پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے اسلام آباد میں دیے گئے دھرنوں کی وجہ سے کاروبارِ زندگی ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔اس مایوس کن اور تکلیف دہ صورتِ حال کا ایک مثبت پہلو بھی سامنے آرہا ہے۔ انگریزی کے ایک محاورے Blessing in Disguiseکے مصداق پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک نیا اور درخشندہ باب لکھا جارہا ہے۔ملک کی 67سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام اہم سیاسی پارٹیاں‘ایک نکتے یعنی آئین اور پارلیمنٹ کے دفاع پر متفق ہوئی ہیں اور اس کیلئے اکٹھے ہوکراس عزم کا اظہار کیا ہے کہ آئین کے مطابق پارلیمنٹ کے منتخب وزیراعظم کو کسی غیر آئینی اور غیر جمہوری طریقے یا گن پوائنٹ پر استعفیٰ دینے یا چھٹی پر جانے پر مجبور نہیں کیاجائے گا۔ قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل کرنے والی ان سیاسی جماعتوں میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے گذشتہ سال نئی قومی اسمبلی کی تشکیل کے موقعہ پر وزیراعظم محمد نوازشریف کے خلاف ووٹ دیا تھا۔جن ممبران ِقومی اسمبلی اور سینیٹ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم محمد نوازشریف پر استعفیٰ کیلئے ڈالے گئے دبائو کی مذمت کی ان میں سے بیشتر وزیراعظم محمد نوازشریف اور ان کی پارٹی کے نظریات سے اختلاف رکھتے ہیں۔ سب کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ پارلیمنٹ کا دفاع کیا جائے گا،آئین کی پاسداری کی جائے گی اور 18کروڑ عوام کے منتخب اور نمائندہ ایوان کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ کو روک دیا جائے گا۔
پاکستانی قوم نے اپنی گزشتہ ساری تاریخ میں نظریاتی اختلاف کے باوجود سیاسی اتفاق رائے کا ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب ہم اپنے ماضی کے چند ایسے واقعات کا غور سے جائزہ لیتے ہیں جب فوجی ڈکٹیٹروں یا آمرانہ سوچ کے مالک سویلین سربراہانِ مملکت نے بیک جنبشِ قلم ملک کے آئین اور قانون ساز اداروں کو ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھایا تو کل کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی اہمیت اور بھی اجاگر ہوجاتی ہے۔
یوں تو مہم جو اور طالع آزما فوجی جرنیلوں اور تحکمانہ اندازرکھنے والے سربراہانِ مملکت کے ہاتھوں متعدد اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں لیکن 1954ء میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں تحلیل کا واقعہ سبق آموز ہے۔یہ اسمبلی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935ء کے تحت متحدہ ہندوستان میں 1946ء میں ہونے والے انتخابات کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اور اس کا مشن پاکستان کیلئے ایک نیا آئین بنانا تھا لیکن پاکستان کے مخصوص حالات اور تقسیمِ ہند سے پیدا ہونے والے گمبھیر مسائل کے پیشِ نظریہ اسمبلی سات سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی آئین نہ بنا سکی۔اس کے مقابلے میں بھارت جس نے تین برس میں اپنا آئین بنا کر1952ء میں قومی انتخابات بھی کروا لیے۔وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی انتھک محنت اور اراکینِ اسمبلی کے تعاون کے نتیجے میں جب ملک کیلئے ایک متفقہ آئین تیار کر لیاگیا اور اسمبلی نے اس پر شق وار بحث بھی مکمل کر لی تو اکتوبر 1954ء میں گورنر جنرل نے اسمبلی توڑ دی حالانکہ انڈین انڈی پنڈنس ایکٹ 1947ء کے تحت انہیں اس کا اختیار نہیں تھا۔اس وقت بھی مرکز میں پاکستان مسلم لیگ کی حکومت تھی کیونکہ اسمبلی میں اسے اکثریت حاصل تھی۔ ایک مشہور امریکی قانون دان اور سیاسیات کے ماہر پروفیسر ایلن میکگراتھ نے اپنی کتاب Destruction of Democracy in Pakistanمیں لکھا ہے کہ گورنر جنرل غلام محمد کے اس غیر قانونی اقدام میں اس وقت کے پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف اور وزیردفاع جنرل ایوب خان کی رضا مندی شامل تھی۔بہر حال اس واقعہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اسمبلی کی تحلیل پر نہ تو اراکین نے کسی قسم کی مزاحمت کا مظاہرہ کیا‘ نہ مذمت کی بلکہ بعض سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں جن میں عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی بھی شامل تھے‘ نے خوشی کا اظہار کیا۔ اگرچہ اس کی کچھ جائز وجوہ بھی تھیں۔ مثلاً اس اسمبلی نے شروع سے ہی ہمارے بنگالی بھائیوں کے مفادات کو نظر انداز کرنے کی روش اختیار کر رکھی تھی اور آئین سازی میں تاخیر سے یہ تاثر بھی جڑ پکڑتاجارہا تھا کہ اس اسمبلی کے اراکین آئین کی تشکیل میں دیر کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔اس کے باوجود گورنر جنرل غلام محمد‘ جو ایک سابق بیوروکریٹ تھے‘ نے ایک سیاسی اور آئینی ادارے پروار کیا جو اپنا کام مکمل کر چکاتھا اور نئے آئین کی منظوری اور اطلاق کے بعد انتخابات ناگزیر تھے۔ گورنر جنرل کے اس اقدام کی‘ جسے پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل پر پہلا شب خون کہا جاتا ہے‘ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اسمبلی میں پیش ہونے والے آئینی مسودے میں گورنر جنرل کے ان خصوصی اختیارات کو محدود کر دیا گیا جن کا تعلق اسمبلی کی تحلیل اور وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی برطرفی سے تھا۔اپنے اختیارات میں کمی کی وجہ سے گورنر جنرل اتنے برہم ہوئے کہ انہوں نے نہ صرف وزیراعظم محمد علی بوگرہ کو چلتا کیا بلکہ اسمبلی بھی توڑدی۔
1958ء میں جب جنرل ایوب خان نے 1956ء کا دستور منسوخ کر کے قومی اسمبلی کو توڑا اور مارشل لاء نافذ کر دیا تو بھی ملک میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اورکئی سیاستدانوں نے خوشی کا اظہار کیا۔باقی خاموش رہے‘ لیکن ایک رہنما نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کی مذمت کی اور بعض لوگوں کی طرف سے اس پر خوشی کے اظہار کوقابلِ افسوس قرار دیا۔یہ رہنما 1956ء کے آئین کے خالق اور اس کے تحت حلف اٹھانے والے پہلے وزیراعظم چودھری محمد علی تھے۔
موجودہ بحران بھی پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوگا۔اس کا جو بھی نتیجہ نکلے گا پاکستان کی سیاست اور جمہوریت پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔اگر پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے لٹھ بردار جتھوں کے ذریعے آئین اور قانون کے بالکل برعکس پارلیمنٹ کو بے اثر بنانے، حکومت کو مفلوج کرنے اور وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنے پرمجبور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں،یاپولیس اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کے ساتھ متصادم ہوکر ایسی صورتِ حال پیدا کر دیتے ہیں کہ فوج براہ راست مداخلت کی ان کی خواہش پوری کرتی ہے تو یہ ملک کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی اور جیسا کہ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ آئندہ پندرہ بیس برسوں میں ملک آمریت کی چکی میں پستا رہے گااور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ موجودہ آئینی اور قانونی ڈھانچے کو تبدیل کر کے اسے ایک دفعہ پھر صدارتی یا ملے جلے سیاسی نظام میں بدل دیا جائے جس میں فوج کو ایک مستقل سیاسی کردار سونپ دیا جائے۔
غالب امکان یہ ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں کے ذریعے موجودہ وفاقی اور پارلیمانی نظام کی بساط الٹنے کی کوششیں ناکام رہیں گی۔تمام سیاسی پارٹیوں کے اتحاد اور اتفاق کی وجہ سے نہ صرف براہ راست فوجی مداخلت کا دروازہ بند ہوگیا ہے بلکہ اس نے عمران خان اور طاہر القادری کو بھی ملکی سیاست میں بالکل الگ تھلگ کر دیا ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر موجودہ حالات نے بھی براہ راست فوجی مداخلت کا اندیشہ کم کر دیا ہے۔اس وقت جو سیاسی کشمکش جاری ہے اس میں موجودہ پارلیمنٹ یقینا کامیاب ہوگی۔ اس کامیابی کا سہرا یقینا پاکستانی عوامی کے سر ہوگا لیکن اسے ممکن بنانے میں سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان جو اہم اور تاریخی کردار ادا کر رہے ہیں،ا س نے نہ صرف جمہوری عمل پر عوام کے اعتماد کو بحال کیا بلکہ سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کی عزت اور تکریم میںبھی اضافہ کر دیا ہے۔