ملائیشیا کے پہلے وزیر اعظم تنکو عبدالرحمن سے کسی نے پوچھا تھا کہ انہوں نے امریکہ کی سرکردگی میں تشکیل پانے والے دفاعی معاہدے برائے جنوب مشرقی ایشیا (سیٹو) میں شمولیت اختیار کیوں نہیں کی؟تو ان کا جواب بڑا مختصر تھا :''جمہوریت کی خاطر‘‘۔یہاں یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ تنکو عبدالرحمن ایک مغرب نواز اور اینٹی کمیونسٹ سیاسی لیڈر تھے۔انہوں نے اپنے ملک میں برطانیہ کی مدد سے ایک طویل کمیونسٹ بغاوت پر قابو پانے کے بعد حکومت سنبھالی تھی۔1950ء کے عشرے میں جب چین میں کمیونسٹ انقلاب کی کامیابی (1949ء) اور کوریا میں جنگ (1950ء) چھڑنے سے سردجنگ کا فوکس یورپ سے ایشیا میں منتقل ہوا تو امریکہ کو نیٹو کی طرز پر جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید میں بھی دفاعی معاہدہ استوار کرنے کا خیال آیا۔اس مقصد کے لیے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان فاسٹر ڈلس نے جنوب‘ جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید کا دورہ کیا تاکہ یہاں کے ملکوں کو ایک وسیع تر اینٹی کمیونسٹ (دراصل اینٹی چائنا) دفاعی معاہدے میں شامل کیا جا سکے۔بھارت اپنے حجم اور ملایا(ابھی ملائیشیا وجود میں نہیں آیا تھا) اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے سیکرٹری ڈلس کی خصوصی توجہ کے مرکز تھے۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے برطانیہ کی وساطت سے بھارت کو یقین دلایا تھا کہ اگر وہ اس معاہدے کا رکن بن جائے تو اسے سلامتی کونسل کی رکنیت کے لیے زیر غور لایا جا سکتا ہے‘ لیکن بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو‘ جو اس وقت ایک غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اپنا کر عالمی کردار ادا کرنا چاہتے تھے‘ نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور مجوزہ دفاعی معاہدے کا رکن بننے سے انکار کر دیا۔اسی طرح ملایا‘جو اگرچہ ایک دو طرفہ دفاعی معاہدے کے ذریعے برطانیہ سے منسلک تھا ‘ نے بھی اس معاہدے میں شمولیت اختیار کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ تنکو عبدالرحمن کے خیال میں امریکہ جس ملک میں جاتا تھا‘وہاں جمہوریت کا پودا مرجھا کر سوکھ جاتا اور آخر کار زمین بوس ہو جاتا تھا۔بعد کے حالات نے تنکو عبدالرحمن کا یہ نظریہ درست ثابت کر دیا۔جنوب مشرقی ایشیا کے دفاعی معاہے یعنی سیٹو (SEATO) کے امریکہ سمیت آٹھ اراکین تھے‘ جن میں سے صرف تین ممالک یعنی پاکستان(وہ بھی مشرقی پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے) ‘تھائی لینڈ اور فلپائن ایسے ممالک تھے‘ جن کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا سے تھا۔باقی پانچ یعنی امریکہ‘برطانیہ‘ فرانس‘ آسٹریلیا او ر نیوزی لینڈ جغرافیائی طور پر جنوب مشرقی ایشیا سے باہر تھے۔یہ معاہدہ اگرچہ تقریباً 20برس تک قائم رہا‘ لیکن اپنے مطلوبہ سیاسی اور دفاعی مقاصد حاصل نہ کر سکا؛ تاہم پاکستان‘تھائی لینڈ اور فلپائن میں جس طرح جمہوریت کی جگہ فوجی آمریت نے لی‘ اس سے تنکو عبدالرحمن کی بات سچ ثابت ہوئی۔
یہ لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایک خبرمیں بتایا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کے ساتھ حال ہی میں امریکہ کا دورہ کیا ہے‘ جس میں انہوں نے امریکی نائب صدر جوبائیڈن سے ملاقات کی۔ان کے دورے کا مقصد پاکستان میں این آر او کے تحت قائم ہونے والے سیاسی نظام کے تحفظ کے لیے دی گئی امریکی یقین دہانیاں امریکی انتظامیہ کو یاد دلانا تھا‘کیونکہ مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق موجودہ حکومت کی بساط الٹنے کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے۔اس کے تحت ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی جائے گی جو پہلے احتساب اور پھر انقلاب کے پروگرام کے تحت پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) دونوں کو بے اثر بنا کر‘ایک نئی سیاسی قیادت کے لیے راہ ہموار کرے گی۔اس کا حتمی مقصد ''صاف ‘شفاف‘‘
انتخابات کے ذریعے منتخب جمہوری حکومت کا قیام ہے‘ لیکن عبوری دور میں جس کا عرصہ دو سے تین سال ہو سکتا ہے فوج کو بالادستی حاصل ہو گی‘ کیونکہ اس نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کر کے بھاری ذمہ داری اٹھا لی ہے۔راوی کے مطابق اس فارمولے کو امریکہ کی بھی حمایت حاصل ہے‘ کیونکہ اسے اس سال کے اختتام تک افغانستان سے اپنے بیش قیمت جنگی سازو سامان کے ساتھ پاکستان کے راستے بحفاظت واپسی کی ضمانت صرف فوج ہی مہیا کر سکتی ہے۔تبصرہ نگاروں کے مطابق اس صورت حال پر حکمران پاکستان مسلم لیگ سے اپوزیشن جماعت‘ پاکستان پیپلز پارٹی کو زیادہ فکر لاحق ہے۔زرداری صاحب اسی وجہ سے امریکہ تشریف لے گئے ہیں‘ تاکہ پاکستان میں جمہوریت کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ کو آنے والی آندھی سے بچایا جا سکے‘ لیکن زرداری صاحب اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ امریکہ جمہوریت کا محض برائے نام چیمپئن ہے۔جمہوریت کی روح عوام کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے اختتام سے اب تک‘امریکہ نے پاکستان جیسے دیگر ممالک خواہ وہ ایران ہو‘فلسطین ہو یا مصر ہو‘ عوام کے جمہوری فیصلے کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس نے عوام کے جمہوری فیصلوں کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کی مثالیں سپین‘پرتگال ‘ یونان‘ ترکی‘ فلپائن‘ جنوبی کوریا‘ گوئٹے مالا‘ چلی ‘ تھائی لینڈ اور فلپائن میں غیر جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کو امریکہ کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔
پاکستان میں جمہوریت کے عمل کو آگے بڑھنے سے روکنے میں بہت سے عوامل کا ہاتھ ہو سکتا ہے‘ لیکن سرد جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر اور سیٹو‘ سینٹو جیسے دفاعی معاہدوں میں شامل ہو کر‘ پاکستان نے اپنے ہاں جمہوریت کا راستہ روکنے کے لیے امریکہ کو خود دعوت دی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اتحادی کی حیثیت سے پاکستان نے جو بھی اقتصادی اور فوجی امداد امریکہ سے حاصل کی‘ اس کا فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو پہنچا۔عوام اس سے استفادہ کرنے میں ناکام رہے۔امریکہ کے مشہور پروفیسر گڈنو (Goodnow) کے مطابق پاکستان کی سیاست میں غیرسیاسی قوتوں کی بالادستی کی ایک بڑی وجہ سرد جنگ کے دوران پاکستان اور امریکہ کا فوجی اور سیاسی اتحاد تھا کیونکہ اس کے تحت پاکستان کو ملنے والی امداد سے غیر سیاسی ادارے سب سے زیادہ مستفید ہوئے اور ان کے مقابلے میں سیاسی قوتیں کمزور پڑ گئیں۔
پاکستان کی سیاست میں غیرسیاسی قوتوں کے عروج کا عمل 1950ء کی دہائی سے شروع ہوتا ہے اور یہی وہ زمانہ تھا جب پاکستان نے پہلے دو طرفہ بنیادوں پر امریکہ سے سکیورٹی پیکٹ پر دستخط کیے اور پھر سیٹو(1954ء)اور معاہد ہ بغداد (بعد میں سینٹو)میں 1955ء میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ اگر پاکستان ان دفاعی معاہدوں میں شمولیت اختیار نہ کرتا اور قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل پیرا رہتا تو یہاں کسی مارشل لاء کی نوبت نہ آتی اور جمہوریت کا نازک پودا‘سہارا ڈھونڈنے کی بجائے ‘ ایک تنو مند درخت کی صورت میں موجود ہوتا۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ابھی تک تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور وہ اب بھی جمہوریت کی بقا یا اس کے تحفظ کے لیے امریکہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ اب امریکہ کو بھی یہ احساس ہے اور اس حقیقت کا اس کے اعلیٰ حکام نے کھلے عام اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو عوام سے عوام کے رابطوں پر استوار نہیں کیا اور اس کی وجہ سے عوامی سطح پر امریکہ کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ اب امریکہ نے پاکستان کے ساتھ''سٹرٹیجک ڈائیلاگ‘‘کے تحت پاکستان کو مختلف شعبوں میں ایسے منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے امداد فراہم کرنے کا طریقہ اپنایا ہے‘ جس سے براہ راست عوام کو فائدہ پہنچے۔یہ بھی درست ہے کہ ''سٹرٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کے تحت جن شعبوں میں پاک‘ امریکہ تعاون اور مشترکہ منصوبوں کی گنجائش رکھی گئی ہے ‘ ان میں جمہوریت کا فروغ بھی شامل ہے۔یہ بھی صحیح ہے کہ گزشتہ چھ برسوں کے دوران میں مختلف مواقع پر امریکی حکام نے‘ جن میں صدر بارک اوباما بھی شامل ہیں‘ پاکستان میں جمہوری نظام کی حمایت میں بیانات دیے‘ لیکن ہمیں ایک بنیادی حقیقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ عالمی طاقت ہونے کی وجہ سے کسی بھی ملک کے بارے میں امریکہ کی پالیسی اس کے عالمی مفادات کے تابع ہے۔پاکستان میں امریکہ جمہوریت کی صرف اس صورت حمایت کرے گا جب ایسا کرنا اس کے مفاد میں ہو گا۔اگر پاکستان یا خطے میں غیر جمہوری قوتیں‘ امریکی مفادات کی حفاظت کی بہتر ضمانت دے سکتی ہیں ‘ تو امریکہ جمہوریت کی خاطر انہیں ناراض نہیں کرے گا۔اس لیے پاکستان کے سیاستدانوں کو چاہیے کہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے ملک سے باہر ضمانتیں حاصل کرنے کی بجائے ‘ ملک کے اندر یعنی عوام کی حمایت حاصل کی جائے‘ کیوں کہ کسی ملک کے عوام ہی اس میں جمہوریت کے لیے بہترین ضمانت فراہم کر سکتے ہیں۔