پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی گزشتہ تقریباً 6 دہائیوں کی تاریخ اونچ نیچ اور پیچ و خم سے بھری ہے۔ ایک زمانہ تھا جب پاک امریکہ ''ہینڈ شیک‘‘ کے اشتہارات ہمارے اخباروں کے صفحۂ اول کی زینت ہوتے تھے اور امریکی گندم کی بوریوں سے لدے اونٹوں کے گلوں میں ''تھینک یُو امریکہ‘‘ کی تختیاں آویزاں ہوتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرق و مغرب یعنی روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی اور پاکستان نے اپنا تمام بوجھ امریکی پلڑے میں ڈال کر سوویت یونین کی دشمنی مول لے لی تھی۔ پاک امریکہ تعلقات کا یہ ہنی مون تقریباً ایک دہائی تک جاری رہا؛ تاآنکہ 1961ء میں صدر کینیڈی کی ڈیموکریٹک ایڈمنسٹریشن نے دفاعی معاہدوں پر انحصار کم کر کے غیر جانبدار ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کا راستہ اپنا لیا۔ پھر وہ دور بھی آیا جب پاکستان کو نہ تو امریکہ کی معاشی اور نہ ہی فوجی امداد دستیاب رہی۔ یہ دور 1960ء کی دہائی کے آخری اور 1970ء کی دہائی کے تقریباً پورے برسوں پر مشتمل ہے۔ اس دوران میں ہتھیاروں کی سپلائی کے لیے چین اور مالی امداد کے لیے ایران‘ پاکستان کے سب سے زیادہ قریبی ساتھی تھے۔ لیکن دسمبر 1979ء میں افغانستان میں سوویت یونین کی مسلح مداخلت اور اسی سال فروری میں ایران کے اسلامی انقلاب نے صورتِ حال کو یکسر تبدیل کردیا۔ امریکی ہتھیاروں اور سعودی دولت سے افغانستان میں لڑی جانے والی اس جنگ میں پاکستان کو ''فرنٹ لائن سٹیٹ‘‘ کی حیثیت حاصل ہوئی اور ایک دفعہ پھر پاکستان میں امریکی ڈالر کی ریل پیل شروع ہوگئی۔ یہ دور ایک دہائی تک جاری رہا اور 1989ء میں افغانستان سے روسی فوجوں کے واپس چلے جانے کے بعد‘ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے
سے پھر دور ہو گئے‘ بلکہ اپنے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پاکستان کو امریکہ کی طرف سے سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن 9/11 کے واقعات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نے دونوں ملکوں کو ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کے قریب لا کھڑا کیا۔ پاکستان کو دوبارہ امریکہ کی اقتصادی اور فوجی امداد ملنا شروع ہو گئی۔ اس کی نمایاں مثال ''کیری لوگر بل‘‘ ہے۔ اس امدادی بل جس پر 2009ء میں دستخط ہوئے تھے‘ میں امریکہ نے پاکستان کو پانچ برسوں پر محیط عرصہ کے لیے ساڑھے سات ارب ڈالر بطور اقتصادی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ لیکن اب تک صرف پانچ ارب ڈالر فراہم کیے جا سکے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے نے چند روز پیشتر اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ بل صرف پانچ برس کے لیے تھا اور اس میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی اور ''نیٹو‘‘ افواج کی موجودگی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خدمات سرانجام دینے کے عوض پاکستان کو ''کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کے تحت جو امریکی امداد فراہم کی جا رہی تھی‘ وہ ختم ہو جائے گی کیونکہ رواں سال کے اختتام سے قبل یا آئندہ سال کے آغاز میں‘ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔ صرف چند ہزار امریکی اور نیٹو فوجیوں پر مشتمل ایک دستہ افغان فوج کے سپاہیوں کو تربیت دینے اور بوقت ضرورت امداد فراہم کرنے کے لیے پیچھے رہ جائے گا۔ لازمی بات ہے کہ نئی صورت حال میں پاکستان
پر امریکہ کا انحصار کم ہو جائے گا اور افغانستان میں مقیم ڈیڑھ لاکھ سے زائد امریکی اور نیٹو افواج کی خاطر رسد کی فراہمی کے لیے امریکہ کا پاکستان پر انحصار ختم ہو جائے گا۔
لیکن اس سے یہ ہرگز مراد نہیں لیا جا سکتا کہ امریکہ پاکستان سے لاتعلق ہو جائے گا بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات اب ایک ایسے دور میں داخل ہونے والے ہیں جہاں پاکستان اور امریکہ بغیر کسی مجبوری کے فری ایجنٹ کے طور پر اپنے دوطرفہ تعلقات کو ایک نئی سمت میں چلائیں گے۔ اس کا اظہار امریکی خصوصی نمائندے نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے برعکس 2014ء کے بعد امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو یک لخت منقطع کرنے سے احتراز کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ نئے تعلقات میں اب ایڈ (Aid) کی بجائے ٹریڈ (Trade) پر زیادہ زور ہوگا۔ دیکھا جائے تو مجوزہ تبدیلی پاکستانی مفادات اور ترجیحات سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان بھی ایک عرصہ سے امریکہ کے ساتھ ایڈ کی بجائے ٹریڈ پر مشتمل تعلقات کی بات کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس وقت بھی امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور پاکستان میں دوسرے تمام ممالک کے مقابلے میں امریکہ کا سب سے زیادہ سرمایہ لگا ہوا ہے۔ ''پاک امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کے تحت دونوں ملکوں میں متعدد شعبوں میں‘ جن میں توانائی‘ زراعت‘ ڈیری فارم‘ فوڈ پروسیسنگ اور انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل ہے‘ تعاون جاری ہے۔ اس تعاون میں امریکہ پاکستان کو اقتصادی اور فنی امداد فراہم کر رہا ہے۔ مقصد پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانا اور پاکستانی عوام کی خوشحالی میں اضافہ کرنا ہے‘ لیکن پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزید وسیع اور گہرا کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ امریکی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی فروخت کے لیے خصوصی رعایت کا خواہاں ہے۔ امریکی خصوصی نمائندے کے بیان کے مطابق اس بات کا امکان موجود ہے کیونکہ اس قسم کی رعایت یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو پہلے ہی مل چکی ہے۔ پاکستان کو اس رعایت کی فراہمی میں یقینا امریکہ کی مرضی بھی شامل ہوگی اور اس قسم کی رعایت امریکہ بھی پاکستان کو فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس مقصد کے لیے دونوں ملکوں میں تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے حوالے سے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں‘ لیکن ان مذاکرات کی کامیابی اور بالفاظ دیگر نئے دور میں پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو مفید اور دیرپا بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے پاکستان کو چند حقائق پیشِ نظر رکھنا ہوں گے۔ مثلاً باقی دنیا کی طرح دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کے قیام اور فروغ میں امریکہ کی آئندہ پالیسی میں سٹریٹیجک اور ملٹری عوامل کی بجائے معاشی اور تجارتی عوامل کا زیادہ دخل ہوگا۔ پاکستان‘ خصوصاً اس کی علاقائی اور داخلی صورت حال کے بارے میں‘ امریکی حکومت اور کانگرس کو پہلے ہی متعدد تحفظات ہیں اور چونکہ آنے والے دنوں میں امریکی خارجہ پالیسی پر کانگرس کے اثرو نفوذ میں اضافہ ہوگا‘ جس کی وجہ امریکی رائے عامہ کا پاکستان کے بارے میں ایک مخصوص زاویۂ نگاہ ہے‘ اس لیے پاکستان کو نہ صرف بھارت اور افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات بنانا ہوں گے بلکہ ملک کے اندر جمہوری عمل کو درپیش جو خطرات ہیں اور عورتوں اور اقلیتوں کے بارے میں جو تحفظات ہیں‘ انہیں دور کرنا ہوگا۔ موجودہ دور میں کوئی ملک ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں‘ جہاں کُل بچوں کی آدھی تعداد سکول کی صورت دیکھنے سے محروم رہتی ہے اور 40 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں‘ قومی ترقی کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی فنی امداد اور سرمایہ کاری اور بھی ضروری ہے۔ اس لیے پاکستان اور امریکہ کے آئندہ تعلقات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ملک میں جمہوری سیاسی نظام کہاں تک مستحکم ہو سکے گا‘ دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے پیدا ہوتا ہے یا نہیں‘ اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے‘ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کیا سمت اختیار کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال میں بہتری آتی ہے یا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مسائل سے امریکی رائے عامہ بہت متاثر ہوتی ہے اور 2014ء کے بعد پاکستان کے بارے میں امریکی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں اب افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی سے پیدا ہونے والی ''مجبوری اور محتاجی‘‘ شامل نہیں ہوگی بلکہ کانگرس کی رائے زیادہ موثر ہوگی۔ اس لیے پاکستان کو امریکہ کے ساتھ سود مند تعلقات کے لیے مندرجہ بالا شعبوں میں اپنی پرفارمنس بہتر بنانا ہوگی۔