جب 2010ء میں بھارت کے پہلے دورے کے موقعہ پر امریکی صدر بارک اوباما سے پاکستان کو شامل نہ کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر اسلام آباد کا الگ دورہ کرنے کے خواہشمند ہیں لیکن ان کے پاکستان کے دورے کی نوبت نہ آئی۔ اب یہ ان کا دوسرا دورئہ بھارت ہے۔ لیکن اس دفعہ بھی وہ بھارت میں تین دن قیام کے بعد سیدھے واپس واشنگٹن سدھار جائیں گے۔ صدر اوباما اب تک 48ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں۔ان میں اہم ایشیائی ممالک بھی شامل ہیں۔ پچھلے برس انہوںنے آسٹریلیا، چین، جاپان، ملائشیا، برما، افغانستان،جنوبی کوریااور فلپائن کا دورہ کیا تھا‘ لیکن پاکستان نہ آسکے۔حالانکہ پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ایک اہم حلیف ہے،بلکہ افغانستان میںتیرہ برس تک برسرِپیکار امریکی اور نیٹو افواج کی رسد اور کمک فراہم کرنے کیلئے زمینی راستے بھی فراہم کرتا رہا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان'' سٹرٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کا رشتہ بھی قائم ہے۔اور دوطرفہ بنیادوں پر ایڈ اور ٹریڈ کے شعبوں میں اہم تعلقات ہیں۔ پاکستان میں مختلف حلقوں کی طرف سے یہ سوال بار بار اٹھایا جارہا ہے کہ امریکی صدر بھارت جا رہے ہیں مگر پاکستان کیوں نہیں آرہے؟اس کا جواب بڑی حد تک واضح ہے کہ گذشتہ تیرہ برسوں میں پاک امریکی تعلقات متواتر اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔ مثلاً مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں ٹھکانے پر امریکی حملہ کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان سخت کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ 2012ء میں ان تعلقات میں بہتری کے آثار نمایاں ہونے لگے۔2013ء کے انتخابات کے بعد جس طرح پاکستان میں ایک سول جمہوری حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد دوسری منتخب حکومت کو انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہوا،اس پر امریکہ نے اطمینان اور خوشی کا اظہارکیا تھا۔اس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے پاکستان میں جمہوری نظام کے تسلسل کے حق میں جو بیانات آتے رہے، پاکستان کے جمہوری حلقوں میں ان کا بھر پورخیر مقدم کیا جاتا رہا۔گذشتہ ایک دہائی میں امریکہ نے پاکستان کے بارے میں جو عمومی پالیسی اپنائے رکھی ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو درپیش معاشی اور سماجی مسائل کے حل میں مدد فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ غالباََ اسی وجہ سے ''سٹرٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کے تحت پاک امریکہ تعاون کا سارا زور پاکستانی معیشت کو مضبوط بنانے اور تعلیم اور صحت جیسے مسائل کا حل تلاش کرنے پر ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات زوروں پر رہے ہیں۔رائے عامہ کو ماپنے والے بعض عالمی سرویز کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے‘ جہاںعوامی سطح پر امریکی مخالف جذبات سب سے زیادہ شدید ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان‘ جس کے ساتھ بھارت کے بعد پاکستان کی سب سے طویل سرحد ملتی ہے اورجس کے ساتھ ہمارے تاریخی، ثقافتی، نسلی اور مذہبی روابط ہیں، میں امریکی مداخلت اور جنگ کو پاکستان میں کبھی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ اس طرح پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ سے لاء اینڈ آرڈر کی مخدوش صورتِ حال بھی صدر اوباما کے نہ آنے کی وجوہ میں شامل ہے۔حالانکہ اس سے قبل صدر بل کلنٹن نے 2000ء اور 2006ء میں صدر بش نے بھارت کے ساتھ پاکستان کے دورے کو بھی شامل کیا تھا‘ لیکن امریکہ کے ان دونوں سابق صدور کے بھارت اور پاکستان کے دوروں میں بہت فرق ہے۔ صدر کلنٹن نے جب بھارت کا دورہ کیا تھا توان کے ہمراہ تین سو سے زائد امریکی تاجر،صنعت کار اور بزنس مین تھے۔اس دورے میں صدر کلنٹن نے امریکہ اور بھارت کے درمیان بھر پور تجارتی اور معاشی تعلقات کے بنیاد رکھی ۔2006ء میں صدر بش بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر Civil Nuclear تعاون کے معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے آئے تھے۔اسلام آباد میں آمد کے موقعہ پر جب اخباری نمائندوں نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ زیادہ قریبی،گہرے اور وسیع امریکی تعلقات کو ترجیح دینے کی امریکی پالیسی پر سوالات پوچھے تو سابق صدربش نے ان کے جواب میں جو کچھ کہا اسے ہمارے میڈیا اور تبصرہ نگاروں کو یاد رکھنا چاہیے۔ صدر بش نے جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں بہت فرق ہے۔پاکستان کی تاریخ اور اس کا ریکارڈ خاص طور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو Non-Proliferationمیں بہت مختلف ہے‘ اس لیے امریکہ کو بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو خصوصی اہمیت دینی پڑتی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو اپنے قومی مفادات کیلئے زیادہ سود مند سمجھتا ہے۔ان مفادات کا تعلق امریکہ اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تعاون کے علاوہ بین الاقوامی مسائل سے بھی ہے جن میں امریکہ کی خاص دلچسپی ہے۔ مثلاً گذشتہ کچھ عرصہ سے امریکہ کو بحرالکاہل جنوب مشرقی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر خصوصی تشویش ہے۔وہ اس کے آگے ایک بند باندھنا چاہتا ہے۔اس مقصد کیلئے جہاں امریکہ نے ان خطوں میں اپنے دیرینہ اتحادی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا ہے، وہاں بھارت کو بھی ان ممالک مثلاً جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دی ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ دورئہ جاپان اور آسٹریلیا اسی سلسلے کی کڑی تھے۔اس کے علاوہ بھارت نے خطے کے دوسرے ممالک مثلاً ویت نام،ملائشیا اور برماکے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بڑھانے کیلئے جو اقدامات کیے ہیں،امریکہ کی طرف سے ان کو خصوصی طور پر سراہا جارہا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ نریندرامودی کی قیادت میں بھارت نمایاں طور پر چین کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کی پالیسی میں امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے،تو یہ بے جانہ ہوگا۔پاکستان کے ساتھ تو امریکہ کا ''سٹرٹیجک ڈائیلاگ‘‘ہے جبکہ بھارت کے ساتھ اس نے ''سٹریٹجک پارٹنرشپ‘‘کا رشتہ قائم کر رکھا ہے۔
(باقی صفحہ 17پر)
2005ء میں سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دورئہ امریکہ کے موقعہ پر اور نریندرمودی کی حالیہ امریکہ یاترا کے دوران بھارت اور امریکہ کے درمیان جن شعبوں میں تعاون اور اشتراک کا فیصلہ کیا گیا‘ ان کی طویل فہرست بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی مکمل تصویر پیش کرتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ امریکہ جنوبی ایشیاء میں صرف بھارت سے ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے اس نے نہ صرف جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون''سارک‘‘میں ایک آبزرور Observor کی سیٹ سنبھال رکھی ہے بلکہ نیپال،بنگلہ دیش، سری لنکا،پاکستان او افغانستان کے ساتھ بھی امریکہ نے دوطرفہ بنیادوں پر طویل المیعاد معاہدات برائے تعاون قائم کررکھے ہیں۔لیکن بھارت پر اس کے فوکس کی متعدد وجوہ ہیں۔
ایک یہ کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بھارت اپنی آبادی، رقبے اور معیشت کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔ بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی اور وسیع منڈی،امریکی مصنوعات کی خرید میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔بھارت کی معیشت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ایک مضبوط معیشت ہے اور وہ امریکہ سے مہنگے داموں جدید ترین ہتھیار اور مشینری‘ جن میں اربوں ڈالر مالیت کے ایٹمی پلانٹ بھی شامل ہیں‘ خریدنے کی اسطاعت رکھتا ہے۔اس کے مقابلے میں جنوبی ایشیاء کے دیگر تمام ممالک آئی ایم ایف اور عالمی بنک سے قرض لے کر اپنی کمزور معیشتوں کو سہارا دیتے ہیں۔
امریکہ اور بھارت کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے تعلقات کی خاص وجہ یہ ہے کہ نریندرمودی نے بھارت کی روایتی غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کو خیر باد کہتے ہوئے عالمی توازن میں اپنا تمام بوجھ امریکی پلڑے میں ڈال دیا ہے۔علاقائی سطح پر بھارت کی موجودہ حکومت کی پالیسی امریکی مفادات سے مکمل طور پر ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے‘ مثلاً بحرِ جنوبی چین South China Seaمیں سمندری حدود کے مسئلے پر بھارت نے چینی پالیسی کے مخالفانہ موقف اختیار کر رکھا ہے۔اس کے علاوہ بحرِ ہند میں‘ جس کے ساتھ امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک مثلاً جاپان اور آسٹریلیا کے بھی مفادات وابستہ ہیں۔بھارت چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
صدر اوباما اپنے تین روزہ بھارتی دورے کے دوران بھارت کی یوم آزادی کی تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گے۔یہ تقریب26جنوری کو منعقد ہوگی۔اس سے اگلے روز صدر اوباما امریکہ بھارت تعلقات پر ایک اہم تقریر کریں گے جس میں مبصرین کے مطابق وہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان گہرے اور وسیع تعلقات کے اہم خدوخال اور مقاصد بیان کریں گے۔امریکی صدر کا بھارت میں جس طرح سواگت کیا جارہا ہے اور ان کے دورے کو جس طرح اہمیت دی جارہی ہے،اس سے بیشترمبصرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہونے والے ہیں۔اس طرح ان دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر مختلف اہم شعبوں مثلاً قومی سلامتی، دفاع، تجارت، صنعت، ٹیکنالوجی،توانائی خصوصاََ ایٹمی توانائی اور تعلیم میں تعاون بڑھے گا اور علاقائی اور عالمی مسائل کے بارے میں بھی دونوں ملکوں کی سوچ، اپروچ بلکہ عملی اقدام میں بھی مشترک لائحہ ہائے عمل کی توقع کی جاسکتی ہے‘ مثلاً صدر اوباما کے بھارت میں قیام کے دوران امریکی اور بھارتی حکام کے درمیان جن امور پر بات چیت ہوگی،ان میں پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کے علاوہ افغانستان اور چین کی طرف سے مختلف امور پر سخت موقف اختیار کرنے کا رویہ بھی شامل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں سب اچھا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان کئی امور پر اختلافات بھی ہیں اور یہ ایسے اختلافات ہیں جو جلد دور ہونے والے نہیں‘ مثلاً ماحولیات کی آلودگی اور فضاء میں زہریلی گیسوں میں اضافے کا مسئلہ Climate Changeاور جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے ساتھ بھارت کے کشیدہ تعلقات خصوصاََ پاکستان کے ساتھ موجودہ کشیدگی ایسے مسائل ہیں جن پر امریکی اور بھارتی نقطہ ہائے نظر میں اختلاف موجود ہے؛ تاہم یہ اختلاف بھارت اور امریکہ کے تعلقات میں اضافے کے موجودہ رجحان کے راستے میں بڑی رکاوٹ ثابت نہیںہوں گے۔