سالِ رواں کے آخر تک افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج نکل جائیں گی۔ اس سلسلے میں پیر8 دسمبر کو کابل میں تقریب ہوئی جس میں ایساف کے کمانڈروں نے باضابطہ طور پر اپنے مشن کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے دفاع اور سلامتی سے متعلقہ تمام اختیارات افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیئے۔ اگرچہ 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں 13000 جوانوں اور افسروں پر مشتمل امریکہ اور نیٹو فورسز کا ایک فوجی دستہ افغانستان میں رہے گا‘ لیکن اس کے کام اور فرائض کی نوعیت مختلف ہوگی۔ یہ جنگی ماہرین ہوں گے جو افغان نیشنل آرمی اور افغان پولیس کے جوانوں کو تربیت دیں گے یا جنگی حکمت عملی کی تشکیل میں ماہرانہ مشورہ فراہم کریں گے؛ تاہم عملی طور پر افغانستان میں امریکہ کا جنگی کردار ختم ہو چکا۔ اب ملک میں سلامتی کو یقینی بنانے اور امن و امان کے قیام کی ذمہ داری افغان سکیورٹی فورسز کے سر ہے۔
افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی یہ واپسی تیرہ برس کے بعد عمل میں آ رہی ہے۔ 8 اکتوبر 2001ء کو بحیرہ عرب میں مقیم طیارہ بردار جہازوں سے اُڑ کر امریکی طیاروں نے افغانستان پر بمباری کا آغاز کیا تھا۔ اس وقت افغانستان پر ملا عمر کی قیادت میں طالبان کی حکومت تھی۔ تقریباً 2 ماہ میں طالبان کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر امریکہ نے شمالی اتحاد کی فوجوں سے مل کر ملا عمر اور طالبان حکومت کے دیگر عہدیداروں کو افغانستان سے پسپا ہونے پر مجبور کردیا اور ان کی جگہ ایک بین الاقوامی معاہدہ کے تحت حامد کرزئی کی حکومت قائم کردی۔
افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی اور اس کی واپسی کے درمیان تیرہ برس کی داستان کئی پیچ و خم‘ اہم واقعات اور تلخ حقیقتوں سے بھری پڑی ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کی مداخلت کی اصل وجہ نائن الیون کے دہشت گردی کے واقعات ہیں۔ لیکن یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو معلوم نہ ہوگی کہ امریکہ ابتدا میں افغانستان پر حملے سے ہچکچا رہا تھا کیونکہ اس کے سامنے روس اور اس سے پہلے برٹش انڈیا کی عبرتناک مثالیں موجود تھیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ جنرل کولن پاول نے بھی‘ جو اپنے ملک کے جائنٹ چیف رہ چکے تھے‘ افغانستان میں فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی۔ اسی لیے افغانستان پر امریکی حملہ 9/11 کے ایک مہینے کے بعد شروع ہوا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ حملہ کرنے سے قبل امریکہ نے افغانستان کی حکمران جماعت یعنی طالبان کے کچھ رہنمائوں کو خرید کر ملا عمر کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سابق صدر مشرف نے افغانستان پر امریکی حملہ روکنے کی پوری کوشش کی اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ملا عمر کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کردیں لیکن ملا عمر نے صاف انکار کردیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق ملا عمر اس بات پر آمادہ ہو گئے تھے کہ اسامہ بن لادن کو کسی تیسرے فریق کے حوالے کردیا جائے جہاں امریکہ اس کے خلاف ثبوت پیش کر کے مقدمہ چلا سکتا تھا لیکن طاقت کے نشہ میں چور سابق صدر بش نے افغانستان پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔
افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد صدر بش اس زعم میں مبتلا تھے کہ افغانستان سے طالبان کا بڑی جلدی اور مکمل طور پر صفایا کر دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بش دور میں افغانستان میں لڑنے والی امریکی افواج کی تعداد ابتدا میں صرف دس ہزار تھی۔ افغانستان کے مقابلے میں بش نے عراق میں صدام حسین کا قلع قمع کرنے کے لیے کئی گنا افواج اور وسائل جھونک دیئے تھے۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق تھا‘ صدر بش کا خیال تھا کہ اس کے لیے پاکستان ہی کافی ہے کیونکہ جنرل مشرف نے نہ صرف پاکستان کی فضا کو امریکی ہوائی حملوں کے لیے اجازت دی تھی بلکہ افغانستان میں لڑنے والی نیٹو افواج کی رسد کے لیے زمینی راستے بھی فراہم کیے تھے۔ اس کے عوض مشرف دور میں اربوں ڈالر بھی پاکستان کو ادا کیے گئے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ افغانستان کے گرد سے بھرے پڑے میدانوں‘ سنگلاخ پہاڑی چوٹیوں اور گھنے جنگلوں میں لڑنے کے لیے امریکی سپاہی کو بھیجنے کی بجائے پاکستان کو ڈالر دے کر کام چلایا جا سکتا ہے مگر یہ اس کی صریح غلطی تھی‘ جس کا اسے جلد ہی احساس ہو گیا۔
سابق صدر بش کے جانشین اور موجودہ صدر بارک اوباما عراق پر امریکی حملے کو غیر ضروری بلکہ غلطی سے تعبیر کرتے تھے اور افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ کی فوجی کارروائی کو نہ صرف امریکہ کی قومی سلامتی بلکہ پوری مغربی دنیا کے دفاع کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے چھ سال قبل اقتدار سنبھالتے ہی صدر اوباما نے جہاں ایک طرف عراق کے کمبل سے امریکہ کو خلاصی دلانے کی کوششیں شروع کردیں‘ وہاں انہوں نے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ تیز کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ امریکی فوجی افغانستان کی جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کا عمل شروع کردیا۔ ان کے عہد میں افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار تک پہنچ گئی؛ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ فوجی طاقت کے بل بوتے پر طالبان کو مکمل طور پر شکست دی جا سکتی ہے لیکن انہیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے اور آخر 2009ء کے آخر میں امریکہ نے نہ صرف طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے افغانستان کے بحران کو ختم کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا بلکہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے اخراج کے لیے 2014ء کی حد بھی مقرر کردی۔
افغانستان میں لڑنے والے امریکی جرنیل‘ صدر اوباما کے اس فیصلے کے خلاف تھے اور انہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے اخراج کی تاریخ مقرر کرنے کی بجائے طالبان کے خلاف مزید امریکی افواج کا مطالبہ کردیا لیکن صدر اوباما نے اپنے جرنیلوں کا مطالبہ ماننے کی بجائے نہ صرف 2014ء کے سال کو افغانستان سے امریکی افواج کے اخراج کے سال کی حیثیت سے برقرار رکھا بلکہ افغانستان میں اتحادی افواج کی تعداد کم کرتے ہوئے انہوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع کی جانے والی بات چیت کا یہ سلسلہ اگرچہ آگے نہ بڑھ سکا لیکن صدر اوباما 2014ء کے ختم ہونے تک افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے فیصلے پر قائم رہے۔ اس طرح جہاں صدر بش نے اپنی حماقت اور رعونت کے باعث امریکہ کو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں الجھا دیا تھا‘ صدر اوباما اس لحاظ سے تاریخ میں یاد رہیں گے کہ انہوں نے اپنی فراست اور دوراندیشی کے باعث نہ صرف امریکہ کو دو غیر منصفانہ جنگوں سے باہر نکالا بلکہ ہزاروں جانوں کو بچا کر انسانیت پر بھی احسان کیا۔
اگرچہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی سے پیدا ہونے والے حالات کے بارے میں متعدد خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں اور خطرہ ہے کہ افغانستان کہیں پھر خوفناک خانہ جنگی کی لپیٹ میں نہ آ جائے‘ امریکی اور نیٹو ا فواج کی واپسی سے اس خطے کی سیاست پر مثبت اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ افغانستان کے عوام خطے کے دوسرے ممالک کے عوام کے ساتھ مل کر نئے مستقبل کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔