فلسطینی عرب گزشتہ 66برس سے زائد عرصہ سے تاریخ کی بدترین بے انصافی اور ظلم کا شکار چلے آرہے ہیں۔ بین الاقوامی قانون اور انصاف کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے1948ء میں فلسطین کو تقسیم کر کے یہودی ریاست اسرائیل قائم کی گئی۔اْس وقت سے آج تک لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی بے وطن زندگی گزار رہے ہیں۔اگرچہ 1988ء میں یاسر عرفات کی قیادت میں پی ایل او(Palestinian Liberation Organization)نے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا اور 1993ء میں طے پانے والے اوسلو معاہدہ کے تحت 1994ء سے غزہ اور دریائے اْردن کے مغربی کنارے پر مشتمل محدود اختیارات کی مالک فلسطینی اتھارٹی بھی قائم ہے۔ لیکن فلسطینی عوام ابھی تک ایک آزاد اور خود مختار ریاست سے محروم ہیں۔اْن کے اس بنیادی حق کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل ہے، لیکن فلسطینیوں کے حقوق سلب کرنے اور اْنہیں بدترین ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کی ذمہ داری محض اسرائیل پر عائد نہیں ہوتی،اْسے ہر سال اربوں ڈالر کی امداد دینے والا امریکہ اور اْس کے یورپی اتحادی اس ناانصافی میں برابر کے شریک ہیں۔تاہم اب عالمی سیاسی فضا تبدیل ہورہی ہے۔بین الاقوامی سطح پر ایک الگ،آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے حمایت میں اضافہ ہورہا ہے۔اس کی تازہ ترین اور انتہائی اہم مثال فرانس کی پارلیمنٹ میں فلسطینی ریاست کے حق میں منظور ہونے والی قرارداد ہے۔گذشتہ دوماہ میں پانچ اہم یورپی ممالک یعنی برطانیہ،آئرلینڈ،سپین،سویڈن اور فرانس کے قانون سازاداروں میں فلسطینی ریاست کے حق میں قراردادیں منظور کی جاچکی ہیں، جن میں ان ممالک کی حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ عرب اسرائیل تنازع کے جلد حل اور مشرقِ وسطیٰ میں دیرپا امن کے قیام کی خاطر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں۔
اس وقت تک اقوام متحدہ کے 193رْکن ممالک میں سے 135فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔دوبرس قبل 2012ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینی ریاست کو ایک نان ممبر آبزرور سٹیٹ کا درجہ دینے کے حق میں قرارداد منظور کی تھی۔جن پانچ ممالک نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا اْن میں امریکہ بھی شامل تھا،لیکن امریکہ کی یہ روش فلسطینی ریاست کے حق میں اْٹھنے والی لہر کو نہ دباسکی اور مزید کئی ممالک میں بھی منتخب نمائندوں نے اپنی اپنی حکومتوں پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر زور دینا شروع کردیا۔گذشتہ ماہ یورپی پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر بحث ہوئی۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے متعدد اراکین نے رائے دی کہ یورپی یونین کو فلسطینی ریاست تسلیم کر لینی چاہیے کیونکہ اس طرح مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن میں مدد ملے گی۔یورپی یونین کے رکن دیگر تمام ممالک کے مقابلے میں فرانس کی پارلیمنٹ میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں جو قرارداد منظور ہوئی ہے ،وہ کئی لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ایک یہ کہ قرارداد کے حق میں غیر متوقع طور پر بھاری ووٹ ڈالے گئے۔قرارداد کے حق میں 399اور مخالفت میں151اراکینِ پارلیمنٹ (ایوانِ زیریں)نے حصہ لیا۔دوسرے فرانس یورپ کا ایک ایسا ملک ہے جہاں تمام یورپ کے مقابلے میں مسلمانوں اور یہودیوں کی سب سے زیادہ تعداد آباد ہے۔فرانسیسی انتخابات میں مسلمانوں، جن کا تعلق زیادہ تر شمالی افریقہ کے ممالک الجیریا،تیونس اور لیبا سے ہے،کے ووٹ کی بڑی اہمیت ہے۔غزہ پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کے دوران میں جب فرانس کے صدر فرانکوا ہالینڈ نے اسرائیل کی حمایت میں بیان دیا ،تو فرانس کی مسلمان آبادی کی طرف سے سخت غم و غصہ کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1960ء کی دہائی میں صدر ڈیگال کے دور سے مشرقِ وسطی اور خصوصاً عرب اسرائیل تنازع کے بارے میں فرانس کی پالیسی معتدل بلکہ امریکی پالیسی سے ہٹ کر عربوں کی طرف مائل رہی ہے۔1988 ء میں فرانس کے ایک سابق صدر متراں نے یاسر عرفات کو فرانس کا دورہ کرنے کی دعوت دے کر پورے یورپ کی یہودی آبادی اور اسرائیل کو اپنے خلاف کر لیاتھا، لیکن نپولین کے زمانے سے قائم مشرق وسطیٰ سے اپنے تاریخی تعلقات کے باعث عربوں کے بارے فرانسیسی خارجہ پالیسی نسبتاً زیادہ ہمدردانہ بنیادوں پر قائم چلی آرہی ہے۔قرارداد کے منظور ہونے سے فرانس کی خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی،لیکن اس کی اہمیت خواہ وہ علامتی ہی سہی ،بہت زیادہ ہے کیونکہ یکے بعد دیگرے یورپی ممالک میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں قراردادوں کی منظوری،یورپی سیاست اور خارجہ پالیسی میں ایک نئے رجحان کو ظاہر کرتی ہے۔
اس کی کیا وجوہ ہیں؟اسرائیلی نقطہ نظر سے اس رجحان کے پس پردہ یورپ کی روایتی اور تاریخی صیہونیت دشمنی ہے ،لیکن یورپی اخبارات اور سیاسی حلقوں کی رائے میں غزہ میں اسرائیل کی طرف سے شہری آبادی کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی ، فلسطین میں دو ریاستوں پر مبنی بات چیت کی ناکامی اور دریائے اْردن کے مغربی کنارے میں فلسطینی علاقوں پر زبردستی قبضہ کر کے نئی یہودی بستیاں بسانے کے
اسرائیلی اقدام نے یورپی عوام کی رائے عامہ کو اسرائیل کے خلاف کردیا ہے۔گزشتہ ماہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں اسرائیل کی طرف سے دریائے اْردن کے مغربی کنارے پر فلسطینیوں کو اْن کے گھروں اور زمینوں سے زبردستی بے دخل کر کے نئی یہودی بستیاں بسانے کے اقدام کی سخت زبان میں مذمت کی گئی تھی۔عوام اور اْن کے منتخب نمائندوں کی طرف سے یورپی ممالک پر فلسطینی سیاست کو تسلیم کرنے کیلئے دبائو میں اضافہ ہورہا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ15دسمبر کو سٹراسبرگ میں اپنے ایک عام اجلاس میں یورپی پارلیمنٹ نے پہلی مرتبہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر باضابطہ بحث کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اْمید ہے کہ اس اجلاس کے بعد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی مہم میں تیزی آئے گی اور عین ممکن ہے کہ مزید یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کرنے کا اعلان کردیں۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور غیر لچکدار رویے میں تبدیلی آجائے گی؟اگر ہم عرب اسرائیل تنازع کی گزشتہ چھ دہائیوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس کا امکان کم نظر آتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یورپ کے طول وعرض میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں اْٹھنے والی لہر بے اثر رہے گی۔اس رجحان نے مسئلہ فلسطین میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔شام اور عراق میں ''داعش ‘‘ کی پیش قدمی اور عرب دنیا کے تقریباً تمام حصوں میں بنیاد پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے یورپی ممالک کو فلسطینی عربوں کو اپنے سینے سے لگانے پر مجبور کردیا ہے کیونکہ فلسطینی عرب مسلمان ضرور ہیں مگر انتہا پسند نہیں۔اگر یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی سمت دوچار قدم آگے بڑھتے ہیں تو غزہ میں''حماس‘‘اور لبنان میں''حزب اللہ‘‘کے ساتھ بھی اْن کے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔اگر یہ سلسلہ چل نکلے تو اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطی میں بڑی جیو سٹرٹیجک تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں،کیونکہ اس سے یورپی ممالک اور ایران کے درمیان تعلقات میں اور بھی قْربت آئے گی۔مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے کردار اور اْس کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہوگا۔اس سے امریکہ اور سعودی عرب کے اثرورسوخ اور حالات کو اپنی مرضی کی سمت میں لے جانے کی اْن کی صلاحیت میں کمی آئے گی۔اس سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے سیاسی دورکا آغاز ہوسکتا ہے۔
ویسے بھی دیکھا جائے تو گزشتہ تقریباً دو دہائیوں میں یورپی ممالک نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ دوطرفہ اور کثیرالجہت بنیادوں پر تعلقات میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔امریکہ روس اور چین کے ساتھ یورپی یونین اور جرمنی اْس کنٹیکٹ گروپ(Contact Group)میں شامل ہیں، جو عربوں اور اسرائیلیوں کے درمیان اختلافات کم کر کے مسئلہ مشرقِ وسطی کے ایک دیرپا اور منصفانہ حل کی کوشش کررہا ہے۔سردجنگ کے خاتمے سے جہاں اور بہت سی تبدیلیاں رْونما ہوئیں اْن میں اہم یورپی ممالک مثلاََ جرمنی،اٹلی اور فرانس کی طرف سے مشرقِ وسطی کے ممالک کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کی دوبارہ بحالی کی کوششیں بھی شامل ہیں۔مثلاََ جرمنی کی طرف سے ایران کے ساتھ اور فرانس کی طرف سے شام اور لبنان کے ساتھ ازسرِ نو تعلقات کے قیام کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مشرقِ وسطیٰ خصوصاً عرب اسرائیل تنازع پر امریکی اور یورپی ممالک کی پالیسیاں ایک دوسرے کی مخالف سمت میں جارہی ہیں؟۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس خطے کے بارے میں امریکی اور یورپی ممالک کی پالیسیاں ایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں۔فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں یورپ میں اس وقت جو غالب رجحان جاری ہے،وہ اس دْوری کو ظاہر کرتا ہے۔