میں ہیں۔ اِس طرح ''اچھے طالبان‘‘ اور بُرے طالبان ‘‘ یعنی ایسے طالبان جو حکُومت سے نبرد آزما نہیں تھے بلکہ افغانستان میں نیٹو افواج اور افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں میں مصروف تھے اور وہ طالبان جنہوں نے حُکومت پاکستان کے خلاف ہتھیار اُٹھا رکھے تھے‘ میں اب کوئی فرق نہیں رہا بلکہ آپریشن میں اِن سب کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ حاجی گُل بہادر اور مولوی نذیر کے ساتھ پا ک فوج کے امن معاہدے ختم ہو چکے ہیں ۔ اِس طرح آپریشن کا مقصد بھی اب محدود نہیں بلکہ اِس کے آغاز کے ساتھ اعلان کیا گیا ہے کہ اِس کارروائی کا مقصد ملک کے قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہے اور وزیراعظم نواز شریف نے واضح کر دیا ہے کہ جب تک یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا آپریشن جاری رہے گا۔ ماضی میں اِس طرح کے جتنے آپریشن کئے گئے تھے وہ نہ صِرف اپنے مقاصد کے اعتبار سے محدُود تھے ، بلکہ اِنہیں شروع کرتے وقت سیاسی اور انسانی پہلوئوں کو بھی پیشِ نظر نہیں رکھا گیا تھا‘ لیکن اِس دفعہ حکومت نے تمام سیاسی ، عسکری اور سماجی پہلوئوں کو سامنے رکھتے ہوئے آپریشن شروع کیا ہے۔ مثلاً آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی حکومت نے افغانستان سے شمالی وزیرستان سے ملنے والی سرحد بند کرنے کی درخواست کی ہے۔ اِس کے علاوہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور پاکستان میں افغان سفیر کے درمیان حالیہ ملاقات میں بارڈر سکیورٹی سے متعلقہ اُمور پر بحث اور اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نواز شریف اور افغان صدر حامد کرزئی کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت اور قومی اسمبلی کے رُکن اور پختونخوا مِلی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے دورہ افغانستان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں کی جغرافیائی ، تاریخی اور سماجی صورت حال کے پیشِ نظر پاکستان اور افغانستان میں تعاون دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی کامیابی کیلئے اولین شرط ہے۔ ماضی میں اِس قسم کے آپریشن محض اس لئے ناکام یا غیر موثر رہے کہ اِن دونوں ملکوں میں تعاون موجود نہیں تھا۔ 
اس آپریشن کا ایک اور اہم پہلُو یہ ہے کہ یہ مقامی طالبان کے خلاف ہی نہیں بلکہ غیر ملکی جنگجوئوں کے خلاف بھی شروع کیا گیا ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے ملک میں جو تباہی مچا رکھی تھی، وہ تو سب کے سامنے ہے، پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی وزیرستان میں غیر ملکی جنگجوئوں کی بڑھتی ہُوئی سرگرمیوں سے نہ صِرف ہمارے ملک کے اندر منظم اور ہائی پروفائل دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ہو رہا تھا، بلکہ اِن سے ہمارے دوست ہمسایہ ممالک مثلاً چین اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی پریشانی کا شکار تھیں ۔ چین نے متعدد بار الزام عائد کیا ہے کہ اُس کے مغربی حِصے میں واقع صوبہ سنکیانگ میں سرگرمِ عمل علیحدگی پسند دہشت گرد، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکری تربیت حاصل کر کے گلگت ، بلتستان کے ساتھ ملنے والی سرحد عبُور کر کے چین میں داخل ہوتے ہَیں۔ چین نے اِس طرف حکومتِ پاکستان کی توجہ بھی مبذول کروائی اور مطالبہ کیا کہ ''ترکستان اسلامی تحریک‘‘ سے منسلک اِن عناصر کے تربیتی اڈوں کے خلاف کارروائی 
کی جائے۔ گزشتہ سال مئی میں جب چینی وزیراعظم لی کوینگ پاکستان کے دورے پر آئے تھے، تو وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ملاقات میں یہ مسئلہ خصوصی طور پر موضوع بحث تھا اور چینی خدشات کو دُور کرنے کیلئے پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر گلگت ‘ بلتستان سے ملنے والی پاک چین سرحد پر سرحدی چوکیاں قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یا تو اِس سمت ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا گیا یا پھر دوسرے راستوں سے دہشت گرد پاکستانی سرحد عبُور کر کے چین میں داخل ہو رہے ہیں۔ چینیوں کی طرف سے بار بار درخواست کے باوجود قبائلی علاقوں میں اِن علیحدگی پسند دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں کو ختم کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ اِس سے پاکستان او رچین کے تعلقات متاثر ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا اور غالباً انہی خدشات کو دُور کرنے کیلئے چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے جون کے پہلے ہفتے میں چین کا دورہ کیا تھا۔ اِس دورے کے دوران اُنہوں نے چینی عسکری قیادت کے علاوہ چینی وزیر خارجہ وانگ چی سے بھی ملاقات کی تھی اور دورے کے بارے میں موصولہ اطلاعات کے مطابق جنرل راحیل شریف کے ساتھ چینی رہنمائوں کی ملاقات میں پاکستانی سرحد عبُور کر کے آنے والے دہشت گردوں کے مسئلے پر خصوصی طورپر بات چیت ہوئی ۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ 
ایک سنگین صورت اختیار کر چکاتھا ۔ شمالی وزیرستان میں ملٹری آپریشن کے فوری اسباب میں جہاں کراچی ایئر پورٹ پر اُزبک دہشت گردوں کے حملے کا ہاتھ ہے ، وہاں چین اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرف سے شمالی وزیرستان میں اُزبک اور چینی جنگجوئوں کے خلاف کارروائی کیلئے پاکستان پر سخت دبائو بھی شامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ملٹری آپریشن مقامی طالبان کے خلاف کم اور غیر ملکی جنگجوئوں کے خلاف زیادہ ہے، تو مبالغہ نہ ہوگا‘ کیونکہ غیر ملکی جنگجو حکومت اور فوج کیلئے ایک عرصہ سے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ وہ نہ صرف پاکستان کی سرزمین کو ہمسایہ ملکوں میں دہشت گرد کارروائیوں کیلئے استعمال کر کے پاکستان کے چین، وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا موجب بن رہے تھے ، بلکہ اندرونِ ملک بھی دہشت گرد کارروائیوں میں سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے۔ اِس ضمن میں کراچی ائیر پورٹ پر حملے کی مثال سامنے ہے۔ اِس حملے میں ازبکستان میں سرگرم عمل ''اسلامی تحریک ازبکستان (IMU)‘‘ کے دہشت گردوں نے حصہ لیا تھا۔ اِس سے دو سال قبل پشاور ائیر پورٹ اور ڈیرہ غازی خان کی جیل پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں میں بھی غیر ملکی یعنی اُزبک دہشت گرد ملوث تھے ۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا اب ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ اِس میں اب غیر ملکی جنگجوئوں کی براہ راست شرکت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، جو کہ پاکستان کی آزادی ، سالمیت اور جمہوری نظام کیلئے ایک انتہائی سنگین خطرہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں