عراق میں القاعدہ سے منسلک اسلامی بنیاد پرستوںاسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ لیونٹ(ISIL)کی عراقی حکومت کے خلاف یلغار جاری ہے۔اپنی پیش قدمی میں اْنہوں نے شام سے ملحقہ عراقی سرحد پر ایک اہم چوکی پر قبضہ کر لیا ہے۔اس سرحد پر عراق اور شام کے درمیان آمدورفت کیلئے تین بڑی چوکیاں ہیں جن میں سے ایک پہلے سے کُردوں کے قبضے میں ہے‘ دوسری عراقی حکومت سے برسرِپیکار اسلامی بنیاد پرستوں کے قبضے میں چلی گئی ہے۔ اب وزیراعظم نوری المالکی کی حکومت کا صرف ایک چوکی پر کنٹرول رہ گیا ہے۔عراقی حکومت نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اْس کی فوجوں نے اس علاقے سے فوجی حکمتِ عملی کے تحت پسپائی اختیار کی ہے لیکن مبصرین کی رائے میں عراقی فوجوں کے پیچھے ہٹ جانے سے اسلامی بنیادپرستوں کے ہاتھ ایک نہایت اہم علاقہ آگیا ہے‘ کیونکہ اب وہ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے ہم خیال باغیوں سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔اس طرحISILنے عراق اور شام دونوں میں اپنی مرضی کی اسلامی حکومت کے قیام کا جو منصوبہ بنا رکھا ہے،اْسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اب اْن کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ حائل نہیں رہی۔یہی وجہ ہے کہ اس خطے سے جن ممالک کے مفادات وابستہ ہیں،اْن کی تشویش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔امریکی صدر بارک اوباما نے ایک بیان میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس جنگ کی آگ کو بجھایا نہ گیاتو دیگر ہمسایہ ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔امریکی صدرکی اس سے مراد غالباً شام ہے جہاں امریکی اور سعودی مدد کے ساتھ باغیوں نے سرکاری فوجوں پر پہلے ہی کافی دبائو ڈال رکھا ہے‘ لیکن عراق کی سرحدیں صرف شام سے ہی نہیں ملتیں‘ اْردن،سعودی عرب اور ایران بھی عراق کے ہمسایہ ممالک میں شامل ہیں۔عراق میں اس وقت جو جنگ جاری ہے،اْس کے شعلے ان ممالک خصوصاً اْردن اور سعودی عرب‘ جن کا شمار پکے امریکی اتحادیوں میں ہوتا ہے‘ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اس کی طرف واضح اشارہ حال ہی میں ایران کے صدر حسن روحانی نے کیا۔ ایک بیان میں اْنہوں نے بغیر نام لیے ان ممالک کو خبردار کیا ہے کہ جن مذہبی جنونیوں کو وہ اپنی دولت سے مضبوط بنارہے ہیں،اْن کا اگلا نشانہ یہی ممالک بن سکتے ہیں‘ کیونکہ انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کسی کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے‘ وہ نہ تو کسی نظریے اور نہ کسی اْصول کے پابند ہوتے ہیں بلکہ اْن کا واحد مقصد انارکی اور تباہی پھیلانا ہے۔ آج وہ عراق میں وزیراعظم نوری المالکی کی حکومت کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں‘ کل کو اْن کی بندوقوں کا رْخ اس خطے کی دوسری حکومتوں کی طرف بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ان ملکوں میں رائج الوقت حکومتی نظام ان انتہا پسندوں کے معیار پر پورا نہیں اْترتا۔
صدر روحانی نے عراق کے موجودہ بحران کے حل کیلئے جو اقدامات تجویز کیے ہیں،امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے اس کے اتحادیوں کو چاہیے کہ اْنہیں فوراً مسترد کرنے کی بجائے اْن پر غور کریں۔ ایران کے اس موقف کی ساری دنیا حمایت کرے گی کہ عراق میں بیرونی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔اْن کے خیال میں وزیراعظم نوری المالکی کی حکومت اتنی کمزور نہیں اورا ْس میں مذہبی بنیادپرستوں کو شکست دینے کی اہلیت موجود ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں اور اسے ہر ممکن مدد فراہم کر کے عراق میں دہشت گردوں کے آگے بند باندھنے کے قابل بنایا جائے۔اس سے نہ صرف عراق کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ شام میں بھی انتہا پسندوں کے غلبے کا خطرہ ٹل جائے گا لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حکمتِ عملی مختلف نظر آتی ہے۔ اس وقت اْن کی تمام تر کوششوں کا مرکز عراق اور شام کی موجودہ حکومتوں کو محض اس لیے کمزور کرنا اور اقتدار سے ہٹانا ہے کہ اْن کے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ دوسرے الفاظ میں امریکی اور سعودی عرب کی حکمتِ عملی میں اولین ترجیح مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثرونفوذ کو پھیلنے سے روکنا ہے۔یہی پالیسی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔اس کو اب تبدیل ہونا چاہیے کیونکہ ایٹمی پروگرام پر لچک کا مظاہرہ کر کے ایران نے مثبت اندازِفکر کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ ہر دور میں جنگ و جدل اور خون ریزی کا کیوں شکار ہوتا رہاہے؟۔اس سوال کا جواب دیتے وقت بعض لوگ اس خطے کی تیل کی دولت کا حوالہ دیتے ہیں‘ لیکن تیل تو مشرق وسطیٰ (سب سے پہلے ایران) میں گذشتہ صدی کے اوائل میں دریافت ہوا تھا اور اس کی دریافت اور مارکیٹنگ میں امریکی شرکت کا آغاز1927ء کے بعد ہوا تھا۔یہ خطہ تو اس سے پہلے بھی صدیوں تک قوموں اور تہذیبوں کے درمیان معرکہ آرائی کا مرکز رہا ہے۔ تاریخ دان اس کی سب سے اہم وجہ اس خطے کے جغرافیائی محلِ وقوع کو بتاتے ہیں۔یہ خطہ تین براعظموں یعنی ایشیا‘ افریقہ اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔قدیم زمانے میں مشرق کو مغرب سے ملانے والے تجارتی راستے اس خطے سے گزرتے تھے۔اس لیے جن قوموں کو دولت یا حکمرانی کی ہوس ہوتی تھی،وہ سب سے پہلے اس خطے کو اپنی سلطنت کا حصہ بناتی تھیں۔ قدیم ایرانی ہوں یا یونانی، مصری ہوں یا رومی اور جدید دور میں سلطنت عثمانیہ،برطانیہ اور امریکہ تمام طاقتوں نے اس خطے پر قبضہ جمانے کیلئے ہزاروں انسانوں کا خون بہایا ۔تاریخ عالم میں کوئی ایمپائر ایسی نہیں گزری جس کا مشرقِ وسطی خصوصاً بحرِ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ترکی سے شام،لبنان،اسرائیل اور مصر سے گزرتا ہوا علاقہ حصہ نہ رہا ہو۔ ان ادوار میں اس خطے کے عوام ظلم کے ساتھ ساتھ سخت بے انصافی کا شکار ہوتے رہے۔جدید دور میں سب سے پہلی بے انصافی کا آغاز 1917ء کے اعلان بالفور سے ہوا‘ جس کے تحت برطانیہ نے پہلی
جنگ عظیم میں فتح حاصل کرکے فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنے کا یہودیوں سے وعدہ کیا۔اس پالیسی کے تحت1948ء میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جو مروجہ بین الاقوامی قانون اور انصاف کے تقاضوں کی کھلی خلاف ورزی تھی۔تیل کی دریافت نے اس خطے کی جیو پالیٹکس میں یقینا ایک نئے اور اہم پہلو کا اضافہ کیا‘ خصوصاً دوسری جنگ عظیم کے ہاتھوں تباہ حال یورپ اور جاپان کو اپنی معیشت کی بحالی اور ترقی کیلئے جس وسیع مقدار میں اور سستے تیل کی ضرورت تھی،وہ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس سے ہی دستیاب ہوسکتا تھا۔اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ یورپ میں مارشل پلان کی کامیابی اور جاپان کو اکنامک سپر پاور بنانے کا سہرا مشرقِ وسطیٰ کے تیل کے سر ہے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے لے کر آج تک مشرقِ وسطیٰ مسلسل خلفشار،عدم استحکام اور جنگ و جدل کا شکار ہے اور اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے‘ جس نے اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے یہاں پر نفاق کا بیج بویا اور جب ضرورت پڑی براہ راست فوجی مداخلت سے بھی کام لیا۔اس کی سب سے نمایاں مثال سابق امریکی صدر جارج بْش کے زمانے میں عراق پر حملہ تھا۔اس حملے میں عراق کی قدیم اور اسلامی دور کی تہذیب کی یادگاروں کو جو نقصان پہنچا وہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اس وقت شمالی افریقہ سے جزیرہ نما عرب اور خلیج فارس میں جنگ اور تباہی کا منظر اْسی بے انصافی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد مغربی استعماری طاقتوں نے مشرقِ وسطیٰ کے حصے بخرے کر کے شروع کی تھی۔