روس کے وزیردفاع سرجی شوآگو اگرچہ مختصر دورے پر اسلام آباد آئے تھے لیکن سفارتی اور سیاسی حلقے اس دورے کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں عالمی سطح پر اور خود ہمارے خطے میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں،ان کی روشنی میں پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔یوکرائن کے مسئلے پر روس اور مغربی ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو چین کی طرف مائل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔خود چین بھی بحرالکاہل،جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں امریکہ کی طرف سے جاپان،آسٹریلیا اور بھارت کے ساتھ مل کر چینی اثرورسوخ کو محدود کرنے کی کوششوں کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ان اقدامات کی وجہ سے چین اور روس ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور وہ ان علاقوں میں ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر باہمی تعاون اور مشاورت پر مشتمل ایک اجتماعی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کا دورہ کرنے سے کچھ عرصہ پیشتر،روسی وزیردفاع نے چین کا دورہ کیا تھا اور اسی دورے کے دوران انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع مل کر ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے میں علاقائی تحفظ کا ایک اجتماعی نظام تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیںاور اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اس خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنی عسکری اور سیاسی پوزیشن کو مستحکم بنا رہا ہے۔یادرہے کہ چینی صدر ژی جن پنگ نے دوبرس قبل عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا پہلا بیرونی دورہ روس سے شروع کیا تھا۔حال میں بیجنگ میں ایشیا پیسفک اکنامک کوآپریشن کا جو سربراہی اجلاس ہوا تھا،اس کے دوران بھی صدر ژی کی اپنے روسی ہم منصب پیوٹن سے وَن آن وَن ملاقات ہوئی تھی۔روس اور چین میں دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات کے علاوہ دونوںممالک شنگھائی تعاون کی تنظیم ایس سی او کے بھی رکن ہیں۔
پاکستان اور روس کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات میں فروغ کا عمل ایک عرصے سے جاری ہے اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کی جانب سے خصوصاً تجارت اور اقتصادی تعاون کو وسیع کرنے کیلئے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔حالیہ برسوں میں کیے گئے اقدامات اور بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک سیاسی اور دفاعی شعبوں میں ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں اعلان کیا گیا تھا کہ روس پاکستان کو 20کے قریبMI-35ہیلی کاپٹربیچنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔اگر یہ سودا پورا اترتا ہے تو پاکستان اور روس کے دوطرفہ تعلقات کے علاوہ جنوبی ایشیا کی موجودہ جیو سٹریٹجک صورتِ حال کے حوالے سے بھی یہ ایک بہت اہم اقدام ہوگا کیونکہ1968-69ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ روس کی طرف سے پاکستان کو دفاعی سامان فروخت کیا جائے گا۔1969ء میں جب کوسی جَن روس کے وزیراعظم تھے تو روس نے پاکستان کو ٹینک اور ہیلی کاپٹرفروخت کیے تھے اور ان ہتھیاروں کی پہلی کھیپ پاکستان نے وصول بھی کر لی تھی لیکن بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کی مداخلت کے باعث روس اپنے وعدہ سے مکر گیا تھا اور اس نے پاکستان کو ہتھیاروں کی مزید سپلائی روک دی تھی۔اس وقت جنوبی ایشیا کے بارے میں
روسی پالیسی خطے میں بھارتی مفادات کے زیراثر تھی۔ کیونکہ روس اور بھارت کے باہمی تعلقات بہت گہرے تھے،اور ہتھیاروں کی سپلائی کیلئے روس بھارت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا مگر سرد جنگ کے خاتمے اور1990ء میں سوویت یونین کے شیرازہ بکھرنے کے بعد صورتِ حال یکسر بدل چکی ہے۔اب بھارت اور امریکہ ہر شعبے میں ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور ایشیا بحرالکاہل کے پورے خطے میں امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اجتماعی سلامتی کے جس نظام کو قائم کر رہا ہے،بھارت کو اس میں ایک نمایاں جگہ حاصل ہے۔بھارتی وزیراعظم کے حالیہ دورئہ جاپان،امریکہ اور آسٹریلیاسے یہ منصوبہ واضح طور پر سامنے آگیا ہے۔اس کے ردِعمل میں نہ صرف روس اور چین نے باہمی مشاورت اور تعاون کے عمل کو تیز کر دیا ہے بلکہ وہ خطے میں دیگر ملکوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کرنے کی روسی خواہش اسی عمل کا حصہ ہے۔
اس عمل کو مضبوط بنانے کیلئے روس پاکستان کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو بھی مزید وسیع اور گہرا کرناچاہتا ہے۔پاکستان اور روس کے درمیان ''سٹریٹجک ڈائیلاگ‘‘ کا ایک فورم بھی قائم ہے۔اس کے تحت دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں جن میں توانائی،تیل، گیس کی تلاش،زراعت اور صنعت شامل ہیں ،میں باہمی تعاون کو بڑھانے کیلئے متعدد اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔ گزشتہ ماہ اس فورم کا اسلام آباد میں دوسرا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں شرکت کیلئے روسی ڈپٹی وزیرخارجہ پاکستان تشریف لائے تھے۔
دوطرفہ تعلقات اور علاقائی اجتماعی سلامتی کے علاوہ اور بھی کئی شعبے اور مسائل ہیں جن پر پاکستان اور روس کے درمیان تعاون نہ صرف ممکن بلکہ ضروری ہے۔ان میں افغانستان کا مسئلہ سرِفہرست ہے۔افغانستان محض سیاسی عدم استحکام،طالبان کی یورش اور امریکی نیٹو افواج کے انخلاء سے پیدا ہونے والی غیریقینی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان اور روس کیلئے وجہ تشویش نہیں بلکہ افغانستان میں پیدا ہونے والی منشیات اور ان کی سمگلنگ دونوں ملکوں کیلئے دردِسر کا باعث ہے۔ایک سروے کے مطابق پوری دنیا میں پوست کی90فیصد کاشت افغانستان میں ہوتی ہے۔اس سے تیار ہونے والی افیون اور ہیروئن ہمسایہ ممالک کے ذریعے بیرونی دنیا میں سمگل کی جاتی ہے۔افغانستان،طالبان کی وجہ سے نہیں بلکہ منشیات کی پیداوار کی وجہ سے روس کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔کیونکہ اس کی ایک بہت بڑی مقدار روس میں سمگل ہورہی ہے۔جس سے لاکھوں روسی نوجوان نشے کے عادی بن چکے ہیں۔منشیات کی اس سمگلنگ کو روکنے کیلئے پاکستان اور روس آپس میں تعاون بڑھا رہے ہیں۔
پاکستان اور روس کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر تعلقات اور تعاون کا ہر پاکستانی کی طرف سے خیر مقدم کیاجائے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خطے کی ترقی اور سلامتی کے بارے میں دونوں ملکوں کے نقطہ نظر میں ہم آہنگی میں اضافہ ہورہا ہے۔اور ماضی کے برعکس جنوبی ایشیا کے بارے میں روسی پالیسی،بھارتی ترجیحات کے تابع نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور روس کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر تعاون اور مختلف شعبوں میں قریبی تعلقات،پاکستانی عوام کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔پاکستان سٹیل ملز اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔تیل اور گیس کی تلاش میں روس نے پاکستان کو جو اب تک مدد دی ہے وہ بھی دونوں ملکوں کے درمیان دیرینہ تعاون کو ظاہر کرتا ہے۔اس کے علاوہ شاید بہت کم پاکستانی اس سے واقف ہوں گے کہ اپنے ابتدائی دِنوں میں جب پاکستان ہیضے کی ایک مہلک وبا ء کا شکار ہواتھا،تو روس نے پاکستانی عوام کی مدد کیلئے ڈاکٹرز کا ایک گروپ بھیجا تھا۔اس وقت پاکستان امریکہ کا اتحادی نہیں تھا۔1950ء کی دہائی میں سیٹو(SEATO) اور معاہدہ بغداد (بعد میںسینٹوSENTO)میں پاکستان کی شمولیت سے روس اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات کے قیام کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔اس کی بجائے روس اور بھارت ایک دوسرے کے قریبی اتحادی بن گئے جس کا حق ادا کرنے کیلئے روس نے ہر بین الاقوامی فورم پر خصوصاً اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی موقف کی مخالفت شروع کر دی۔ لیکن اب حالات بدل چکے ہیں اور امید ہے کہ بدلے ہوئے حالات کے پیشِ نظر روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہوگا جو کہ نہ صرف دونوں ملکوں کے مفاد بلکہ پورے خطے کے استحکام،سلامتی اور خوش حالی کیلئے مفید ہے۔