اسلام آباد میں گزشتہ تقریباً دو ہفتوں سے جاری احتجاجی مارچ اور دھرنوں نے جہاں اندرون ملک زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے وہاں بیرون ملک بھی ان حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے جو پاکستان میں سیاسی استحکام اور جمہوری عمل کے تواتر کے خواہشمند ہیں۔ ان حلقوں میں امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور یورپی یونین بھی شامل ہیں۔پاکستان کے دیگر دوستوں مثلاً چین‘سعودی عرب اور ایران کی طرف سے اگرچہ ابھی تک کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ‘ تاہم یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ان ملکوں میں بھی پاکستان کے موجودہ حالات پر تشویش پائی جاتی ہے۔اس کی وجہ بالکل عیاں ہے ۔ایک مستحکم پاکستان پورے خطے کے استحکام اور امن کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔خصوصاً موجودہ حالات میں جب کہ ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ اردگرد کے ممالک بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے دوچار ہیں‘ پاکستان میں سیاسی خلفشار اور عدم استحکام حالات کو مزید بگاڑ سکتے ہیں۔ پاکستان سے باہر جن ملکوں نے موجودہ بحران پر تشویش کا اظہار کیا ہے اس کو اس کے مناسب سیاق و سباق میں سمجھنے کے لیے دو باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ایک تو یہ کہ گلوبلائزیشن (Globalisation)کے اس دور میں دنیا کے کسی بھی ملک میں رونما ہونے والا واقعہ‘اب صرف اس ملک کا اندرونی مسئلہ نہیںرہتا بلکہ اس کے عالمی مضمرات ہونے کی وجہ سے باقی ساری دنیا کیلئے باعثِ تشویش بن جاتا ہے ۔اس لیے کہ اب کرۂ ارض پر واقع تمام ممالک اور قومیں ایک دوسرے سے اتنی جڑی ہوئی ہیں کہ ان میں پیدا ہونے والی چھوٹی بڑی ہلچل دوسروں کو ہلائے بغیر نہیں رہ سکتی۔گزشتہ پانچ چھ دہائیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی خصوصاً مواصلات اور ابلاغ عامہ کے شعبوں میں ہونے والی حیران کن تبدیلیوں کے باعث اب ہر ملک اور قوم کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔کسی بھی ملک کے لیے دنیا سے الگ تھلگ شاہراہ ترقی پر سفر کا تصور اب ختم ہو چکا ہے۔
دوسرے‘ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں عالمی برادری‘ خصوصاً اہم ممالک مثلاً امریکہ‘ برطانیہ ‘یورپی یونین‘ چین‘ جاپان اور روس نے اہم سٹرٹیجک انوسٹمنٹ (Strategic Investment)کی ہے اور اس مقصد کے لیے ان ممالک نے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ بنیادوں پر معاشی‘دفاعی ‘سیاسی‘ ثقافتی اور تجارتی شعبوں میں قریبی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے سٹریٹجک ڈایا لاگ (Strategic Dialogue) کا فریم ورک قائم کر رکھا ہے۔ان اقدامات سے دونوں اطراف کے لیے مطلوبہ فوائد کے حصول کی بنیادی شرط سیاسی استحکام ہے۔اس لیے کسی جانب سے اگر ہمارے اپنے پیدا کردہ بحران پر تشویش کا اظہار کیا جائے یا کوئی ہمیں امن‘ترقی اور جمہوریت کا راستہ اپنانے کی طرف لوٹ جانے کا مشورہ دے‘ تو اس پر ناک بھوں چڑھانے کی بجائے‘ ہمیں ان مشوروں پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیوں کہ جہاں ہم بین الاقوامی برادری سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ آڑے وقت میں ہمارے کام آئے ‘ وہاں دوسرے ممالک بھی یہ امید لگانے میں حق بجانب ہیں کہ ہم پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر کے ان کے اہم مفادات کو خطرے میں نہ ڈالیں۔اسی طرح بین الاقوامی مالیاتی ادارے مثلاً آئی ایم ایف‘ ایشیائی ترقیاتی بنک اور اسلامک ترقیاتی بنک بھی مشوش ہونے میں حق بجانب ہیں کیونکہ پاکستان نے ان سے اربوں ڈالر کے قرضے لے رکھے ہیں۔عمران خاں کے اس بیان کے بعد کہ ان کی حکومت تشکیل پا جانے کی صورت میں اگست کے بعد ملنے والا قرضہ واپس نہیں کیا جائے گا‘ یہ ادارے تو اور بھی فکر مند ہوں گے۔
لیکن بین الاقوامی ردعمل میں ہمارے لیے خصوصی اہمیت کا حامل امریکہ کی طرف سے ردعمل ہے۔اس کی تین وجوہات ہیں‘ایک تو یہ کہ پاکستان اور امریکہ مضبوط اور گہرے دو طرفہ تعلقات میں مربوط ہیں۔ پاکستان کو نہ صرف کیری لوگر بل کے تحت ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر کی معاشی اور فوجی امداد ملتی ہے بلکہ دہشت گردی جنگ میں تعاون کے عوض''کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کی مد میں تقریباً ایک ہزار ملین ڈالر پاکستان حاصل کرتا ہے۔نیٹو سپلائی لائن کی بحالی کا معاوضہ اس کے علاوہ ہے۔پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک ڈایا لاگ کے تحت مختلف شعبوں مثلاً توانائی‘ زراعت‘ صنعت اور تعلیم و صحت کے شعبوں میں تعاون جاری ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ پاکستانی برآمدات کے لیے اس وقت سب سے بڑی منڈی فراہم کرتا ہے۔امریکہ کے ساتھ پاکستان کے معاشی تعلقات ‘ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور اس بناء پہ امریکہ کی بات ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ دوسرے: پاکستان میں سیاسی عدم استحکام سے افغانستان میں امریکی حکمت عملی‘خصوصاً اس سال کے آخر تک امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کا پروگرام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔امریکہ کے نزدیک افغانستان میں اس کی آئندہ حکمت عملی کی کامیابی کا انحصار پاکستان اور افغانستان کے درمیان قریبی اور دوستانہ تعاون پر ہے اور واشنگٹن کی نظر میں نواز شریف کی حکومت نہ صرف اس کے لیے موزوں ہے بلکہ پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت نے اس کی طرف قدم اٹھانے کی بھی کوشش کی ہے۔اسی طرح افغانستان مسئلے کے وسیع تر تناظر میں امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو کے خاتمہ بلکہ افغانستان میں دونوں ملکوں کے کردار کو ہم آہنگ کرنے کے حق میں ہے۔اور اس مقصد کے لیے بھی امریکہ نوازشریف حکومت کے پالیسی بیانات اور اقدامات کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے۔امریکہ کو خدشہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور خصوصاً نواز شریف حکومت کو ہٹانے سے افغانستان اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے بہتر تعلقات میں جو پیش رفت ہو سکتی ہے ‘اس کا امکان ختم ہو جائے گا اور ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو جائے گی‘ جس سے امریکی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران پر امریکی ردعمل کو صرف اس پس منظر میں نہیں دیکھا جا سکتا‘ بلکہ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے اور اس کا تعلق جنوبی ایشیا کے خطے میں بڑھتی امریکی دلچسپی اور دوطرفہ بنیادوں پر فروغ پانے والے تعلقات ہیں۔امریکہ کی اس پالیسی کا مقصد جنوبی ایشیائی خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرونفوذ کے آگے بند باندھنا ہے‘ کیونکہ اگر جنوبی ایشیا کے ممالک میں چین کی سیاسی‘سفارتی اور معاشی موجودگی میں اضافہ ہوا تو اسے بحر ہند پر غلبہ حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔اس پالیسی کے تحت امریکہ نے بنگلہ دیش میں کچھ عرصہ پیشتر عوامی لیگ کی حسینہ واجد اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی(BNP)کی رہنما خالدہ ضیاء کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے مصالحت کنندہ کا کردار ادا کیا تھا۔بنگلہ دیش میں امریکی مصالحتی کردار کے محرکات میں امریکہ کی صرف اس خواہش کو دخل نہیں تھا کہ بنگلہ دیش میں سیاسی استحکام ہو تاکہ اس ملک کی معیشت میں ترقی کا عمل جاری رہے‘بلکہ یہ کوشش بھی شامل تھی کہ بنگلہ دیش کے
ساتھ تعلقات کو فروغ دے کر خلیج بنگال کے سرے پر واقع اس ملک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکا جائے۔ یہی محرکات نیپال میں آج سے تقریباً آٹھ سال قبل مائو پرست باغیوں اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے درمیان امن معاہدے پر اتفاق پیدا کرنے میں امریکی کردار میں کارفرما تھے۔نیپال کی جیو سٹرٹیجک اہمیت یہ ہے کہ یہ ملک ایشیا کی دو بڑی طاقتوں یعنی چین اور بھارت کے درمیان ایک سینڈ وچ کی طرح واقع ہے۔نیپال میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور موجودگی کو نہ صرف بھارت اپنے مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتا ہے ‘بلکہ امریکہ بھی اسے اپنی علاقائی حکمت عملی کے لیے خطرناک سمجھتا ہے۔مائو پرست باغیوں اور نیپال کی اہم سیاسی پارٹیوں کے درمیان امن معاہدے پر بات چیت کے دوران میں‘نیپال میں امریکی سفیر مائو پرست باغیوں کو کسی قسم کی رعایت دینے کے خلاف تھے۔ان کے خیال میں مائو پرست باغیوں کو نیپال کی سیاست میں نمایاں مقام دینے سے ملک میں چین کے اثرورسوخ میں اضافہ ہو گا۔حالانکہ چین نے نہ تو کبھی مائو پرست باغیوں کی حمایت کی اور نہ انہیں کسی قسم کی کبھی مادی امداد فراہم کی۔اس کے باوجود امریکہ نیپال میں اس قسم کے امن معاہدے کے لیے کوشاں تھا‘ جس کے ذریعے ملک میں نہ صرف برسوں سے جاری خانہ جنگی ختم ہو‘ سیاسی استحکام پیدا ہو بلکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے میں بھی مدد گار ثابت ہو۔
یہ محرکات کسی نہ کسی حد تک پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال پر امریکی ردعمل کے پیچھے بھی کار فرما ہیں‘ لیکن وزیر اعظم نواز شریف کی آئینی اور منتخب حیثیت کو کھلے الفاظ میں تسلیم کر کے اور کسی بھی غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی برملا مخالفت کر کے امریکہ نے پاکستانی سیاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں اس کی دلچسپی صرف سٹرٹیجک مفادات کے تابع نہیں بلکہ اس کا اصلی ہدف پاکستانی عوام کی خوشنودی کا حصول ہے جو صرف ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی حمایت سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔