فلسطین کے محاذ سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اسرائیل نے ٹینکوں‘ بھاری توپ خانے اور جیٹ طیاروں کی مدد سے ایک اور زمینی حملہ کردیا ہے۔ اس حملے میں اسرائیل کے فوجی دستوں کو فضائیہ اور بحری فوج کی بھی مدد حاصل ہے۔ اس سے قبل دس دن تک وحشیانہ بمباری سے 264 کے لگ بھگ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اکثریت شہریوں کی ہے‘ جن میں 50 بچے بھی شامل ہیں۔ اس کے مقابلے میں حماس کی جوابی کارروائی سے صرف ایک اسرائیلی ہلاک ہوا ہے۔
نہتے اور معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا یہ اسرائیلی اقدام واحد یا نیا نہیں ہے۔ 1948ء میں اپنے قیام سے اب تک اسرائیل فلسطینیوں کو ہی نہیں بلکہ ہمسایہ عرب ممالک یعنی مصر‘ اردن‘ شام اور لبنان کو بھی متعدد بار جارحیت کا نشانہ بنا چکا ہے‘ بلکہ اس سے بھی بہت پہلے 1917ء میں جب برطانیہ نے رسوائے زمانہ بالفور ڈیکلریشن کے تحت دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی کھلی اجازت دی تھی‘ تو اس وقت ہی عربوں اور فلسطینیوں پر مسلح یہودی دستوں کے حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اسرائیل کے قیام سے اب تک چار بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مسلح کارروائیوں کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے۔
موجودہ تصادم کا آغاز ایک ایسے واقعہ سے ہوا جس میں تین اسرائیلی نوجوانوں کو نہ معلوم افراد نے قتل کردیا تھا۔ اسرائیل
نے اس کی ذمہ داری حماس پر ڈال دی‘ حالانکہ اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے ابھی تک اُسے شواہد دستیاب نہیں ہو سکے‘ لیکن انتقامی اقدام کے طور پر یہودی انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے ایک فلسطینی نوجوان کو اغوا کر کے اس کو سخت تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا۔ اس سے مشتعل ہو کر حماس نے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کردی۔ جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف حصوں کو بے دریغ بمباری کا نشانہ بنایا اور اب فلسطینیوں کو مزید جانی اور مالی نقصان پہنچانے کے لیے زمینی حملے کا آغاز کردیا ہے۔
اسرائیل کی ان آئے دن کی جارحانہ کارروائیوں کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی‘ مسلم دنیا کی بے حسی اور فلسطینیوں کی بے بسی دیکھ کر ذہن میں جو سوال سب سے پہلے ابھرتا ہے‘ یہ ہے کہ اسرائیل کس قوت کے بل بوتے پر ان جرائم کا ارتکاب کرتا ہے؟ اور پھر سزا سے بھی بچ جاتا ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ اس لیے کہ اسے دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اسرائیل کے قیام میں امریکی مداخلت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا‘ اسی طرح اس کے لیے امریکہ کی غیر محدود مالی اور جنگی امداد نہ صرف اسرائیل کے بقا کی ضامن ہے بلکہ اس کی فوجی قوت کی بنیاد بھی ہے۔ مصر کے سابق صدر انور سادات نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ اسرائیل کا مقابلہ تو کر سکتے ہیں لیکن امریکہ کا نہیں۔ اسی لیے انہوں نے چوتھی عرب اسرائیل جنگ (1973-1974ء) میں ابتدائی مرحلے پر کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود بالآخر اسرائیل کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کر دیے تھے۔
اس وقت اگر اسرائیلی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ ا مریکہ کی اقتصادی امداد کے علاوہ وہ تجارتی مراعات ہیں جو امریکہ نے اسرائیلی مصنوعات کی درآمد پر عطا کر رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ تقریباً چار دہائیوں میں امریکہ نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مشرقِ وسطیٰ میں ان تمام طاقتوں کو یا تو ختم کردیا ہے یا انہیں اندر سے کمزور کر کے بے اثر کردیا ہے‘ جو اسرائیل کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی تھیں۔ مثلاً مصر‘ جو عرب دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اور عسکری طاقت کے لحاظ سے سب سے طاقتور ملک تھا‘ کو اپنی امداد کا محتاج بنا کر بے اثر کردیا ہے۔ شام‘ جس نے ہر جنگ میں اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا‘ کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک کر اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنا دیا گیا۔ اسرائیل کو چیلنج کرنے والا تیسرا ملک عراق تھا لیکن 1991ء اور پھر 2003ء میں عراق پر براہ راست حملہ کر کے اسے مکمل طور پر بے اثر بنا دیا گیا۔ اس خطے میں اب ایران ہی ایک ایسی طاقت رہ گیا ہے جو اسرائیل کی جارحیت کو چیلنج کر سکتا ہے۔ اسی لیے اس کے پُرامن ایٹمی پروگرام کو بہانہ بنا کر اس کی معیشت کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بدلتے ہوئے حالات کے تحت امریکہ نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر عربوں اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ کرانے کی کوشش کی‘ لیکن یہ کوشش اتنی نحیف اور نیم دلانہ ہوتی ہے کہ اسرائیل کو اسے حقارت سے ٹھکرانے میں کبھی کوئی دِقت پیش نہیں آئی۔ اس قسم کی ایک کوشش ٹھیک ایک سال قبل سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے کی تھی۔ لیکن اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت کے سربراہ نیتن یاہو نے اسے ناکام بنا دیا تھا۔ امریکہ میں یہودی لابی اتنی مضبوط ہے اور امریکی کانگرس میں ڈیموکریٹک اور ری پبلکن‘ دونوں پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کی اتنی بھاری تعداد کی اسے حمایت حاصل ہے کہ صدر اوباما چاہتے ہوئے بھی اس ضمن میں کچھ نہ کر سکے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر عربوں اور اسرائیل کے درمیان کسی سمجھوتے کا اس لیے امکان نہیں کہ اسرائیل اس قسم کی ریاست کے قیام کا سخت مخالف ہے۔
صرف یہی نہیں‘ فلسطینیوں کی راہ میں اور بھی بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کی بستیوں کا قیام‘ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو محدود کرنے کے لیے دیواروں اور دیگر رکاوٹوں کا قیام اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فلسطینی حکومت‘ جس کے سربراہ محمود عباس ہیں‘ مالی امداد کے لیے کلیتاً امریکہ اور یورپی ممالک کی محتاج ہے۔ غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کے چالیس ہزار سے زائد ایسے ملازمین ہیں جنہیں مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی۔ اس کے ساتھ اسرائیل کی طرف سے غزہ کا آئے دن اقتصادی محاصرہ ہے‘ جس کی وجہ سے غزہ میں رہنے والے اٹھارہ لاکھ فلسطینی مستقل طور پر غذائی اشیا‘ ایندھن اور ادویات کی قلت کا شکار رہتے ہیں۔
فلسطین میں جنگ و جدل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل امن نہیں چاہتا بلکہ جنگ کے ذریعے وہ اپنے مخالفین کی قوت کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اُسے خطے میں اپنے توسیعی عزائم کو تکمیل تک پہنچانے کا موقع ملتا رہے۔ اسی لیے اس نے ابھی تک اپنی سرحدوں کا حتمی طور پر تعین نہیں کیا اور اسی وجہ سے اس نے ماضی میں ہر اُس کوشش کو ناکام بنایا جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے مسئلے کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل کیا جا سکتا تھا۔