برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے کابل میں افغان طالبان کے قریبی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے (جسے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے نمایاں نشر کیا ہے) کہ ملا عمر کی قیادت میں گزشتہ 13برس سے زائد عرصہ سے افغانستان کی حکومت اور نیٹو افواج سے برسر پیکار افغان طالبان نے افغانستان میں صدر اشرف غنی کی حکومت سے بات چیت پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ طالبان نے براہ راست اس خبر کی تصدیق یا تردید سے انکارکر دیا ہے۔ تاہم پاکستانی ذرائع سے اس اطلاع کے سچ ہونے کے اشارے ملتے ہیں۔افغانستان میں چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز اور سابق صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مذاکرات چند روز تک ہونے والے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان‘ افغانستان اور پاکستان ‘ چین محاذ پر ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں امن اور مصالحت کا عمل آگے بڑھنے والا ہے‘ اور اس جانب پہلا قدم صدر اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کے درمیان باقاعدہ بات چیت کا آغاز ہو سکتا ہے۔ خیال ہے کہ 17فروری کو چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کے دورہ کابل کے دوران اس فیصلے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ آرمی چیف کے دورہ کابل کے اگلے روز آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم باجوہ کے اس بیان سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کے امکان کی تصدیق ہو گئی تھی۔ جس میں پاکستان فوج کی طرف سے فریقین کے درمیان مصالحت کی کوششوں کا خیر مقدم کیا گیا تھا۔ پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے اس بیان کے دو روز بعد پاکستان فارن آفس کے ترجمان نے ان اطلاعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان ان مصالحتی کوششوں کی نہ صرف حمایت کرتا ہے بلکہ انہیں کامیاب بنانے کے لیے ہر قسم کی امداد‘ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ بشرطیکہ یہ عمل افغانستان کے فریقوں یعنی افغان حکومت اور طالبان کی رضا مندی اور نگرانی میں شروع ہو۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا انعقاد افغانستان کے دیرینہ اور پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کی طرف بہت بڑی پیش قدمی ہو گی۔ پاکستان نے اس میں جو مثبت کردار ادا کیا ہے اس کا اعتراف نہ صرف افغان حکومت کی طرف سے کیا گیا ہے‘ بلکہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے بھی ان کوششوں کی حمایت کی گئی ہے۔ تاہم اس میں چین کے کردار کو بھی کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ گزشتہ دنوں چینی وزیر خارجہ پاکستان تشریف لائے تھے ۔ پاکستان میں قیام کے دوران انہوں نے جو بیانات دیے تھے‘ ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ چین‘ افغانستان میں نہ صرف مصالحت کے عمل کی حمایت کرتا ہے بلکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا دورہ پاکستان اور پاکستانی حکام سے ان کی ملاقاتیں ان ہی کوششوں کا حصہ تھیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ جون میں منتخب ہونے کے بعد ‘ صدر اشرف غنی نے جن ممالک کا سب سے پہلا دورہ کیا تھا۔ ان میں چین بھی شامل تھا اطلاعات کے مطابق افغانستان کی طرف سے چین کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کا مقصد چین کی وساطت سے پاکستان کو
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن بات چیت کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنے پر راغب کرنا تھا۔ ایک حالیہ اطلاع کے مطابق افغان فوج نے کارروائی کے دوران چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلم علیحدگی پسندوں کی ایک بڑی تعداد کو پکڑ کر چینی حکام کے حوالے کیا ہے۔ افغان فوج کے ایک ذمہ دار افسر کے مطابق افغانستان کی طرف سے چین کے ساتھیاہی تعاون کی پشت پر بھی افغانستان کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کی بناء پر چین پاکستان کو مجبور کرے کہ وہ افغانستان میں لڑنے والے طالبان کی حمایت سے ہاتھ روک لے یا انہیں حکومت افغانستان کے ساتھ امن بات چیت پر آمادہ کرے۔
اگرچہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات آسان نہیں ہوں گے اور ان کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ‘ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے حق میں فضا پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سازگار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں صدر اشرف غنی کی نئی حکومت کا قیام ہے۔ جس نے اپنے پیشرو کے برعکس ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔ نہ صرف پاکستان بلکہ صد اشرف غنی کی حکومت نے چین کے ساتھ بھی قریبی تعاون پر مبنی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ پاکستان اور چین کی طرف سے افغانستان کی طرف سے دوستی اور خیر سگالی کے جذبات کا خیر مقدم کیا گیا ہے ۔ دوسری وجہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف قومی سطح پر ابھرے والا ایک نیا اتفاق رائے ہے۔ اس اتفاق رائے کو پیدا کرنے میں سانحہ پشاور کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس ایک واقعہ نے نہ صرف پاکستان میں دہشت گردی کے تصور کو تبدیل کر دیا ہے‘ بلکہ اس سے پاکستان اور افغانستان بھی ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے دُشمن کو پاکستان کا دشمن قرار دینے کا اعلان‘ جس کا افغان صدر نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔ اس تبدیلی کا ثبوت ہے ۔
تیسری وجہ چین کا اہم کردار ہے۔ پاکستان کے ساتھ چین کے قریبی تعلقات تو ایک مسلمہ حقیقت ہے‘ افغانستان کے ساتھ بھی چین کے تعلقات خوشگوار اور مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون پر مبنی ہیں۔ ان شعبوں میں تجارت‘ سرمایہ کاری اور افغانستان میں تعمیر و ترقی کے عمل میں چین کی بھر پور شرکت شامل ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ افغانستان چین کا ہمسایہ ملک ہے اور چین کی عالمی اور علاقائی حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ہمسائیگی میں امن اور استحکام ہو۔ اس حکمت عملی کے تحت چین نے افغانستان میں امن‘ مصالحت اور استحکام کے قیام کے لیے کوششوں کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ کیونکہ افغانستان میں جنگ اور خلفشار کی صورت حال سے خود چین کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس کے لیے چین نے جہاں ایک طرف پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے قدم اٹھایا ہے ‘ وہاں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کی راہ ہموارکرنے کے لیے بھی اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کے چند وفود اس سلسلے میں چین کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ بلکہ یہاں تک قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان رہنمائوں کے درمیان آئندہ مذاکرات چین میں ہی ہوں گے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ مذاکرات مارچ میں ہوں گے۔
اگر یہ مذاکرات آگے بڑھتے ہیں تو کیا ان کے نتیجے میں ہونے والے معاہدات کا تعلق صرف افغانستان کے اندر خانہ جنگی کے خاتمہ سے ہی ہو گا؟ایک حد تک تو یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان نہ تو ایک مقامی مسئلہ ہے اور نہ ہی اس کا تعلق دو ملکوں کے باہمی تعلقات سے ہے۔ افغانستان ایک علاقائی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس ملک میں گزشتہ 13برس سے جاری جنگ نے جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی سلامتی اور استحکام کو متاثر کیا ہے اس لیے افغانستان میں خانہ جنگی کے خاتمے اور غیر ملکی مداخلت کی جانب اگر کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو اس کا پوری دنیا کے امن اور ترقی پر خوشگوار اثر پڑے گا۔ ایشیا میں علاقائی تعان کو فروغ دینے کے لیے جن مواصلاتی رابطوں کو ضروری سمجھا جاتا ہے ان کی تکمیل ہو گی۔ تجارت میں اضافہ ہو گا۔ لوگوں کی آمدو رفت اور سیاحت میں ترقی ہو گی۔ سب سے زیادہ مستفید ہونے والا خطہ جنوبی ایشیا ہو گا کیونکہ اس سے پاک ‘ بھارت کشیدگی میں بھی کمی آئے گی۔