قدرتی حسن سے مالامال‘ ہزاروں ندیوں‘ نالوں اور آبشاروں کا مالک اور دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے ہمالیہ کی گود میں پُرامن اور سادہ زندگی گزارنے والے انسانوں کا مُلک نیپال گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے ایک ایسے بحران سے دوچار چلا آ رہا ہے‘ جس سے نکلنے کے تاحال آثار نظر نہیں آتے۔ یہ بحران نئے آئین کی تلاش کے گرد گھومتا ہے۔ اس سے قبل نیپال دس برس تک مسلح بغاوت سے دوچار رہا‘ جو ''مائو پرست‘‘ کمیونسٹ باغیوں نے شروع کر رکھی تھی۔ اسی مسلح بغاوت کے نتیجے میں نیپال میں رائج ڈھائی سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ عمل میں آیا اور 2008ء میں عام انتخابات منعقد کر کے ایک آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی‘ لیکن اپنی چار سالہ مدت میں یہ اسمبلی ملک کو ایک متفقہ آئین دینے میں ناکام رہی۔ نتیجتاً ''اسمبلی برخاست کر کے 2013ء میں نئے انتخابات کروائے گئے‘ لیکن نئی اسمبلی بھی ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ایک آئینی مسودے پر متفق نہیں ہو سکی۔ آئین کی تشکیل میں ناکامی پر نیپال کے عوام بہت مایوس ہیں اور وہ دن بدن اپنی سیاسی پارٹیوں سے برگشتہ ہو رہے ہیں۔ نیپال کے سیاسی حلقوں کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیوں میں ایک متفقہ آئین پر مسلسل عدم اتفاق نہ صرف اندرونی سیاسی استحکام کے لیے نقصان دہ ہے‘ بلکہ ایک طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں سے حاصل کردہ جمہوریت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے‘ کیونکہ نیپال میں بادشاہت کے حامی عناصر بھی اچھی بھلی تعداد میں موجود ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی آپس میں لڑائی اور کھینچا تانی سے ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے اور خدشہ ہے کہ سابق بادشاہت کے حامی فوج کی مدد سے نیپال پر ایک دفعہ پھر آمریت مسلط نہ کر دیں۔
نیپال کے عوام کے علاوہ نیپال کے ہمسایہ ممالک بھی اس جاری سیاسی بحران سے پریشان ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ پریشانی بھارت کو لاحق ہے‘ کیونکہ بھارت اور نیپال کے درمیان نہ صرف گہرے ثقافتی اور معاشی تعلقات ہیں‘ بلکہ چین اور بھوٹان کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ہونے کی وجہ سے نیپال سٹریٹجک پہلو سے بھی بھارت کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ نیپال کی 80 فیصد آبادی ہندو ہے۔ بھارت کے بعد دنیا کے نقشے پر نیپال واحد ہندو ملک ہے۔ بادشاہت کے زمانے میں نیپال کو آئینی طور پر ایک ہندو ریاست قرار دیا گیا تھا لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے باوجود نیپال میں بہت کم ہندو مسلم فسادات ہوئے ہیں‘ حالانکہ نیپال کی ہندو آبادی ان ہندوئوں کی اولاد ہے‘ جو گیارہویں اور بارہویں صدی میں شمالی ہندوستان پر مسلمان حملہ آوروں کی یلغار کی وجہ سے گھر بار چھوڑ کر وادی کٹھمنڈو میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اگر آپ کا دارالحکومت کٹھمنڈو جانا ہو‘ تو متعدد مقامات پر مندر‘ پگوٹا اور مسجد یعنی ہندوئوں‘ بدھ مت کے پیرو کاروں اور مسلمانوں کی عبادت گاہیں ایک ساتھ کھڑی نظر آئیں گی۔ بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی نے نیپال میں بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن تاحال اسے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی؛ تاہم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے سے نیپال میں ہندو انتہا پسند نظریے ''ہندوتوا‘‘ کو آہستہ آہستہ پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ نیپال میں مذہبی رواداری‘ اعتدال پسندی اور سیکولرازم پر یقین رکھنے والے لوگوں کو ڈر ہے کہ اگر ملک کی سیاسی پارٹیاں آپس میں گتھم گتھا رہیں اور ملک ایک متفقہ آئین سے محروم رہا‘ تو اس سے بی جے پی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے بھارت اور نیپال میں قریبی تعلقات کے قیام کے لیے پہلے ہی نمایاں کوششیں ہو چکی ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی دو دفعہ نیپال کا دورہ کر چکے ہیں۔
نیپال میں جاری آئینی بحران اس لحاظ سے بھی پریشانی کا باعث ہے کہ اس سے ملک بیرونی سازشوں کا اکھاڑہ بن جائے گا۔ یہ ملک ایشیا کی دو بڑی طاقتوں یعنی چین اور بھارت کے درمیان ایک سینڈوچ کی طرح ہے۔ دونوں کے لیے اس کی جغرافیائی حیثیت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ بھارت اسے اپنے اور چین کے درمیان ایک بفر سٹیٹ کے طور قائم رکھنا چاہتا ہے‘ لیکن چین اس کے ذریعے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک مثلاً بنگلہ دیش تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے چین نے نیپال کے ساتھ مواصلاتی رابطوں کی تعمیر کے لیے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں‘ ان میں تبت کے دارالحکومت لاہسہ اور کٹھمنڈو کو ریل کے ذریعے ملانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اگرچہ چین کے ساتھ نیپال کی تجارت اس کی کل تجارت کا صرف دس فیصد حصہ ہے اور باقی بیشتر تجارت بھارت سے ہوتی ہے لیکن چین نیپال کی سرحد سے ملحق تبتی علاقوں میں سڑکوں کا جس طرح جال بچھا رہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کے درمیان نئی سڑکوں کی تعمیر سے دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہو جائے گا۔
نیپال میں بظاہر نہ ختم ہونے والے آئینی بحران کی بنیادی وجہ صدیوں سے قائم غربت‘ بے انصافیوں معاشی ناہمواری اور علاقائی تفاوتوں پر مبنی سماجی اور سیاسی نظام ہے۔ نیپال جغرافیائی طور پر تین حصول میں منقسم ہے۔ ایک حصہ وادی کٹھمنڈو پر مشتمل ہے‘ جہاں کے لوگوں نے تاریخی طور پر باقی علاقوں کے لوگوں پر حکومت کی ہے اور اسی وجہ سے یہاں کے لوگ معاشی لحاظ سے نیپال کے دیگر علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ خوشحال ہیں۔ کٹھمنڈو جس علاقے میں ہے‘ وہ پہاڑی علاقے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسرا تیرائی کا علاقہ ہے‘ جس کی سرحدیں بھارت کے ساتھ ملتی ہیں اور یہاں زمین ہموار ہونے کی وجہ سے وسیع پیمانے پر کاشتکاری ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگ نسلی‘ لسانی اور ثقافتی لحاظ سے بھارت کے دو صوبوں یعنی بہار اور اتر پردیش کے باشندوں کے زیادہ قریب ہیں۔ نیپال کا تیسرا علاقہ بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل ہے جسے ''پربت‘‘ کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ یہاں آبادی کم ہے اور زیادہ تر پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر آباد ہے۔ باقی تمام علاقے گھنے جنگلوں اور برف پوش چوٹیوں سے بھرے پڑے ہیں۔
نیپال کی موجودہ یعنی دوسری آئین ساز اسمبلی میں دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی نیپال کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یونائٹیڈ مارکسسٹ۔ لیننسٹ) کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے اور اسی وجہ سے اس وقت نیپال میں ان دونوں پارٹیوں پر مشتمل حکومت قائم ہے۔ ان کے مدمقابل کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (مائوسٹ) اور مادھیشی مورچہ کے اتحاد پر مشتمل حزب اختلاف ہے۔ اب تک ملک کو جو ایک مستقل آئین نصیب نہیں ہو سکا‘ اس کی سب سے بڑی وجہ ان دو دھڑوں یعنی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت اختلافات ہیں۔ اختلافات تین امور پر ہیں۔ نیپال کا سیاسی نظام سیکولر بنیادوں پر ہونا چاہیے‘ یا مذہبی یعنی ہندو قوم پرستی پر۔ اس مسئلے کو بھارت میں بی جے پی کی حالیہ کامیابی سے بہت ہوا ملی ہے۔ اس کے بعد جھگڑا اس بات پر ہے کہ انتخابات فرسٹ پاس فرسٹ (سنگل حلقہ) کی بنیاد پر ہوں یا متناسب نمائندگی کی بنیاد پر۔ بھارت اور پاکستان میں پہلا سسٹم قائم ہے‘ لیکن ان دونوں مسائل پر سمجھوتہ مشکل نہیں۔ اصل الجھن وفاقی ڈھانچے کی تشکیل ہے۔ 2008ء میں پہلی آئین ساز اسمبلی نے فیصلہ کیا تھا کہ نیپال میں وفاقی ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا۔ لیکن اس کی تکمیل کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ تیرائی کے باشندوں یعنی مادھیشی آبادی کا یہ مطالبہ ہے کہ ان کے تمام علاقے پر مشتمل ایک الگ صوبہ بنایا جائے اور اسے زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری دی جائے‘ لیکن حکومت اس پر راضی نہیں ہو رہی اور اس کا موقف یہ ہے کہ اگر نیپال میں نسلی یا لسانی بنیادوں پر صوبے قائم کئے گئے تو ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ اس کی بجائے اقتصادی اور انتظامی بنیادوں پر صوبے تشکیل دے کر ایک وفاقی ریاست قائم کی جائے۔ دُنیا منتظر ہے کہ نیپال میں کب بحران ختم ہو گا۔