1956ء کا آئین بھی وفاقی تھا، لیکن اس کے تحت پاکستان میں مقننہ یک ایوانی تھی یعنی پارلیمنٹ کا صرف ایک ایوان (قومی اسمبلی) تھا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت پاکستان دو صوبوں (مشرقی اور مغربی پاکستان) پر مشتمل تھا اور قومی اسمبلی میں دونوں صوبوں کی برابر نشستیں تھیں، لیکن 1972ء میں جب نئے (موجودہ) آئین کی تیاری کا عمل شروع ہُوا تو پاکستان میں چار صوبے سندھ، پنجاب ، بلوچستان اور شمال مغربی سرحدی صوبہ قائم ہو چکے تھے۔ اِس کے علاوہ 1968-70ء کے دوران ایوب خان کی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا ایک بڑا مطالبہ صوبائی خود مختاری کے دائرے کو وسیع کرنا تھا۔ ان نئی حقیقتوں کی روشنی میں پارلیمنٹ کے دوسرے ایوان یعنی ایوانِ بالا کا قیام ناگزیر ہوگیا تھا اور یوں 1973ء کے آئین کے تحت سینیٹ آف پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔
چونکہ یہ ادارہ وفاق کا نمائندہ ہے اس لئے اس میں چاروں صوبوں کو برابر کی نمائندگی حاصل ہے ۔ قومی اسمبلی کے برعکس سینیٹ ایک مستقل ادارہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء اور جنرل مشرف کی فوجی حکُومت اور آئین کے آرٹیکل 58-2(b) جسے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے حذف کر دیا گیاہے، کے تحت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے باوجود، سینیٹ کا ادارہ قائم رہا۔ کیوں کہ یہ وفاق کی علامت ہے۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام کی موجودگی میں سینیٹ کو قومی اسمبلی کے مقابلے میں کم اختیارات حاصل ہیں، لیکن قومی معاملات کو چلانے میں اِس کے کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصاً آئین میں ترمیم کرنے اور کونسل آف کامن انٹریسٹس (Council of Common Interests)میں اختلاف کی صورت میں قومی اسمبلی کے ساتھ مشترکہ اجلاس میں اِس کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
حال ہی میں سینیٹ کی آدھی خالی نشستوں پر نئے اراکین کا انتخاب اِس لحاظ سے ایک انتہائی خوش آئند اقدام ہے کہ اس سے مُلک میں جمہوری عمل آگے بڑھا ہے اور جمہوری ادارے مضبوط ہوئے ہیں۔ پوری قوم اس عمل کی کامیاب تکمیل پر مبارک باد کی مستحق ہے، کیونکہ اس سے عوام کی سیاسی بیداری ، میڈیا کی فرض شناسی اور سیاسی پارٹیوں کی بالغ نظری عیاں ہوتی ہے۔ خاص طور پر چیئرمین سینیٹ کا اتفاق رائے سے چنائو ثابت کرتا ہے کہ ہم اب 1990ء کی دہائی کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ چکے ہیں۔ وہ دو رجس میں سیاسی پارٹیاں باہم دست و گریبان تھیں۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کی بجائے، ایک دوسری کی ٹانگیں کھینچی جاتی تھیں۔ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کیلئے، عوام کی تائید حاصل کرنے کی بجائے شارٹ کٹ کا سہارا لیا جاتا تھا یا تھرڈ امپائر کے اشارے کا انتظار کیا جاتا تھا۔
سینیٹ کے انتخابات اور ایک متفقہ چیئرمین کے چنائو نے بلیک میلنگ والی اور چور دروازے کی سیاست کو ختم کر دیا ہے۔ اِن انتخابات نے عوام کو اُن کے جمہوری سفر میں ایک نئی اور راحت بخش منزل عطا کی ہے، وہ سفر جِس کا آغاز 2008ء کے پارلیمانی انتخابات کی صورت میں ہُوا تھا۔ اگرچہ جمہوریت کے دشمنوں اور آمریت کے متوالوں نے اُن انتخابات کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی اور ان انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومت کے راستے میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی کر کے اس کے قبل از وقت خاتمے کی پیشین گوئیاں کی جاتی تھیں، لیکن جمہوریت نے نہ صرف اپنا سفر جاری رکھا بلکہ 2013ء میں پارلیمانی انتخابات منعقد کروا کے اور نئی منتخب حکومت کو اقتدار سے نواز کر جمہوری سفر کو ایک نئی منزل سے ہمکنار کیا۔
اِس سے عین ملتی جلتی صورتِ حال سینیٹ کے حالیہ انتخابات سے قبل بھی پیداکرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ہارس ٹریڈنگ کے نام پر سینیٹ کے انتخابات اور اُن میں حصہ لینے والے صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے خلاف مہم چلائی گئی ۔ اِس مہم میں کوئی الزام ایسا نہیں تھا جو اِن ارکان پر نہیں لگا یاگیا ، انہیں لالچی، ضمیر فروش اور عوامی مفاد سے غداری کا مرتکب قرار دیا گیا ۔ سینیٹ کے انتخابات کو مویشیوں کی منڈی سے تشبیہہ دی گئی جہاں دو یا ڈھائی کروڑ کے عوض سینیٹ کی سیٹ قابلِ حصول تھی۔ جس ممکنہ ہارس ٹریڈنگ پر اتنا شور مچایا جار ہا تھا، وہ انتخابات میں کہیں نظر نہیں آئی۔ اگر چند ووٹ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہُوئے ڈالے گئے ہیں، تو اُن کی وجہ ضروری نہیں پیسہ ہو، بلکہ اِس عمل کے دیگر محرکات بھی ہو سکتے ہیں اور سیاسی رہنمائوں نے سیاسی عمل کا ایک ناگزیر حصہ سمجھتے ہُوئے اِسے تسلیم کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے والی چھوٹی بڑی ، تمام سیاسی پارٹیوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور اِسے پاکستان میںجمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کیلئے نیک شگون قرار دیا ہے۔ صِرف ایک پارٹی کے رہنما ایسے ہیں جو اپنے حصے کی پوری سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود ہارس ٹریڈنگ کے الزام پر ابھی تک قائم ہیں۔ باقی تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنما ئوں کی متفقہ رائے ہے کہ اِن انتخابات سے ثابت ہُوا ہے کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھتی ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے فاضل اراکین بکائو مال نہیں ہیں اور جمہوری ادارے دن بدن مستحکم ہور ہے ہیں۔ اِن انتخابات سے سیاست میں شارٹ کٹ ڈھونڈنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور وہ حلقے جو سیاستدانوں ، سیاسی پارٹیوں اور جمہوری اداروں کی کردار کُشی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے، اب بیک سیٹ پر بیٹھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ لیکن اِس سے یہ ہر گز اخذ نہیں کرنا چاہیے کہ جمہوریت کے خلاف سازشیں ختم ہوگئی ہیں یا جمہوریت اور جمہوری اداروں کو بدنام کرنے کا عمل رُک جائے گا بلکہ یہ عناصر پہلے کے مقابلے میں زیادہ منظم ہو کر، اپنی مذموم تحریک شروع کر سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں جمہوریت کا پودا ابھی جڑ پکڑ رہا ہے۔سال ہا سال کے آمرانہ ادوار میں عوام دُشمن او رجمہوریت کے مخالف عناصر اتنی صلاحیت کے مالک ہیں کہ جمہوریت پر کاری ضرب لگاسکتے ہیں۔ صرف موقعہ ملنے کی دیر ہے اور وہ چوہوں کی طرح اپنے بلوں سے باہر نکل آئیں گے۔ معاشرے کے کئی حلقے ایسے ہیں جہاں اُن کے ہمدرد موجود ہیں ۔ اُن کے پاس وسائل بھی ہیں جنہیں استعمال میں لا کر وہ جمہوری قوتوں کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا کر سکتے ہیں۔
اِس لئے سیاسی قائدین ، سیاسی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر عوام کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اُن کے مفادات کو پس پشت ڈال کر اور اُن کے حقوق کو پامال کرتے ہوئے، جِن حلقوں نے ایک لمبے عرصے تک اقتدار کے مزے اُڑائے ہیں، و ہ موجودہ تبدیلی کو ہضم نہیں کر سکتے اور موقعہ ملتے ہی وہ ایک دفعہ پھر وار کرنے پر تیار ہیں۔ اِس وار کو ناکام بنانے کی صِرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ سیاسی قوتیں اُس طرح اتحاد کا مظاہرہ کریں جس طرح اُنہوں نے گزشتہ سال پارلیمنٹ کے تقدس کو بچانے کیلئے کیا تھا۔