قدیم مصر کی ایک روایت کے مطابق اگر کسی عورت پر جادوگرنی کا شبہ ہو جاتا تھا‘ تو اس کی تصدیق یا تردید کے لیے اس عورت کو دریائے نیل میں پھینک دیا جاتا۔ اگر وہ عورت ڈوب جاتی تو سمجھا جاتا کہ وہ جادوگرنی نہیں تھی‘ لیکن اگر وہ دریا میں تیرتی پائی جاتی تو اس بات کی تصدیق ہو جاتی تھی کہ وہ عورت جادوگرنی ہے اور اس صورت میں سزا کے طور پر اسے زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ مطلب یہ کہ مشکوک عورت کو ہر دو صورتوں میں جان سے ہاتھ دھونا پڑتے تھے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال سے ہمارے سیاستدان بھی دوچار ہیں۔ اگر وہ آپس میں لڑتے ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوتے ہیں اور برسر اقتدار کو اقتدار سے فارغ کرنے کے لیے تیسری قوت کا سہارا لیتے ہیں تو بُرے، سازشی اور موقع پرست ٹھہرتے ہیں بلکہ طالع آزمائوںکے جمہوریت پر شب خون کی ذمہ داری بھی انہی کے پلڑے میں ڈال دی جاتی ہے‘ لیکن اگر وہ اصول، جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی خاطر متحد ہو کر بیک آواز ماورائے آئین سیاسی تبدیلی کی کوشش کی مخالفت کریں‘ تو انہیں موقع پرست، مفاد پرست اور سیاسی گٹھ جوڑ کے مرتکب ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے کے باوجود یہ سیاستدان اپنے مفاد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ دونوں صورتوں میں سیاستدان ہی مطعون ٹھہرتے ہیں۔ اشارہ پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس کی طرف ہے۔ سب سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر معمولی حالات میں بلایا جاتا ہے۔ آئین کے تحت ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر صدرِ مملکت کے خطاب کے لیے یا کسی اہم ملک کے انتہائی محترم و مکرم اور پاکستان کے سچے دوست رہنما کے خطاب کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جاتا ہے۔ مثلاً چین اور ترکی کے سربراہان مملکت کے اعزاز میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس بلائے گئے۔ تیسری صورت میں اگر مرکز اور صوبوں یا صوبوں کے مابین کوئی مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل حل نہ کر سکے تو اس کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جاتا ہے؛ چنانچہ پارلیمانی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترکہ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ کا حالیہ اجلاس بھی غیر معمولی حالات میں بلایا گیا تھا۔ عمران خان کی تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک کے اسلام آباد میں دیے گئے دھرنوں سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ اس کی آڑ میں غیر جمہوری قوتیں کوئی ماورائے آئین اقدام کرنے والی ہیں‘ تو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے مشورہ پر مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ یہ اجلاس 2 ستمبر کو شروع ہوا اور اٹھارہ روز تک جاری رہنے کے بعد 19ستمبر کو ختم ہوا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پارلیمنٹ کے کسی مشترکہ اجلاس کا یہ سب سے طویل دورانیہ ہے۔ اس اجلاس میں پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈروں اور نمائندوں نے موجودہ سیاسی صورتِ حال پر اظہارِ خیال کیا۔ تقاریر میں جہاں دھرنوں کی سیاست، غیر آئینی مطالبات اور گن پوائنٹ پر وزیر اعظم سے استعفیٰ کے مطالبے کی مذمت کی گئی، وہاں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مقررین نے حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ خصوصاً وزیر اعظم محمد نواز شریف کی پارلیمنٹ سے
طویل غیر حاضری، وزراء کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور راج نیتی کے انداز کی سخت مذمت کی گئی۔ حکومت کو خبردار کیا گیا کہ اگر اس نے اپنا رویہ نہ بدلا اور ملک کو صاف ستھری ایڈمنسٹریشن نہ دی گئی تو کسی پارٹی یا شخص کو اس کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ عوام روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل سے تنگ آ کر خود ہی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے؛ تاہم اس مشترکہ اجلاس کا سب سے اہم اور نمایاں پہلو نمائندہ سیاسی جماعتوں کا ایک نکتے یعنی آئین کی بالا دستی اور جمہوریت کے تحفظ پر متفقہ موقف ہے۔
یہ موقف اس قرارداد میں بیان کیا گیا ہے، جسے مشترکہ اجلاس نے 19 ستمبر کو اپنے اختتامی سیشن میں متفقہ طور پر منظور کیا۔ صرف تحریک انصاف اور اس کی اتحادی پارٹیوں نے‘ جو مسلم لیگ کے دھڑے ہیں یعنی گجرات کے چودھریوں کی پاکستان مسلم لیگ (ق) اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا۔ قرارداد کے پیش ہونے سے عین قبل ایم کیو ایم نے بھی اجلاس سے واک آئوٹ کرنے میں مصلحت سمجھی‘ لیکن اس سے قرارداد کی تاریخی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی کیونکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کی بھاری تعداد کی حمایت نے اس قرارداد کے وزن میں نمایاں اضافہ کر دیا۔
قرارداد میں صاف اور واشگاف الفاظ میں آئین کی بالادستی، جمہوریت، ریاستی اداروں کے احترام، قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی حمایت کی گئی اور دھرنا سیاست کی مذمت کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا کہ اس سے قومی معیشت اور ملک کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس قرارداد میں اس بات پر خاص طور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل کرنے والی تمام جمہوری قوتوں نے فقیدالمثال اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے خلاف ہر سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر متزلزل اور مصمم ارادے کا اعلان کیا۔
یہ وہ الفاظ ہیں جو بعض حضرات کو سخت ناگوار گزرتے ہیں۔ پاکستان کے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے ایک دفعہ آئین کو کاغذ کے ایک پرزے کے برابر قرار دیا تھا کہ وہ جب چاہیں اسے پھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔ جنرل مشرف نے ملک اور آئین کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا تھا‘ حالانکہ آئین نہ صرف کسی ملک کی پہچان بلکہ اس کے تحفظ اور بقا کا ضامن بھی ہوتا ہے۔
یہ سیاستدان ہی ہیں جنہوں نے متفقہ آئین کی صورت میں پاکستان کی بقا اور تحفظ کی ضمانت فراہم کرنے میں ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ اہم کردار ادا کیا۔ پہلی دفعہ 1956ء کا آئین دے کر ایک ہزار میل سے زائد طویل فاصلے پر واقع ملک کے دو حصوں کو باہم جوڑ کر ایک قوم کی تشکیل کی اور دوسرے موقع پر 1973ء میں ایک شکست خوردہ قوم کا مورال بحال کر کے باقی ماندہ پاکستان کو ایک مضبوط وفاقی ریاست بنایا۔ آج اگر تمام سیاسی پارٹیاں یہ خدشہ ظاہر کرتی ہیں کہ موجودہ آئین کے خاتمہ کی صورت میں ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا اور وفاق پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد رکھنا مشکل ہو جائے گا، تو اِس کی ایک خاص وجہ ہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کو جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے بہت دور ہونے کے باوجود ایک متحدہ ملک بنانے والا 1956ء کا آئین مساوات (Parity) کے اصول پر مبنی تھا‘ جو اگرچہ ایک آدمی‘ ایک ووٹ کے جمہوری اصول کی نفی تھا، لیکن ہمارے بنگالی بھائیوں نے قومی اتحاد کی خاطر اسے قبول کر لیا تھا؛ تاہم ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لا لگا کر اور آئین کو منسوخ کر کے گویا پاکستان کے اتحاد پر کلہاڑی کا وار کیا تھا۔ اس کے بعد 1970ء کے انتخابات میں بنگالیوں نے پیرٹی کے اصول کو مسترد کرتے ہوئے ایک آدمی‘ ایک ووٹ پر اصرار کیا‘ جس کی وجہ سے ایک متفقہ آئین بنانا مشکل ثابت ہوا اور پاکستان کے دو حصے ہو گئے۔ موجودہ آئین بھی ایک قومی اتفاق رائے کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا۔ اس کے تحت پاکستان کے چھوٹے صوبے بہ رضا و رغبت وفاق کا حصہ ہیں۔ ان سب کو ایک لڑی میں پرونے والا پاکستان کا موجودہ دستور ہے۔ اگر کسی طالع آزما اور مہم جو شخص کو ایک دفعہ پھر آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقدام کی اجازت یا دعوت دی گئی تو یہ لڑی بکھر جائے گی۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پاکستان کے تینوں چھوٹے صوبوں میں علاقہ پرستی کے مضبوط رجحانات موجود ہیں اور علاقائی سیاسی پارٹیاں بھی نمایاں سیاسی اثرورسوخ کی مالک ہیں، آئین کی معطلی کی صورت میں یہ پارٹیاں وفاقی ڈھانچے میں رہنے کے لیے ایسے مطالبات پیش کر سکتی ہیں‘ جنہیں قبول کرنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگر سیاستدانوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے دفاع میں ایک مضبوط موقف اختیار کیا ہے تو پوری قوم کو ان کا مشکور ہونا چاہیے نہ کہ انہیں ابن الوقت اور مفادپرست کہہ کر‘ اداروں کی بلکہ پوری قوم کی توہین کی جائے۔