مئی 2014ء کے بھارتی پارلیمانی انتخابات اپنے نتائج کے اعتبار سے ایک زلزلے سے کم نہ تھے۔اس کے سامنے بلند و بالا شخصیتیں اور مضبوط سیاسی پارٹیاں تتر بتر ہو گئیں۔وہ رہنما جن کی الیکشن میں کامیابی کی لوگ قسم کھاتے تھے ،اپنی ضمانتیں نہ بچا سکے۔سوا صدی سے زائد پرانی کانگرس ،جس نے آزاد بھارت پر کئی دہائیوں تک بلا شرکت غیرے حکومت کی ‘لوک سبھا کی 543میں سے صرف 44نشستیں حاصل کر سکی۔دو ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس سیاسی زلزلے کے آفٹر شاکس اب بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔سیاسی اتحاد شکست و ریخت کا شکارہو رہے ہیں اور سیاسی پارٹیاں اندر سے کھوکھلی ہو رہی ہیں کیوں کہ ان کے سرکردہ اراکین سیاسی ابن الوقتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسری پارٹیوں میں شامل ہو رہے ہیں۔بھارت کی ان ریاستوں (صوبوں) میں جہاں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں‘یہ عمل قدرے نمایاں نظر آ رہا ہے ۔ان میں بھارت کی (مقبوضہ) جموں کشمیر کی ریاست بھی شامل ہے۔
چند دن پیشتر ریاست میں آل انڈیا کانگرس کے رہنما غلام نبی آزاد‘ سیف الدین سوز اور اجیکا سونی نے سری نگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کی جماعت نے نیشنل کانفرنس کے ساتھ چھ سالہ انتخابی معاہدہ ختم کر دیا ہے اور اب وہ نومبر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اکیلے حصہ لے گی۔اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے سربراہ اور ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان 2008ء سے قائم اتحاد کو ختم کرنے کا فیصلہ کانگرس کا نہیں‘بلکہ نیشنل کانفرنس کا تھا۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے کانگرس کی صدر سونیا گاندھی کو بہت پہلے آگاہ کر دیا تھا۔حقیقت کچھ بھی ہو‘مبصرین کے نزدیک لوک سبھا کے حالیہ انتخابات کے بعد یہ فیصلہ ناگزیر ہوتا جا رہا تھا۔کیونکہ ان انتخابات میں کانگرس اور نیشنل کانفرنس پر مشتمل اتحاد‘ریاست کی چھ کی چھ لوک سبھا نشستوں پر ہار گیا تھا۔ہندو اکثریت کے خطے جموں اور لداخ کی تین نشستوں پر بی جے پی ‘جبکہ وادی کی تین نشستوں پر محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی(پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی) نے کامیابی حاصل کی۔انتخابی نتائج کے فوراً بعد کانگرس اور نیشنل کانفرنس نے ایک دوسرے کو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا تھا۔عمر عبداللہ کا بیان تھا کہ مرکز میں کانگرس کی حکومت نے افضل گرو کو پھانسی دے کر کشمیری عوام کی اکثریت کو ریاستی حکومت سے بدظن کر دیا تھا۔اس کے جواب میں کانگرس کا موقف یہ تھا کہ مجاہدین کی کارروائیوں کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے کشمیری پنڈتوں کی بحالی میں ریاستی حکومت کی ناکامی ‘جموں کے علاقے میں کانگرس کی شکست اور بی جے پی کی جیت کا باعث بنی۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی مخلوط حکومت ،جس کی تشکیل کی وجہ محض یہ تھی کہ نومبر2008ء میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی تھی ،ایک نااہل‘بدعنوان اور اقربا نواز حکومت ثابت ہوئی۔ریاست میں مجاہدین کی سرگرمیاں ماند پڑ جانے اور حالات قدرے نارمل صورت اختیار کرنے کے باوجود‘عمر عبداللہ کی حکومت ریاست میں موجود بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے کشمیریوں کے خلاف جبر اور تشدد کی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہی۔سب سے نمایاں ناکامی آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے مسئلے پر تھی، جس کی واپسی یا ترمیم میں ریاستی حکومت اپنا وعدہ پورا نہ کر سکی۔اس کے علاوہ عام تاثر یہ بھی تھا کہ کانگرس اور نیشنل کانفرنس کا اتحاد کبھی بھی مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں رہا۔یہ اتحاد دراصل دو خاندانوں یعنی نہرو اور عبداللہ خاندان کے درمیان دیرینہ دوستی کی بنیاد پر قائم رہا ہے اور عوام میں اسے کبھی پذیرائی حاصل نہیں رہی۔خاص طور پر کشمیری عوام کی اکثریت کانگرس کے ساتھ کسی بھی سیاسی پارٹی کے اتحاد کی حامی نہیں رہی۔کیونکہ اس کانگرس کے رہنما اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کے زمانے میں بھارتی فوج کشی کے نتیجے میں کشمیریوں کو اپنی آزادی سے ہاتھ دھونا پڑے۔اس کے بعد 1953ء میں نہرو عبداللہ معاہدے کے تحت کشمیر کو آرٹیکل 370کی صورت میں جو داخلی خود مختاری حاصل تھی ‘ اندرا گاندھی کے دور میں اسے بہت حد تک محدود کر دیا تھا۔کانگرس کی مختلف حکومتوں نے کشمیریوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا‘کشمیر ی عوام اسے ابھی تک نہیں بھولے۔کانگرس اور نیشنل کانفرنس کے اتحاد کے خاتمے کا اعلان اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ نومبر میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔اس اعلان کے بعد ریاست میں سیاسی پارٹیوں نے نہ صرف اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں ‘ بلکہ ریاست کے آئندہ سیاسی نقشے کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں۔پی ڈی پی کی رہنما محبوبہ مفتی نے دعویٰ کیا ہے کہ ریاست میں آئندہ حکومت ان کی پارٹی کی ہو گی۔ان کے
دعوے کی بنیاد نہ صرف یہ ہے کہ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں ان کی پارٹی نے وادی کشمیر کی تینوں نشستوں پر قبضہ کر لیا تھا‘بلکہ موجودہ اسمبلی میں 21نشستوں کے ساتھ‘ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔اس کے علاوہ 2008ء کے اسمبلی انتخابات کا اگر حلقہ وار جائزہ لیا جائے‘ تو پی ڈی پی نے دیگر 30سے زائد حلقوں میں ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔2002ء کے اسمبلی انتخابات کے نتیجے میں پی ڈی پی نے کانگرس کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی تھی لیکن امرناتھ یاترا کے لیے زمین الاٹ کرنے کے مسئلے پر پارٹی نے کانگرس کا ساتھ چھوڑ دیا۔2008ء کے انتخابات میں کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی۔اس لیے نیشنل کانفرنس جس نے اسمبلی کی کل 87نشستوں میں سے 28نشستیں حاصل کی تھی، نے آل انڈیا نیشنل کانگرس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔اسمبلی میں کانگرس کی 17نشستیں ہیں۔
آئندہ اسمبلی انتخابات میں پارٹیوں کی کارکردگی کیا ہو گی؟ اگر 2014ء کے لوک سبھا انتخابی نتائج کو سامنے رکھا جائے تو محبوبہ مفتی کے دعوے کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا کیونکہ ان کی پارٹی کو وادی میں لوک سبھا کی تمام نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اور کانگرس اور نیشنل کانفرنس نے اپنی تمام نشستیں گنوا دی تھیں۔ دوسری طرف اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بی جے پی جس کی موجودہ اسمبلی میں گیارہ نشستیں ہیں‘ مودی ویو کا سہارا لے کر جموں اور لداخ کے علاوہ وادی میں بھی نشستوں پر قابض ہونے کی کوشش کرے۔لیکن اس پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ضروری نہیں کہ لوک سبھا کے انتخابات کی طرح‘ریاستی انتخابات میں بھی مودی ویو کا م کر دکھائے اور خصوصاً کشمیر میں جہاں بی جے پی نے آرٹیکل 370منسوخ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے آپ کو ہندو پنڈتوں کا حامی بنا کر پیش کیا ہے‘ بی جے پی کے انتخابات میں اکثریتی پارٹی ابھرنے اور اکیلے حکومت بنانے کے امکانات بہت کم ہیں۔
البتہ پی ڈی پی کے لیے چانس بہتر ہیں۔ کیوں کہ نیشنل کانفرنس اور کانگرس سے عوام بری طرح بددل ہو چکے ہیں۔لیکن ماضی کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھا جائے تو اس دفعہ بھی ایک ہنگ پارلیمنٹ کے امکانات زیادہ ہیں۔اس صورت میں پی ڈی پی کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ وہ کس پارٹی کو اپنا کولیشن پارٹنر بنائے۔جہاں تک کانگرس اور نیشنل کانفرنس کا تعلق ہے ،انتخابات کے بعد ان کی پوزیشن موجودہ اسمبلی میں ان کی پوزیشن کے مقابلے میں بہت کمزور ہو گی اور ڈر ہے کہ نشستوں کے حساب سے وہ ایک مخلوط حکومت کا حصہ بننے کے بھی قابل نہ رہیں۔اس صورتحال میں صرف پی ڈی پی اور بی جے پی ہی میدان میں بڑی پارٹیاں رہ جاتی ہیں۔
اگرچہ کانگرس اور نیشنل کانفرنس کے اتحاد کے خاتمے کو ناگزیر سمجھا جا رہا تھا‘مبصرین کے مطابق ریاست کی سیاست اس معاہدے کے ٹوٹنے کے بعد ایک پیچیدہ اور غیر یقینی دور میں داخل ہو گئی ہے کیونکہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ کوئی ایک سیاسی پارٹی 44کا ہندسہ کراس کر کے ریاست میں ایک مستحکم حکومت کی بنیاد رکھ سکے۔کیا ریاست جموں کشمیر ایک دفعہ پھر ایک لمبے عرصے کے لیے گورنر راج کے تحت رہے گی؟اس بات کا انحصار جہاں نریندر مودی کی یونین گورنمنٹ کے رویے پر ہے ،وہاں ریاست کی پارٹیوں پر بھی منحصر ہے کہ کیا وہ آپس میں اختلافات ختم کر کے ایک مشترکہ ایجنڈے پر انتخابات میں حصہ لے کر ریاست میں سیاسی استحکام کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوں گی یا نہیں؟