سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے گزشتہ روز اپنی پارٹی‘ آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے اپنے سیاسی پروگرام کا اعلان کیا۔ اس کے تحت انہوں نے پارٹی کارکنوں کو منظم ہو کر پہلے سے زیادہ فعال ہونے کی ہدایت کی اور یہ بھی کہا کہ ان کی پارٹی آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال اور اس میں اپنے کردار اور نظامِ حکومت کے بارے میں بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔
سابق صدر کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت‘ جسے اقتدار سنبھالے دو برس ہونے کو ہیں‘ ملک کو ایک صحیح اور مؤثر قیادت فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے بلکہ ان کے الفاظ میں اس وقت پاکستان میں قیادت نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ان کا دعویٰ ہے کہ صرف ان کی ذات ہی ملک کو درپیش مشکلات سے نکال سکتی ہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ناکام ہو چکی ہیں اور اس وقت ایک تیسری سیاسی قوت کی ضرورت ہے۔ اپنے خطاب میں سابق صدر نے اگرچہ وزیراعظم نوازشریف اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے سیاسی کردار کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا لیکن ان کے سابق بیانات اور دعووں کو پیش نظر رکھا جائے تو تیسری سیاسی قوت سے مراد صرف اُن کی اپنی ذات اور اے پی ایم ایل ہے۔ کیا مشرف تیسری قوت بن کر ابھر سکتے ہیں؟ کیا سابق صدر متبادل قیادت مہیا کر سکتے ہیں؟ ان سوالات کے جواب کا اظہار بہت حد ایک بڑے سوال کے جواب پر ہوگا۔ اور وہ سوال یہ ہے کہ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف موجود سیاسی صورت حال کا جو تجزیہ پیش کر رہے ہیں وہ کہاں تک درست ہے اور سیاست‘ حکومت اور نظام کے بارے میں اُن کا جو مؤقف ہے‘ اسے عوام میں کہاں تک پذیرائی حاصل ہے۔
سابق صدر مشرف کا دعویٰ ہے کہ ملک میں اس وقت کوئی قیادت نہیں۔ عرض یہ ہے کہ گزشتہ برس عوام کے منتخب نمائندوں یعنی پارلیمنٹ نے حکومت کے ساتھ مل کر جمہوریت پر شب خون مارنے کی کوشش کو جس طرح ناکام بنایا‘ اُس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی قیادت نہ صرف موجود ہے بلکہ ایک مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے لیکن اگر پرویز مشرف صاحب اس کو تسلیم نہیں کرتے تو اس کی وجہ قیادت کے بارے میں اُن کا ایک مخصوص نظریہ ہے۔ وہ اجتماعی قیادت کی بجائے انفرادی قیادت جسے وہ یونیٹی آف کمانڈ (Unity of Command) کا نام دیتے ہیں‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں قیادت کے اس تصور کی کوئی گنجائش نہیں۔ جمہوریت میں قیادت کا تصور ارسطو کے اس مشہور قول پر مبنی ہے کہ عوام کی اجتماعی سوچ اور اس سوچ پر مبنی فیصلہ ایک فرد‘ خواہ وہ کتنا ہی عقلمند اور زیرک کیوں نہ ہو‘ کی سوچ اور فیصلے سے بہتر ہے۔ سیاست تاریخی عمل کا ایک حصہ ہے اور یہ علم ہمیشہ متحرک رہتا ہے۔ اس میں بہتری کی ہمیشہ گنجائش رہے گی۔ اس لیے سیاسیات یا سیاسی نظام‘ جسے ہم جمہوریت کا نام دیتے ہیں‘ کسی مرحلے پر بھی خامیوں سے پاک نہیں ہو سکتی۔ یہی بات موجودہ حکومت پر بھی صادق آتی ہے۔ اس کی کارکردگی آئیڈیل نہیں لیکن سابق حکومتوں بشمول مشرف دور کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو مختلف شعبوں میں اس کی کارکردگی نہ صرف بہتر ہے بلکہ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے کی وجہ سے یہ ایک آئینی حکومت ہے بلکہ بیرون ملک بھی اس کی کریڈیبلٹی (Credibility) قائم ہے۔
سابق صدر نے سیاست میں قیادت کے جس خلا اور اس خلا کو پُر کرنے کے لیے قوم کو اپنی خدمات پیش کرنے کا اعلان اُس وقت بھی کیا تھا‘ جب وہ 2013ء کے انتخابات سے قبل وطن واپس تشریف لائے تھے۔ ایک آدھ مرتبہ واپسی کا پروگرام ملتوی کرنے کے بعد جب آخرکار انہوں نے مئی 2013ء کے انتخابات سے قبل پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی پارٹی کو عوام کی زبردست حمایت حاصل ہوگی‘ اس لیے انہوں نے نہ صرف انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا بلکہ قومی اسمبلی کی تمام نشستوں سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اُن کا یہ بھی خیال تھا کہ جب اُن کا جہاز کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کرے گا تو عوام کا ایک جمِ غفیر اُن کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر موجود ہوگا‘ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اُن کے استقبال کے لیے کراچی ایئرپورٹ پر موجود نہیں تھا۔ جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے تو ملک کے شمالی علاقوں سے ایک صوبائی نشست کے سوا‘ انہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
سابق صدر کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے دور میں انہوں نے جو جمہوریت قائم کی وہ حقیقی جمہوریت تھی لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ جمہوریت کے اس بنیادی اور سب سے اہم اصول کو تسلیم نہیں کرتے کہ جمہوریت میں عوام ہی حکومت بناتے ہیں اور عوام ہی اسے مسندِ اقتدار سے ہٹاتے ہیں۔ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف اس کے برعکس تجویز پیش کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ موجودہ حکومت کو تبدیل کرے اور اس کی جگہ ایک عبوری حکومت قائم کی جائے۔ انہوں نے اس کام کے لیے فوج کا نام نہیں لیا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ فوج اس کے لیے تیار نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو ہٹانے اور اس کی جگہ ایک عبوری حکومت قائم کرنے کا مینڈیٹ سپریم کورٹ کو کس نے دیا ہے؟
پرویز مشرف اپنے بیانات میں تواتر کے ساتھ ایک نکتے پر خاص طور پر زور دیتے ہیں کہ آئین ملک پر نہیں بلکہ ملک آئین پر مقدم ہے۔ ملک کی بقا‘ آئین کی پاسداری سے زیادہ اہم ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر ملک کی بقا کے لیے آئین کو خیرباد کہنا پڑے تو اس سے احتراز نہیں کرنا چاہیے۔ سابق صدر کی خدمت میں عرض ہے کہ کسی بھی ریاست کی بقاء کی ضمانت صرف آئین دیتا ہے۔ اس لیے ہر آئین میں ریاست کو ممکنہ طور پر درپیش اندرونی اور بیرونی سنگین ترین خطرات سے بچانے کے لیے میکانزم موجود ہوتا ہے اور اگر یہ میکانزم کمزور ہے تو اسے مزید مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے ہر آئین میں ترمیم کا طریقہ کار درج ہے تاکہ بوقت ضرورت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق اس میں تبدیلیاں کی جا سکیں۔
ترمیم یا تبدیلی کی گنجائش سے آئین کی نفی نہیں ہوتی نہ ہی اس کی اہمیت کم ہوتی ہے‘ لیکن سابق صدر پرویز مشرف آئین اور ریاست کو مدمقابل لا کر اولذکر کو موخرالذکر کی خاطر مسترد کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر تقویت پکڑتا ہے کہ پرویز مشرف اپنے پیش رو ضیاء الحق کی اس سوچ کے حامی ہیں کہ آئین کیا ہے؟ کاغذ کے چند صفحات جنہیں پھاڑ کر کسی وقت بھی پھینکا جا سکتا ہے۔ اگر سابق صدر کا بھی یہی مؤقف ہے تو ایک تیسری قوت بننے کے لیے وہ اُن حلقوں کی حمایت کیسے حاصل کر سکیں گے‘ جو آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں؟
جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے دور میں کہتے رہے اور اب بھی اکثر اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ جمہوریت میں چیکس اینڈ بیلنسز (Checks and Balances) کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس سے اُن کی مراد دراصل پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے اختیارات کو محدود کر کے‘ سربراہ مملکت یعنی صدر کو زیادہ بااختیار بنانا ہے۔ اپنے تازہ ترین خطاب میں بھی انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ صرف حکومت کی تبدیلی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس سے اُن کی دراصل مراد موجودہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام کو رائج کرنا ہے۔ پاکستان میں صدارتی نظام کے بہت سے حامی موجود ہیں لیکن فوجی حکمرانوں کا صدارتی نظام فیورٹ رہا ہے کیونکہ اس میں وہ مختارِ کُل بن جاتے ہیں۔ ایوب خان‘ یحییٰ خان اور ضیاء الحق کی طرح مشرف نے بھی اپنے لیے آئین کو صدارتی نظام میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی‘ لیکن ان سب کے نظام دیرپا ثابت نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وفاقی نظام کی طرح پارلیمانی نظام کو بھی پاکستانی عوام کی متفقہ حمایت حاصل ہے۔ اس لیے سابق صدر اگر قومی سیاست میں ایک منفرد کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں دو دفعہ آئین کی خلاف ورزی پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور پھر قوم کے سامنے ایک ایسا پروگرام رکھنا چاہیے جو انہیں اور ان کی پارٹی کو دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں بہتر ثابت کر سکے۔ اس وقت اپنے بیانات اور دعووں کے ذریعے قوم سے جو وعدے کر رہے ہیں‘ ان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی سابقہ فوجی آمریت کو سویلین لباس پہنا کر قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ 1999ء سے اب تک پنجاب کے پانچ دریائوں اور عظیم سندھ کا بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہے‘ اس لیے اس قسم کے کسی خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔