رواں سال کے آغاز میں جنوبی ایشیا میں یکے بعد دیگرے ایسے واقعات اور تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں کہ اگرچہ براہ راست وہ ایک دوسرے سے منسلک نہیں لیکن ان کا مجموعی اور وسیع تر نقطۂ نظر سے جائزہ لیا جائے تو وہ خطے کے تمام ممالک اور عوام کیلئے دوررس مضمرات کی حامل ہیں۔ ان میں پہلی‘ افغانستان میں تیرہ برس کی موجودگی کے بعد امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی اور صدر اشرف غنی کی حکومت کو تمام ملک کی سلامتی اور دفاع کی ذمہ داری کی منتقلی ہے۔ دوسری‘ سری لنکا میں حکومت کی تبدیلی اور تیسری‘ صدر اوباما کا حالیہ دورئہ بھارت ہے۔جب آج سے چھ برس قبل صدر بارک اوباما نے اپنی پہلی مدت کے تحت اقتدار سنبھالاتھا تو انہوں نے ایک سال کی بحث و تمحیص کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ سال2014ء کے آخر تک یا2015ء کے آغاز پر افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کو لڑائی سے باہر نکال لیں گے۔امریکی محکمہ دفاع اور خصوصاً افغانستان کے فیلڈ کمانڈروں نے صدر اوباما کے فیصلے کی مخالفت کی لیکن انہیں آخر کار تسلیم کرنا پڑا۔یہی وجہ ہے کہ20جنوری کو صدر اوباما نے امریکی قوم سے سٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران بڑے فخر سے کہا کہ انہوں نے امریکی عوام سے ابتدامیں عراق اور افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا ہے۔لیکن افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی سے متعدد سوالات اور خدشات بھی پیدا ہوئے ہیں جن کا تاحال تسلی بخش جواب نہیں مل رہا۔ان میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا افغان فوج اور پولیس جو اگرچہ تعداد کے اعتبار سے خاصی بڑی ہے لیکن ڈسپلن اور جذبے کے لحاظ سے کمزور ہے۔طالبان کی منظم اور مضبوط مزاحمت کا مقابلہ کر سکے گی؟اس ضمن میں خود امریکی بھی پر اعتماد دکھائی نہیں دیتے۔ غالباً اسی وجہ سے وہ اپنی فوجوں کا بڑا حصہ نکالنے کے بعد بھی
افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ معاہدے کے تحت 12 ہزار سے زائد فوجی دستوں کو افغانستان میں چھوڑ ے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ جیسا کہ صدر اوباما نے اپنی تقریر میں بھی کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں ڈرون حملے جاری رکھے گا؛ چنانچہ امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد بھی افغانستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں جنگ جاری رہے گی کیونکہ طالبان نے افغانستان اور امریکہ کے درمیان طے پا جانے والے دوطرفہ سکیورٹی پیکٹ اور اس کے تحت افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کی موجودگی کو مسترد کرتے ہوئے افغان حکومت اور غیر ملکی فوجی دستوں پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔افغانستان کی نئی حکومت نے اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے دوراستے اختیار کیے ہیں۔ایک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اور دوسرا پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری۔جہاں تک ملا عمر کی قیادت میں طالبان کے ساتھ امن اور مصالحت کا تعلق ہے،تو اس سلسلے میں ابھی تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ صدر اشرف غنی کی حکومت کی طرف سے انہیں کابینہ میں شمولیت کی جو پیش کش کی گئی تھی وہ انہوں نے مسترد کر دی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی سیاسی اور عسکری قیادت میں حال ہی میں جو اعلیٰ ترین سطح پر رابطے اور ملاقاتیں ہوئیں، ان کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی خلیج کم ہوئی، بلکہ دونوں ملکوں نے دہشت گردی کو مشترکہ دشمن قرار دے کر اس کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔پاکستان اور افغانستان نے اس سمت عملی قدم بھی اٹھائے ہیں۔شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی کارروائی اور پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغان صوبے کنڑ میں چھپے ہوئے پاکستانی طالبان کے خلاف افغان فوج کا آپریشن اس اشتراک ِعمل کا ثبوت ہیں۔
پاکستان اور افغانستان دونوں دہشت گردی کے خلاف تعاون پر راضی ہیں لیکن تعاون کا دائرہ کتنا وسیع ہو‘ اس پرپاکستان اور افغانستان میں اختلافات ہیں۔ افغانستان کی نظر میں اس تعاون کا دائرہ افغان حکومت سے برسرِپیکار ان افغان طالبان تک وسیع ہونا چاہیے جنہوں نے افغان حکومت کے بقول پاکستانی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں یا پاکستانی علاقوں کو افغانستان میں فوجی کارروائیوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔پاکستان کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف پاک افغان تعاون پاکستان سے ملحقہ افغان سرحدی صوبوں میں چھپے ہوئے پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائیوں تک محدود رہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ پاک افغان تعاون میں حائل ایک اور رکاوٹ افغانستان اور بھارت کے درمیان فوجی اور معاشی شعبوں میں قائم قریبی تعلقات بھی ہیں۔ سابق صدر حامد کرزئی کے زمانے میں افغانستان اور بھارت کے درمیان ''سٹریٹیجک پارٹنر شپ‘‘ کا ایک معاہدہ ہوا تھا۔ بھارت افغانستان میںدوبلین ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کرچکا ہے۔بھارت کے حالیہ دورے کے دوران صدر اوباما نے بھارت کو افغانستان میں مزید فعال کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے۔
جہاں تک سری لنکا میںحکومت کی تبدیلی کا تعلق ہے اسے نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بحر ہند کے خطے میں ایک نئے توازنِ طاقت کے قیام کا پیش خیمہ سمجھا جارہا ہے۔سابق صدر مہندا راجا پاکسی کے دورمیں سری لنکا اور چین کے درمیان نہ صرف تجارت ،سرمایہ کاری اور تعمیر و ترقی کے شعبوں میں قریبی تعلقات قائم ہوئے تھے،بلکہ عسکری شعبے میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کا آغاز ہوچکا تھا۔چونکہ سری لنکا کو بحر ہند میں ایک مرکزی جیو سٹریٹجک پوزیشن حاصل ہے اس لیے چین کو اس پورے خطے میں ایک بالا دست مقام حاصل ہونے کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ اس سے بھارت اور مغربی ممالک خصوصاََ امریکہ میں اضطراب کی لہریں دوڑ گئیں۔ نئے صدر سری سینا نے اپنے پیش رو کے برعکس بھارت کے ساتھ قریبی اور بہتر تعلقات کے قیام کی خواہش کا اعلان کیا ہے۔بہت سے مبصرین کے مطابق سری لنکا کے سابق صدر مہندا راجا کی شکست بحر ہند کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کیلئے دھچکا ہے‘ جس سے جنوبی ایشیا میں اس کے مفادات متاثر ہوں گے۔اس کے نتیجے میں پاکستان پر چین کے انحصار میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ برما اور سری لنکا کے بعد پاکستان بحر ہند میں چین کی حکمتِ عملی کا ایک اہم ترین ستون ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر بارک اوباما کے حالیہ دورئہ بھارت سے نئی دہلی اور واشنگٹن میں تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔بھارت اور امریکہ اب صرف سٹریٹیجک ہی نہیں گلوبل پارٹنر ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ نہ صرف اپنے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتا ہے،بلکہ وہ بھارت کی سرحدوں سے دور مشرق میں بحرالکاہل اور جنوب مشرقی ایشیا اور مغرب میں افغانستان اور وسطی ایشیا کے علاقوں میں بھارت کے ایک ایسے کردار کیلئے کوشاں ہے جو چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خلاف امریکی منصوبے میں مددگار ثابت ہو سکے۔ صدر اوباما کے دورئہ بھارت کے اختتام پر دونوں ملکوں نے جن متفقہ فیصلوں کا اعلان کیا ہے، ان میں سے ایک کا تعلق بحرالکاہل اور بحر ہند کے خطوں کے بارے میں امریکہ اور بھارت کے درمیان مشترکہ لائحہ عمل بھی شامل ہے۔اس پر چین نے اپنے ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے امریکہ کی طرف سے چین اور بھارت کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ بھارت کے یومِ جمہوریہ کے موقعہ پر بھارتی صدر کے نام چین کے صدر نے تہنیتی پیغام میں بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ طاقتیں (جن سے مراد یقینا امریکہ ہے) چین اور بھارت کو ایک دوسرے کا حریف بنانا چاہتی ہیں مگر اس کے برعکس چین بھارت کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنرشپ پر مبنی تجارت اور معاشی تعاون کے شعبوں میں تعلقات کو مزید فروغ دینے کی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا۔
کیا بحرالکاہل اور جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ جنوبی ایشیا بھی چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ جیسے کسی زمانے میں مشرق وسطیٰ سابق سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان مسابقت کا محور تھا؟ اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت دے گا لیکن آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات اسی سمت بڑھ رہے ہیں۔اسی صورتِ حال میں پاکستان کو بڑی سوچ بچار کے بعد اور احتیاط سے قدم اٹھانا چاہیے کیونکہ اس وقت جنوبی ایشیا میں امن،عدم استحکام،کشیدگی اور تعاون کی جتنی ضرورت پاکستان کو ہے،شاید ہی خطے میں کسی اور ملک کو ہو۔