اگست کے پہلے ہفتہ میں بھارتی وزیراعظم نے نیپال کا سرکاری دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ کئی لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مبصرین اسے بھارت یعنی بی جے پی کی حکومت کی طرف سے اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کو کشیدگی سے پاک اور دوطرفہ بنیادوں پر مضبوط بنانے کی نئی کوششوں کا حصہ قرار دیتے ہیں‘ کیوں کہ نیپال سے قبل نریندر مودی بھوٹان کا دورہ کرچکے ہیں۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ میانمار (سابق برما) بھی فہرست میں شامل ہے۔ حکمران پارٹی کے ایک اہم رکن سری لنکا کا دورہ کرچکے ہیں اور اس ماہ کی 25تاریخ کو پاکستان اور بھارت کے سیکرٹری خارجہ کی ملاقات متوقع ہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان معطل شدہ امن مذاکرات بحال کرنے پر بات چیت ہوگی۔
ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوششیں اور ان کوششوں کے پیچھے کارفرما محرکات اپنی جگہ لیکن وزیراعظم نریندر مودی کا دورۂ نیپال نہ صرف بھارت اور نیپال میں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں سیاسی حلقوں کی خاص توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باوجود اس حقیقت کے کہ نیپال بھارت کے علاوہ واحد ہندو ملک ہے اور دونوں ملکوں میں انتہائی قریبی ثقافتی، سماجی اور معاشی تعلقات ہیں‘ نئی دہلی اور کھٹمنڈو کے تعلقات میں عدم اعتماد اوربدگمانی کی فضا کبھی دور نہیں ہوسکی۔ دونوں ملک ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے رہے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1997ء کے بعد نریندر مودی کا یہ دورہ کسی بھارتی وزیراعظم کا پہلا دورۂ نیپال تھا۔ 1997ء میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اندر کمار گجرال نیپال کے سرکاری دورے پر آگئے تھے۔2002ء میں اٹل بہاری واجپائی بھی نیپال گئے تھے لیکن ان کا مقصد سارک کی سربراہی کانفرنس میں شرکت تھا‘ جو نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں منعقد ہوئی تھی۔ صرف یہی نہیں کہ نیپال اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی قریبی سماجی ، ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں منسلک ہیں ، بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں
میں بھی دونوں ملک ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ ان کے تعلقات کو عدیم المثال قرار دیاجاسکتا ہے۔ مثلاً دونوں ملکوں کے درمیان 1950ء کے دوطرفہ معاہدہ کے تحت سرحد پار کرنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں۔ بھارت میں نیپالی باشندوں کو بغیر ورک پرمٹ کے ہر شعبہ میں کام کرنے اور ملازمت اختیار کرنے کی رعایت حاصل ہے؛ البتہ انڈین فارن سروس، انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس اور انڈین پولیس سروس اس سے مستثنیٰ ہیں۔ نیپالی طلبا کی بھاری تعداد بھارتی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نیپال میں بادشاہت کے دوران جب کبھی سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کی گئی تو نیپال کے سیاسی کارکن اور سیاسی لیڈر بھاگ کر بھارت میں ہی پناہ حاصل کرتے تھے، جہاں ہر بھارتی حکومت ان کا پورا پورا خیال رکھتی تھی۔ اقتصادی لحاظ سے نیپال بھارت پر اس حد تک انحصار کرتا ہے کہ اس کی برآمدی تجارت کا دوتہائی حصہ بھارت کے ذریعہ ہوتا ہے۔ نیپال میں بیرونی سرمایہ کاری کا آدھا حصہ بھارت کا ہے۔ متعدد تعمیراتی منصوبوں‘ جن میں ہسپتال، ریلوے لائن اور شاہراہیں شامل ہیں‘ کی تکمیل میں بھارت نے نیپال کی مالی اعانت کی ہے۔ اس کے باوجود اگر دونوں ملکوں میں دوری موجود ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کی وجہ 1950ء کا معاہدہ ہے جس کے بارے میں نیپالیوں کا خیال ہے کہ اس کی ایک خفیہ دفعہ کے تحت نیپال بھارت سے مشورہ کیے بغیر دوسرے ملکوں کے ساتھ دفاعی تعلقات قائم نہیں کرسکتا۔ نیپالی اس دفعہ کو اپنے ملک کی آزادی اور خود مختاری کے منافی سمجھتے ہیں اور وہ بھارت پر نیپال کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہیں۔ اگرچہ بھارت کی طرف سے اس الزام کی سختی سے تردید کی جاتی ہے اور وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اپنے حالیہ دورہ نیپال کے دوران میں نیپالی عوام کو یقین دلایا کہ بھارت نیپال کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا لیکن دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دفاع اور خارجہ پالیسی کے شعبوں میں بھارت نے نیپال کے آزادانہ فیصلوں کو کبھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ بعض صورتوں میں ایسے اقدامات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی بھی پیدا ہوتی رہی۔ مثلاً 1960ء کی دہائی میں جب سابق شاہ مہندرا کے دور میں نیپال نے چین سے ہتھیار خریدنے کا فیصلہ کیا تو بھارت کی طرف سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا تھا ۔ نیپال کے اس اقدام سے شاہ مہندرا کے پورے دور میں نیپال اور بھارت کے تعلقات کشیدہ رہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اور چین کے ساتھ نیپال کے تعلقات دوستانہ اور قریبی رہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1950ء میں نیپال میں رانا فیملی کے '' آمرانہ ‘‘ دور کے خلاف بھارت کی طرف سے نیپالی عوام کی جمہوری تحریک کی حمایت کی اصل وجہ یہ تھی کہ رانا فیملی نے خارجہ پالیسی کے شعبے میں آزادانہ روش کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسی طرح بھارت کی طرف سے مائو پرست گوریلا تحریک کی مخالفت کی وجہ دراصل بھارت کا یہ خدشہ تھا کہ مائو پرست جنگجوئوں کے ذریعہ نیپال میں چین کے اثرو رسوخ میں اضافہ ہوگا۔ نیپالی کانگرس کے علاوہ نیپال کی باقی تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھی بھارت پر نیپال کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیاجاتا ہے۔
انہی معاملات کی وجہ سے نیپالی سیاسی پارٹیوں اور عوام میں بھارت کے بارے میں اس قدر شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ غربت ، پس ماندگی اور ترقی کے فقدان کے باوجود نیپال کی کسی بھی حکومت نے آج تک ملکی وسائل کی ترقی اور ان سے آمدنی حاصل کرنے کے منصوبوں میں بھارت کے ساتھ شراکت پر آمادگی ظاہر نہیں کی اور اگر کسی منصوبے میں اس قسم کی شراکت پر معاہدہ ہوا بھی ہے تو سال ہا سال گزر جانے کے بعد بھی اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ اس کی نمایاں مثال نیپال میں ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس پرکام کی سست روی ہے۔ نیپال میں اتنے دریا، ندیاں اور آبشاریں ہیں کہ ماہرین کے مطابق ان کے پانی کو قابو کرکے 75ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس میں 40ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنا تکنیکی بنیاد پر نہ صرف ممکن ہے بلکہ منافع بخش بھی ہے۔ بھارت اس میں مدد دینے کے لیے تیار ہے اور اس کے لیے تین بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری پر دستخط بھی کیے جاچکے ہیں لیکن 30سال گزر جانے کے باوجود ان پر کام کا آغاز نہیں ہوسکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نیپالیوں کی یہ شکایت ہے کہ بھارت ان منصوبوں میں سرمایہ لگاکر نیپال کی بجلی انتہائی سستے داموں اور اپنی مرضی کی شرائط پر خریدنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ نیپال میں یہ خدشہ بھی عام ہے کہ ملک کے بیش قیمت اثاثے یعنی پن بجلی کی پیداوار میں بھارتی سرمایہ کاری سے ان کا ملک اس کا مزید محتاج ہوجائے گا۔ اس لیے وہ غریب رہنے کو تیار اور روزانہ 14گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جھیلنے پر راضی ہیں لیکن بھارتی شرائط پر اپنے پن بجلی کے منصوبوں میں بھارتی سرمایہ کاری اور شراکت پر رضا مند نہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے دورے کے دوران نیپال کے ان خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور پنچیشور نامی ایک منصوبے میں بھارتی شرکت کی شرائط میں ترمیم کے لیے ایک یاد داشت پر بھی دونوں ملکوں نے دستخط کیے ہیں۔ نیپال کے ساتھ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دے کر بھارت دو مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ایک یہ کہ گزشتہ دو دہائیوں سے بھارتی حکومتوں کی بے اعتنائی کی وجہ سے نیپال اور چین کے درمیان تعلقات میں جو اضافہ ہوا ہے اس کے آگے بند باندھا جائے اور دوسرے یہ کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نیپال کے پن بجلی کے منصوبوں میں بھارتی سرمایہ کاری اور شرکت کا راستہ ہموار کیاجائے ۔ یہی وجہ ہے کہ نیپالی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں نریند مودی نے اس بات پر خاص طور پر زو ردیا کہ بھارت نیپال کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے عمل کرے گا۔ نیپال اور بھارت کے درمیان اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کے لیے مشترکہ اقتصادی کمشن کو دوبارہ فعال بنایا گیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے دورے سے قبل وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنے دورہ نیپال کے دوران اس کمشن کی نیپالی وزیرخارجہ کے ہمراہ صدارت کی تھی۔ گزشتہ 23برسوں میں مشترکہ کمشن کا یہ پہلا اجلاس تھا۔ اس کے علاوہ نیپال کو اور قریب لانے کے لیے نریندر مودی کی حکومت نے نیپال کو کئی اور ترغیبات بھی دی ہیں جن میں دو طرفہ تجارت میں توازن کو نیپال کے حق میں بہتر کرنا اور بھارت کے راستے ایران اور ترکمانستان سے حاصل ہونے والی گیس کو نیپال میں مہیا کرنا شامل ہیں‘ لیکن نیپال اور بھارت میں اصل مسئلہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اس شعبے میں نیپالی خدشات کو دور کرنے کے لیے 1950ء کے معاہدے میں ترمیم کرنے پر کہاں تک راضی ہوتا ہے۔