لاہور میں پولیس لائنز کے گیٹ پر‘ عین دوپہر کے وقت خود کش حملہ‘ ملک میں دہشت گردی کی نئی اور ابھرتی ہوئی لہر کی علامت ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ سے قبل پشاور (13فروری)اور شکار پور سندھ (30جنوری)میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوچکی ہیں۔ اس طرح تین ہفتوں سے بھی کم عرصہ میں دہشت گردی کے تین بڑے واقعات ہوئے۔ جن میں درجنوں شہری شہید ہوئے۔ قابلِ غور بات ہے کہ دہشت گردی کے ان ہولناک واقعات میں اضافہ اس وقت ہورہا ہے جب پوری قوم متحد ہوکر اس خطرے کا سد باب کرنے کیلئے پوری طرح متحرک ہوچکی ہے۔16دسمبر کے سانحہ پشاور کے بعد جو نیشنل ایکشن پلان (قومی لائحہ عمل) تیار ہوا تھا،حکومت کی جانب سے اس پر مستعدی سے عمل ہورہا ہے۔اگرچہ وزیراعظم محمد نوازشریف نے شکایت کی ہے کہ کچھ صوبائی حکومتیں اس پلان پر عمل درآمد میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہیں،اس کے باوجود یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ موجودہ حکومت دہشت گردی کو پوری طرح سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اس سلسلے میں تمام وسائل کو بروئے کار لاکر تمام تر توانائیوں کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔اس کی عملی مثال سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک ساتھ مل کر صوبوں میں قائم ایپکس کمیٹیوں کو فعال بنا نا اور ان کے ذریعے پورے پاکستان میں ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی نگرانی کرنا‘ ہمارے سامنے ہے۔
دو تین دن پہلے وزیراعظم محمد نوازشریف اور بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کراچی میں تھے جہاں انہوں نے سندھ اپیکس کمیٹی میں شرکت کی اور صوبے خاص طور پر کراچی میں دہشت گردی اور سٹریٹ کرائم کے خلاف جاری آپریشن کا جائزہ لیا۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ کراچی میں گزشتہ سال ستمبر سے جاری رینجرز اور پولیس کے آپریشن سے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اس طرح آرمی چیف نے بھی کراچی میں جرائم پر قابو پانے میں سندھ رینجرز،
پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کی تعریف کی ہے۔اگر کراچی میں ایک منصوبے کے تحت دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے تو پاکستان کے دیگر شہروں مثلاََ لاہور،پشاور اور کوئٹہ میں ایسے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے؟یہ ہماری حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود لاہور،پشاور اور شکار پور جیسے واقعات کیوں رونما ہورہے ہیں؟کیا ان کے بارے میں پیشگی اطلاعات حاصل نہیں کی جاسکتیں؟ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں مرکزی اور صوبائی سطح پر تین درجن کے قریب انٹیلی جنس ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔ان میں فوجی بھی ہیں اور سویلین بھی۔لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اتنے بڑے انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کی موجودگی کے باوجود دہشت گرد کسی طرح اپنی مرضی سے جہاں چاہیں اور جب چاہیں کارروائی کرسکتے ہیں؟اس سلسلے میں جب پنجاب کے آئی جی پولیس سے ایک نجی ٹیلی ویژن پروگرام میں استفسار کیا گیا تو ان کا جواب وہی تھا،جسے پاکستان کے عوام گذشتہ ایک دہائی سے سنتے آرہے ہیں۔یعنی ''اتنے بڑے ملک میں جہاں آبادی گنجان ہو، خصوصاً بڑے شہروں میں اس قسم کے حملے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں‘ کیونکہ کسی کے ماتھے پر دہشت گرد نہیں لکھا ہوتا۔وہ عام لوگوں کی طرح گھومتے پھرتے ہیں اور ان کا سراغ لگانا مشکل ہے۔ چنانچہ دہشت گردی کی کسی واردات یا کسی خود کش حملے کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی قرار نہیں دیاجاسکتا‘‘۔
سب سے بڑے صوبے کی پولیس کے اعلیٰ ترین عہدے دار نے اپنے بیان میں جس منطق سے کام لیا ہے،وہ ناقابل فہم ہے۔ اس لیے کہ اگر ہم گذشتہ دس برسوں کی دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کارروائیوں میں نہ صرف اضافہ ہوا ،بلکہ دہشت گردوں نے ان کارروائیوں میں بتدریج بہتر منصوبہ بندی ،تربیت اور ہنرمندی کا مظاہرہ کیا۔ اب پورا ملک ان کے نشانے پر ہے۔دھماکے کیلئے جو بارود اور سازوسامان استعمال کیا جارہا ہے وہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ تباہ کن اور ہلاکت خیز ہے۔حیرت یہ ہے کہ اب وہ خود کش جیکٹوں میں اپنے جسم کے ساتھ ایسے بم باندھتے ہیں جو عام آلات سے ڈیٹکٹ نہیں ہوتے۔اس کا پتہ واہگہ بارڈر پر کیے گئے بم دھماکے کے بعد چلا کیونکہ خود کش بمبار کئی چوکیوں اور تلاشی لینے والے مراکز سے گزر کر اپنے ہدف پر پہنچا تھا۔اس کے علاوہ دہشت گردی کی کارروائیوں اور بم دھماکے کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے میں دہشت گرد تنظیمیں کسی تامل کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔اس کے باوجود قانون کے ہاتھ نہ تو ان تنظیموں تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ سراغ رساں ادارے ان کے خفیہ ٹھکانوں، پیسہ اور ہتھیار سپلائی کرنے والے اڈوں کا پتہ چلا سکے ہیں۔کیا دہشت گردوں کے پاس پاکستانی ریاست کے مقابلے میں زیادہ وسائل ہیں یا کہ بے شمار وسائل ہونے کے باوجود پاکستانی ریاست تذبذب اور کنفیوژن کاشکار ہے جس کی قیمت عام شہری کو اپنی جان اور مال کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی صورت میں پاکستانی ریاست،حکومت اور عوام کو جو چیلنج درپیش ہے،اس کا ابھی تک پوری طرح ادراک نہیں کیا گیا۔ہم دہشت گردی کے عفریت کا اسی طرح ادراک کررہے ہیں جس طرح اندھے آدمیوں کے ایک گروپ نے ہاتھی کو پہچاننے کی کوشش کی تھی۔یعنی جس کے ہاتھ میں ہاتھی کی دم آئی،اس نے ہاتھی کو سانپ کی طرح لمبا قرار دیا۔جس کا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگ پر پڑا ،اس نے اسے ایک ستون کے مترادف قرار دے دیا اور جس نے ہاتھی کی سونڈ کو چھو لیا تو اس نے اسے ایک پائپ سے تعبیر کردیا۔ہم ابھی دہشت گردی کے ہاتھی کو اسی طرح بیان کررہے ہیں۔ ایک گروپ کہتا ہے کہ دہشت گردی کا منبع صرف پاکستان کے قبائلی علاقے ہیں۔ کسی کا اصرار ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے صرف تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ہاتھ ہے۔ ایک مخصوص گروپ کے لوگوں نے‘ جن میں سابق حکومت کے عہدے دار بھی شامل تھے، دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پر بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔گذشتہ دنوں پشاور میں دہشت گردوں کی واردات کے بعد جب وفاقی وزیر برائے شمالی علاقہ جات لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ)عبدالقادر بلوچ موقعہ پر تشریف لے گئے تھے تو انہوںنے اس مسئلے پر بڑے پتے کی بات کی تھی انہوںنے کہا کہ یہ غلط ہے کہ پاکستان کے شہروں کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد افغانستان سے داخل ہورہے ہیں انہوں نے بالکل درست کہا کہ دہشت گرد ہماری ہی طرح پاکستانی ہیں۔اور وہ ہم میںہی رہتے ہیں اور ہمارے درمیان ہی گھومتے پھرتے ہیں۔ان کو تیار کرنے والے‘ انہیں مسلح کرنے والے اور ان کو جائے وقوعہ پر پہنچانے والے بھی پاکستانی ہیں۔
اگر حقیقت یہی ہے تو ہمارے انٹیلی جنس ادارے ابھی تک ان ٹھکانوں اور مدد گاروں کا کیوں سراغ نہیں لگا سکے؟ حالانکہ انگریزوں نے انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صورت میں ہمارے لیے ایک منظم اور فعال انفراسٹرکچر ورثے میں چھوڑا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ انفراسٹرکچر انگریزوں کے خلاف سازشوں اور بغاوتوں کا تو سراغ لگا سکتا تھا، لیکن اپنی قوم کی جانوں کو خطرہ لاحق کرنے والی قوتوں کی نشاندہی نہیںکرسکتا۔کہیں تو کوئی الجھن ہے جسے سلجھانے میں دیر ہورہی ہے۔حالانکہ متعدد حلقوں سے اس چیلنج کا موثر طور پرمقابلہ کرنے کیلئے مفید تجاویز بھی آئی ہیں۔ان میں ایک تجویز سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طویل عرصہ خصوصاََ مارشل لاء دور سے سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر بے اعتنائی اور عدم توجہی بلکہ معاندانہ سلوک کا شکار چلا آ رہا ہے۔جنرل ضیا تو انٹیلی جنس بیورو(آئی بی)کو اپنی تنخواہ دار مخالف قوت (Paid Opposition)کہتے تھے۔اس سوچ کے کئی نشانات اب بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے انٹیلی جنس ایجنسیوں ،پولیس او رقانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں میں اشتراک عمل اور اطلاعات کا مطلوبہ حد تک تبادلہ نہیں ہے۔حالانکہ کراچی کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعظم اور آرمی چیف نے اس پر خاص طور پر زور دیا تھا۔
لیکن اس سے بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ملک گیر اور قومی سطح پر دہشت گردی کے مسئلے اور اس کے مختلف پہلوئوں کو‘ جن میں اس کے ماخذ‘ بھی شامل ہیں‘ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے والے حلقوں کو بے نقاب کیا جائے اور ایک ایسا بیانیہ قوم کے سامنے پیش کیا جائے جو دہشت گردوں کے مقابلے میں قوم کو زیادہ اپیل کر سکے تاکہ معاشرہ دہشت گردوں سے خوف زدہ ہونے کی بجائے انہیں الگ تھلگ کر کے قانون کے حوالے کرے۔