"DRA" (space) message & send to 7575

اسلام آبادمیں فوج کی تعیناتی

وفاقی حکومت کی طرف سے آئین کی دفعہ 245کے تحت اسلام آباد کی سکیورٹی کو فوج کے حوالے کرنے کے اقدام کو ملک کی تقریباً تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے مسترد کرتے ہوئے جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔اس مسئلے پر اپنی آواز کو مزید بلند اور موثر بنانے کے لیے حزب اختلاف نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں زیر بحث لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ آرٹیکل 245کے تحت اسلام آباد میں فوج بلانے کا فیصلہ آج سے ڈیڑھ ماہ قبل شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز کے موقع پر ہی کر لیا گیا تھا اور اس کا مقصد دارالحکومت میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو موثر طور پر روکنا تھا کیوں کہ خدشہ تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے خلاف ردعمل کے طور پر طالبان ملک میں اور خصوصاً اسلام آباد میں حساس مقامات کو دہشت گردی کی کارروائیوں کا نشانہ بنائیں گے۔ فیصلے پر عملدرآمد کی تاخیر کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت اس سمت عملی قدم اٹھانے سے پہلے تمام آئینی پہلوئوں اور مضمرات کا جائزہ لینا چاہتی تھی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوجی جوانوں کی ایک محدود تعداد کو محدود وقت یعنی 90دن کے لیے بلایا گیا ہے؛ تاہم ان کے بیان کے مطابق حالات کی روشنی میں اس مدت میں توسیع ہو سکتی ہے۔وزیر داخلہ کے اس بیان نے اس مسئلے پر کنفیوژن اور خدشات دور کرنے کی بجائے اسے مزید پیچیدہ اور مشکوک بنا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر شمالی 
وزیرستان میں فوجی آپریشن کے جواب میں طالبان کی طرف سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا خطرہ تھا‘ تو اس خطرے میں صرف اسلام آباد ہی نہیں بلکہ پورا ملک گھرا ہوا ہے۔ پھر آخر اسلام آباد میں ہی صرف خطرے کی بنیاد پر سکیورٹی کو سخت کرنے کا اقدام کیوں کیا گیا ہے؟دوسرا سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر اگر اسلام آباد میں فوج کو بلانا جائز تو کراچی اور کوئٹہ جو بدترین دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں اور اب بھی اس خطرے سے محفوظ نہیں‘ وہاں فوج کو کیوں نہیں بلایا گیا۔ اسی طرح کراچی میں گزشتہ سال ستمبر میں پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کے آغاز سے قبل بعض سیاسی اور کاروباری حلقوں کی جانب سے شہر کو فوج کے حوالے کرنے مطالبہ کیا گیا تھا۔کراچی کے تاجراب بھی شہر میں فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔لیکن نہ تو کوئٹہ کو فوج کے حوالے کیا گیا اور نہ ہی کراچی میں امن و امان کے قیام اور سکیورٹی کے لیے فوج کو بلایا گیا۔ کیا چودھری نثار علی خان بتا سکتے ہیں کہ اسلام آباد میں شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے فوج کی تعیناتی کے اقدام سے بھی یہ مطلب اخذ نہیں کیا جائے گا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت سول اداروں کی مدد سے دارالحکومت میں تحفظ کو یقینی بنانے کے قابل نہیں؟حکومت کے اس اقدام سے سول اداروں کی اہلیت اور ان کی کارکردگی پر موجودہ حکومت کے عدم اعتماد کا اظہار ہوتا 
ہے۔حالانکہ ماضی میں سول اداروں کی مدد سے حکومت بڑے سے بڑے سنگین حالات میں بھی امن و امان اور دہشت گردی سے متعلق مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔یہاں کراچی میں امن و امان کے قیام اور لاقانونیت پر قابو پانے سے متعلقہ کیس پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ریمارکس کا حوالہ دینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔کراچی میں فوج کی تعیناتی سے اختلاف کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے کہا تھا کہ اگر سیاسی مداخلت اور کسی دبائو کے بغیر پولیس کو اپنے فرائض ادا کرنے کا موقع دیا جائے‘ تو پولیس اور دیگر سول اداروں کی مدد سے شہر میں دہشت گردی اور جرائم کی وارداتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
وزارت داخلہ نے اسلام آباد میں فوج بلا کر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی پر ابھرتے ہوئے اس قومی اتفاق رائے سے انحراف کیا ہے کہ دہشت گردی کی بیخ کنی ‘امن و امان کے قیام اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر سول اداروں پر عائد ہوتی ہے۔اور اس مقصد کے لیے ان اداروں کی نہ صرف صلاحیت بڑھانا ضروری ہے ‘بلکہ حکومت کو ان اداروں پر اپنے بھر پور اعتماد کا بھی اظہار کرنا چاہیے۔لیکن اسلام آباد میں فوج بلا کر حکومت نے نہ صرف سول اداروں پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے‘بلکہ اس بنیاد پر دوسرے شہروں اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی فوج کی تعیناتی کی راہ کھول دی ہے۔ موجودہ حالات میں جب کہ ملک میں ابھی جمہوریت جڑیں پکڑ رہی ہے حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرے۔اسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان میں سرفہرست سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن ہے۔اس توازن کو سیاسی سول قوتوں کے حق میں کیے بغیر پاکستان میں جمہوریت پنپ نہیں سکتی۔مئی 2013ء کے انتخابات میں عوام کی بھاری اکثریت نے تمام خطرات اور دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر جمہوریت اور عوام کی بالادستی کی حامی سیاسی پارٹیوں کے حق میں ووٹ دیا۔اب ان پارٹیوں اور خاص طور پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اچھی اور مستعد کارگزاری کے ذریعے عوام کی توقعات پر پورا اترے۔ان توقعات میں سیاسی اور سول اداروں کی مضبوطی بھی شامل ہے لیکن گزشتہ ایک برس میں حکومت کی کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے ان اداروں کی مضبوطی سے کوئی دلچسپی نہیں۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں وفاقی کابینہ اور خود وزیر اعظم کی کبھی کبھار شرکت اسی سوچ کا نتیجہ ہے ۔قومی سطح پر یہ تاثر تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ایک واضح اور بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے باوجود موجودہ حکومت خود اعتمادی سے عاری ہے اور اس کی پالیسی میں‘ خواہ اس کا تعلق اندرونی مسائل سے ہو یا بیرونی امور سے‘ تسلسل اور یکسوئی نظر نہیں آتی۔ خود حکومتی اراکین کے‘ جن میں وزیراعظم نوازشریف شامل ہیں‘ بیانات کے مطابق پاکستان کو اس وقت درپیش سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور امن و امان کا قیام ہے۔ معیشت کی بحالی کا جسے دہشت گردی کے بعد سب سے زیادہ سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے‘ انحصار بھی دہشت گردی کے خاتمہ اور امن و امان کے قیام سے مشروط ہے مگر اس سمت جو قدم اٹھانا ضروری ہیں‘ وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی کے اعلان کے بعد اس کے مختلف پہلوئوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جس قسم کے میکانزم کی ضرورت ہے‘ اس کے قیام کی طرف کوئی اہم پیشرفت نہیں ہوئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ خود حکمران پارٹی میں اہم قومی امور پر اتفاق رائے کا فقدان ہے۔ کچھ رہنما انتہا پسند بلکہ فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث عناصر کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف بھارت کے ساتھ قریبی تجارتی اور معاشی تعاون اور تعلقات کے حق میں ہیں لیکن فوج کی مرضی کے خلاف بھی نہیں جانا چاہتے۔ ان میں وزیراعظم نوازشریف الگ تھلگ نظر آتے ہیں جنہوں نے خارجہ پالیسی اور اندرونی مسائل پر ترقی پسند سوچ اپنا رکھی ہے‘ لیکن اس پر عملدرآمد کے لیے درکار جرأت سے عاری ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں