اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین یواین ایچ سی آر کی پاکستان میں نمائندہ مسز امیرا ٹنگا نے کچھ روز قبل کوئٹہ میں ایک بیان کے ذریعے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو زبردستی واپس افغانستان نہ بھیجے کیونکہ وہاں کے حالات ابھی تک خراب ہیں، ان کی جان و مال کو خطرہ ہے۔ اْنہوں نے یہ بھی کہا کہ اْن کا ادارہ شروع سے ہی افغان مہاجرین کی واپسی میں حکومت پاکستان کو مدد فراہم کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ افغان مہاجرین جنہیں پاکستان میں رہتے ہوئے تیس برس ہونے کو ہیں، نہ صرف عزت و وقار کے ساتھ بلکہ ایسے ماحول میں واپس جائیں کہ اْن کی جان و مال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ مسز امیرا ٹنگاکے بیان کا سیاق و سباق یہ ہے کہ 16دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے جن اقدامات کا مطالبہ کیا جارہا ہے، اْن میں افغان مہاجرین کی واپسی بھی شامل ہے کیونکہ ایک عرصہ سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں رہنے والے افغان مہاجرین کی صفوں میں دہشت گرد گھس آئے ہیں جن کی ملک میں موجودگی یا بلا روک ٹوک نقل و حرکت ، امن و امان کے نقطہ نظر سے خطرے کا باعث ہے۔ ہر طرف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ان مہاجرین کو واپس اْن کے گھروں کو لوٹا دیا جائے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ کرنے والوں میں کے پی کے کی حکومت بھی شامل ہے۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے تو صوبے میں بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورتِ حال اور آئے دن دہشت گردی کی وارداتوں کی ذمہ داری افغان مہاجرین پہ ڈال دی ہے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کی فوری واپسی کا اہتمام کرے۔اس کے علاوہ بلوچستان سے بھی افغان مہاجرین کی واپسی کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کے کارکنوں نے چند روز پیشتر کوئٹہ میں افغان مہاجرین کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کی مذمت کی اوراْنہیں فوری طور پر واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا ۔ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ ہماری سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی افغان مہاجرین اور غیر قانونی رہائش پذیر افغان باشندوں کے خلاف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ان باشندوں کے نہ صرف بینک اکائونٹس کی پڑتال کی جارہی ہے؛ بلکہ اسلام آباد کے قرب و جوار میں مقیم افغان باشندوں کو جن میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی شامل ہیں،حر است میں لے لیا گیا ہے۔
یو این ایچ سی آر کی جانب سے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کیا گیا کیونکہ اس ادارے کا کام ہی دنیا بھرمیں مہاجرین کی دیکھ بھال اور ان کے قانونی حقوق ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے دہشت گردی کی بیخ کنی کے لئے جو20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان منظور کیا ہے اْس میں بھی افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس وقت پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 16لاکھ ہے۔اگر غیر رجسٹرڈ مہاجرین کو بھی شامل کر لیا جائے توان کی تعداد تیس لاکھ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ اگرچہ جنرل ضیاء الحق کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے تحت افغان مہاجرین پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن اب بھی ان کی زیادہ تعداد کے پی کے اور بلوچستان میں مقیم ہے۔ اگرچہ ان کے لئے دونوں صوبوں میں کیمپ قائم کیے گئے ہیں لیکن ایک سروے کے مطابق صرف37فیصد افغان مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں، باقی صوبے کے چھوٹے بڑے شہروں میں رہتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب ان افغان مہاجرین کے استقبال کے لئے حکومت پاکستان اور بعض سیاسی پارٹیوں نے اپنی بانہیں کھول رکھی تھیں اور آنکھوں کو فرش راہ بنا رکھا تھا۔ یہ وقت تھا روس کی طرف سے افغانستان پر حملے کا۔ یہ درست ہے کہ کسی ملک میں جب بھی جنگ اور فساد کی صورت پیدا ہو، شہری آبادی کو مجبوراً نقل مکانی کرنی پڑتی ہے اور اْن کی منزل ہمیشہ ہمسایہ ممالک بنتی ہے۔ جب روسی قبضے کے خلاف افغانستان میں مسلح مزاحمت نے زور پکڑا تو افغانستان سے لاکھوں کی تعداد میں شہری پاکستان اور ایران میں داخل ہوگئے کیونکہ ان دونوں ممالک نے انسانی ہمدردی کے تحت افغانستان سے ملنے والی اپنے ملکوں کی سرحدیں کھول دی تھیں؛تاہم ایران کے مقابلے میں پاکستان میں داخل ہونے والے افغان مہاجرین کی تعداد زیادہ تھی۔ اس کی تین بڑی وجوہ تھیں۔۔۔۔۔ایک تو ہجرت کرنے والے افغان زیادہ تر پشتون تھے جن کے لئے پاکستان میں رہنے والے پشتون بھائی کافی مدد گار ثابت ہوسکتے تھے۔ دوسرے بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ کی جانب سے ان مہاجرین کو جو پاکستان میں مقیم تھے، وسیع پیمانے پر امداد فراہم کی جارہی تھی جس میں خورونوش کے سامان کے علاوہ کپڑے،خیمے،کمبل او رنقد امداد شامل تھی۔ افغان مہاجرین کو اس فراخ دلانہ امداد کی بنا پر دنیا کے سب سے زیادہ مراعات یافتہ مہاجرین کہا جاتا تھا۔ تیسرے، پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت تھی جس نے اپنے اقتدارکے تحفظ کے لئے انہیں استعمال کرنے کی پالیسی اختیار کی۔ اس پالیسی کے تحت جنرل ضیاء الحق نے افغان
مہاجرین کو سرحدی علاقوں یا کیمپوں تک محدود کرنے کے بجائے پورے ملک میں پھیل جانے کا موقع فراہم کیا؛ بلکہ اپنی حامی مذہبی سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے تینوں دھڑوں کو مہاجرین میں بیرونی امداد تقسیم کرنے پر مامور کر دیا۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو جو تقویت حاصل ہوئی اور انتہا پسندی کو جو فروغ ملا، وہ اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں آنے والے افغان مہاجرین کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ملک کے کئی حصوں کی سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالت میں نمایاں تبدیلی نظر آنے لگی۔ چونکہ ان کی بھاری تعداد پختونخوا (سابق صوبہ سرحد)اورفاٹا میں آباد تھی اس لیے پاکستان کا یہ صوبہ اور قبائلی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ فاٹا کے بعض علاقے فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہونے لگے کیونکہ ان مہاجرین نے مقامی تنازعات میں حصہ لنیا شروع کر دیا ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں مہاجرین کی آمد اور آباد کاری سے ماحولیات اور معیشت پر بہت بْرا اثر پڑا۔ صوبے کے جنگلات کو بے دریغ طریقے سے کاٹا گیا، چراگاہیں ویران ہوگئیں، لیبر مارکیٹ میں مسابقت بڑھ گئی،کئی کاروبار مقامی لوگوں کے ہاتھوں سے نکل گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان مہاجرین نے مقامی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا جس سے مقامی آبادی میں ان کے خلاف جذبات فروغ پانے لگے، لیکن چونکہ مہاجرین کو حکومت کی نہ صرف سرپرستی حاصل تھی بلکہ اْنہیں پورے ملک میں گھومنے پھرنے کی بھی اجازت تھی اس لیے مقامی آبادی بے بس تھی۔ جب ضیاء دور اختتام پذیر ہوا اور افغانستان سے روسی فوجیں واپس چلی گئیں تو ان افغان مہاجرین کی واپسی کے بھی مطالبات اْٹھنے لگے۔1988ء میں افغانستان میں روسی مداخلت ختم
کرنے کے متعلق جن جنیوا معاہدات پردستخط کیے گئے تھے اْن میں بھی افغان مہاجرین کی واپسی کی شق شامل تھی۔ اس پر عمل درآمد کے لئے اقوام متحدہ نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے پروگرام کا آغاز کیا جس کے تحت واپس جانے والے مہاجرین کے خاندانوں کو رقوم فراہم کی جاتی تھیں۔ بہت سے افغان مہاجرین واپس چلے گئے لیکن افغانستان میں خانہ جنگی اور اقتصادی زبوں حالی کی وجہ سے ان کی واپسی کا عمل نہ صرف رْک گیا ؛ بلکہ کئی خاندان واپس پاکستان آ گئے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کی واپسی پر اصرار کیا جارہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب ان کے لئے وسیع بین الاقوامی امداد بند ہوچکی ہے اور ان کا سارا بوجھ پاکستان کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ دوسرے، ان مہاجرین کی متواتر موجودگی مختلف سماجی مسائل کا باعث بن رہی ہے۔ ان میں منشیات کی فروخت،اغواء برائے تاوان اور دہشت گردی کی وارداتیں بھی شامل ہیں۔
لیکن افغان مہاجرین کی واپسی میں اصل رکاوٹ افغانستان کے اندرونی حالات ہیں جو ابھی تک ابتر ہیں۔ اگر پاکستان ان افغان مہاجرین کو زبردستی سرحدوں کی طرف دھکیلتاہے یا دہشت گردی کے خلاف مہم کی آڑ میں ان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کرتا ہے تو نہ صرف حکومت پاکستان کو ان مہاجرین کی طرف سے رد عمل کا سامناکرنا پڑے گا بلکہ اقوام متحدہ کی طرف سے تنقید کے علاوہ موجودہ افغان حکومت کی ناراضگی بھی مول لینا پڑے گی اور افغانستان کے ساتھ ہماری کشیدگی میںجو تھوڑی بہت کم ہوئی ہے وہ بھی متاثر ہوگی۔ اس کے علاوہ افغان مہاجرین نے پاکستان میں اپنے طویل قیام کے دوران یہاں کاروبار قائم کر رکھے ہیں اْنہیں عجلت میں یہاں سے بھیجنانہ صرف دہشت گردی کے خلاف قومی پلان کو متاثر کرسکتا ہے بلکہ ہمارے طویل المیعاد قومی مفادات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔