نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقد ہونے والی ''سارک‘‘ کی سربراہی کانفرنس کے نتائج سے پوری طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ جنوبی ایشیاء کے آٹھ ممالک کی اس تنظیم برائے علاقائی تعاون کی ترقی اور کامیابی کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان صلح اور امن کتنا ضروری ہے۔ دنیا کے اس خطے میں جہاں عالمی آبادی کا پانچواں حصہ رہائش پذیر ہے‘ پاکستان اور بھارت آبادی کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ معاشی طور پر بھی خطے کے سب سے بڑے اور نسبتاً ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ دونوں ایٹمی قوتیں بھی ہیں لیکن ہمسایہ ہونے کے باوجود دونوں کے دوطرفہ تعلقات کشیدہ رہتے ہیں جس کی وجہ سے ''سارک‘‘ کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا‘ حالانکہ اس تنظیم کے تمام اراکین علاقائی تعاون کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر وہ غربت‘ پسماندگی‘ بے روزگاری‘ خوراک اور توانائی کی کمی جیسے مسائل پر قابو نہیں پا سکتے مگر پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے علاقائی تعاون برائے ترقی کا یہ عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کی دیگر تنظیموں مثلا ''آسیان‘‘ اور ''یورپی یونین‘‘ کے مقابلے میں ''سارک‘‘ بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ کسی بھی علاقائی تنظیم کی کامیابی کا اندازہ اس تنظیم کے اراکین کے مابین تجارت کے حجم سے لگایا جاتا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک کی باہمی تجارت کا حجم ان کی کل عالمی تجارت کا 35 فیصد ہے اور آسیان کے رکن ممالک کی آپس میں تجارت کا حجم 25 فیصد ہے جبکہ ''سارک‘‘ ممالک کی باہمی تجارت 5 فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ حالانکہ اس تنظیم کے قیام کو 30 برس ہونے کو ہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم تعاون ہے۔ ''سارک‘‘ کے رکن ممالک بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ''سارک‘‘ کی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے تو نہ صرف سب کی نظریں پاکستان اور بھارت کے رہنمائوں کے درمیان ملاقات کے امکانات پر ہوتی ہیں بلکہ اسے ممکن بنانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جاتی ہے۔ حالانکہ ''سارک‘‘ کے چارٹر کے تحت دوطرفہ متنازع مسائل پر بات چیت نہیں ہو سکتی لیکن چونکہ ماضی میں ''سارک‘‘ سربراہی کانفرنسوں کے سالانہ انعقاد کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے رہنمائوں کے درمیان ملاقات سے بڑے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں‘ اس لیے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک خصوصاً مہمان ممالک کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے پاکستانی اور بھارتی رہنمائوں کے درمیان کانفرنس کے باقاعدہ اجلاس سے ہٹ کر غیر رسمی ملاقات ہو جائے۔ ماضی میں اس قسم کی ملاقاتوں سے دونوں ممالک کے درمیان جاری ڈیڈلاک ختم کرنے میں بہت مدد ملی ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال 2004ء میں اسلام آباد میں ہونے والی ''سارک‘‘ کی بارہویں سربراہی کانفرنس کے موقع پر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور پاکستان کے صدر پرویز مشرف کے درمیان ملاقات ہے۔ اس ملاقات کے نتیجے میں دونوں رہنمائوں نے 6 جنوری کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا جس کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر متنازعہ امور پر بات چیت کا سلسلہ اور قیام امن کا عمل شروع ہوا۔ دوسری مثال مالدیپ کے دارالحکومت ''مالے‘‘ میں پاکستانی وزیراعظم نوازشریف اور اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اندرکمار گجرال کے درمیان ہونے والی ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان 4 سال کے متواتر تعطل کے بعد مذاکرات کا آغاز ہوا۔ فروری 1999ء میں واجپائی کا دورۂ پاکستان اور اعلانِ لاہور کا اجرا ان ہی مذاکرات سے پیدا ہونے والی گرمجوشی اور خوشگوار فضا کا نتیجہ تھا۔
لیکن اس دفعہ کٹھمنڈو میں وزیراعظم نوازشریف اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی نے کانفرنس کے اختتامی لمحات میں مصافحہ تو کیا لیکن جس ملاقات کی توقع تھی یا جس کے لیے پس پردہ کوششیں کی جا رہی تھیں وہ نہ ہو سکی۔ اس کی وجہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر آئے دن کے فائرنگ کے واقعات اور ان کے نتیجے میں دونوں طرف جانی اور مالی نقصانات کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس کشیدگی کو دور کرنے کے لیے دونوں ملک جنوبی ایشیا سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے خواہاں حلقوں کی طرف سے بات چیت کے لیے دبائو میں ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے رہنمائوں کے بیانات سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بات چیت کے حق میں ہیں لیکن بات چیت کا آغاز کیسے ہو۔ اس ضمن میں پاکستان کا اصرار ہے کہ پہل بھارت کی طرف سے ہو کیونکہ پاکستان نے خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزشتہ مئی میں دونوں ملکوں کے درمیان خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر بات چیت کی راہ ہموار کی تھی اور اس مقصد کے لیے وزیراعظم نوازشریف‘
بھارتی وزیراعظم کی رسمِ حلف برداری کے موقع پر نئی دہلی بھی تشریف لے گئے تھے۔ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں فیصلہ ہوا تھا کہ تعطل کا شکار مذاکراتی عمل جلد شروع کیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹری ملاقات کر کے ایجنڈا تیار کریں گے لیکن جولائی میں بھارت نے اچانک اور یک طرفہ طورپر خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر بات چیت کو منسوخ کردیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے کٹھمنڈو میں ''سارک‘‘ سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے وقت ایک بیان میں بالکل درست کہا ہے کہ خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا فیصلہ نئی دہلی میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ملاقات میں کیا گیا تھا۔ اس فیصلے کو بھارت‘ پاکستان کی رضامندی کے بغیر یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کر سکتا تھا۔ اُن کا موقف ہے کہ بھارت کا یہ اقدام مروجہ سفارتی آداب کے خلاف ہے‘ اس لیے اب بات چیت کے لیے بھارت کو پہل کرنی چاہیے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے‘ وزیراعظم نوازشریف کے بیان کے مطابق پاکستان اس کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ دوسری طرف بھارتی رہنمائوں‘ جن میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرخارجہ سُشما سوراج بھی شامل ہیں‘ نے بھی متعدد مواقع پر اپنے بیانات کے ذریعے یہ عندیہ دیا ہے کہ بھارت بھی پاکستان کے ساتھ اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے بات چیت کے حق میں ہے لیکن اس کے لیے اس کی طرف سے کچھ شرائط عائد کی جا رہی ہیں۔ دہشت گردی کے معاملات کے علاوہ بھارت کا اصرار یہ بھی ہے کہ 2008ء
میں ممبئی میں کی گئی دہشت گردی میں مبینہ طور پر ملوث جماعت الدعوۃ کے رہنمائوں کو سزا دی جائے۔ شرائط کی وجہ ہی سے مذاکراتی عمل بدستور تعطل کا شکار ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ پاک بھارت مذاکرات کی تاریخ سے جو چند ایک اہم سبق حاصل کیے جا سکتے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ پیشگی شرائط سے یہ عمل کبھی آگے نہیں بڑھا۔ اس کی مثال 1994ء سے 1997ء تک جاری رہنے والا تعطل ہے جس کی واحد وجہ یہ تھی کہ بھارت کی طرف سے یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ وہ کشمیر کے علاوہ ہر مسئلے پر بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن 1997ء میں جب وہ دیگر مسائل کے ساتھ کشمیر پر بھی بات چیت پر راضی ہوا تو پاک بھارت دوطرفہ بات چیت پھر سے شروع ہوگئی۔ دوسری مثال 2001ء میں آگرہ سربراہی کانفرنس کی ناکامی کی صورت میں ہے۔ مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے بھارت کی طرف سے یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ پہلے پاکستان اس بات کی ضمانت دے کہ وہ اپنی سرزمین کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ پاکستان اس کے لیے تیار تھا لیکن اس کے جواب میں اس کا مطالبہ تھا کہ بھارت کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلہ قرار دے کر اس پر بات چیت کے لیے آمادہ ہو۔ بالآخر 2004ء میں اسلام آباد میں ''سارک‘‘ سربراہی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم واجپائی اور صدر مشرف کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان دونوں مسائل پر بیک وقت بات چیت ہوگی اور یوں 2004ء میں پاک بھارت کمپوزٹ ڈائیلاگ اور پیس پروسیس کا آغاز ہوا۔ اس لیے اگر دونوں ممالک باہمی بات چیت کو اپنے اپنے ملک اور خطے کے مفاد کے لیے سودمند اور ضروری سمجھتے ہیں تو بغیر کسی پیشگی شرط کے اسے شروع کر دینا چاہیے۔