عام حالات میں ضمنی انتخابات ہوں یا بلدیاتی اداروں کے ممبران کا چنائو،لوگوں کی غیر معمولی توجہ کا مرکز نہیں بنتے۔نہ ہی ان سے میڈیا ہائپ پیدا ہوتی ہے۔نہ ہی سیاسی پارٹیاں ٹاپ گیئر میں متحرک ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں حال ہی میں منعقد ہونے والے 42کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات نے پاکستان کی انتخابی سیاست کے میدان میں نئی روایت قائم کی ہے۔الیکشن کمیشن کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق 42کنٹونمنٹ بورڈز میں 199 وارڈز (نشستوں) کیلئے 1151 اْمیدوار میدان میں اْترے تھے جن میںسے541کا تعلق18سیاسی پارٹیوں سے تھا اور 610 آزادحیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اْمیدواروں کی اکثریت نے انتخاب میں کامیابی کیلئے سیاسی پارٹیوں کی وابستگی کا سہارا لینامناسب نہیں سمجھا۔اور اْن کا اندازہ درست ثابت ہوا۔کیونکہ کامیاب ہونے والے اْمیدواروں کی دوسری بڑی تعداد یعنی 55 آزاد اْمیدواروں کی ہے۔
اس سے بعض لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں آزاد اْمیدواروں کی کامیابی دراصل عوام کی طرف سے ملک کی موجودہ اور خصوصاً بڑی سیاسی پارٹیوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہے‘ لیکن اس مسئلے کا اگر ملک کے سیاسی اور تاریخی تناظر میں جائزہ لیا جائے تو یہ مفروضہ غلط ثابت ہوتا ہے۔کیونکہ اولاً یہ ''آزاد‘‘اْمیدوار اتنے بھی آزاد نہیں تھے ۔فرق صرف یہ تھا کہ انہوں نے دوسروں کے مقابلے میں کسی ایک سیاسی پارٹی کا ٹھپہ لگوانے سے احتراز کیا تھا۔اس کی بجائے اْنہوں نے ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس میں متعدد کامیاب رہے۔کیونکہ کئی وارڈز ایسے تھے جہاں ہم خیال سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے اْمیدوار کھڑا کرنے کی بجائے کسی ایک اْمیدوار پر اتفاق کر کے اْس کی حمایت کی۔اس طرح کہنے کو تو وہ اْمیدوار آزاد حیثیت سے کامیاب ہوا لیکن اصل میں اْس کی کامیابی کی پْشت پر چند ایسی سیاسی پارٹیوں کی متفقہ حمایت تھی جنہیں معلوم تھا کہ وہ
انفرادی طور پر سیٹ نہیں جیت سکتیں۔دوئم‘ جس طرح قومی اسمبلی کے انتخابات کے مقابلے میں صوبائی سطح کے انتخابات میں لوگوں کے سامنے ووٹ ڈالتے وقت ترجیحات مختلف ہوتی ہیں‘ اسی طرح مقامی حکومت جیسے اداروں کے انتخابات میں ووٹرز کی توجہ سیاسی مسائل سے ہٹ کر مقامی مسائل پر مرکوز ہوتی ہے۔یہ انتخابات مقامی مسائل کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں اور ان میں ووٹرز اْن اْمیدواروں کو ترجیح دیتے ہیں جو مقامی سطح پر مقامی مسائل کو مقامی لوگوں کو ساتھ لے کر نہ صرف حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہوں بلکہ عوام کی نظر میں اس کے اہل بھی ہوں۔یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومت کے اداروں کے انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کے صف اول کے رہنما یا نمایاں کارکْن حصہ نہیں لیتے۔بلکہ خود سیاسی پارٹیاں بھی ایسے اْمیدواروں کا چنائو کرتی ہیں جو متنازعہ نہ ہوں اور مقامی سطح پر سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر زیادہ سے زیادہ لوگوںکیلئے قابل قبول ہوں۔ان وجوہ کی بناء پر وہ ایسے اْمیدواروں کو ترجیح دیتی ہیں جو پارٹی لیبل کے بغیر پارٹی کی حمایت کے خواہشمند ہوں‘ کیونکہ کامیابی میں یہ اپروچ ان کے کام آسکتی ہے۔
ثانیاً‘ آج سے ڈیڑھ سو سال قبل جب انگریزوں نے یہ نظام رائج کیا تھا تو اْنہوں نے اسے سختی سے سیاست اور سیاسی پارٹیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی‘ کیونکہ اْن کے خیال میں مقامی مسائل کا بہترین حل غیر سیاسی بنیادوں پر منتخب نمائندوں کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے‘ اس لیے اْنہوں نے ان اداروں کے انتخابات غیر سیاسی بنیادوں پر کروائے۔آزادی کے بعد بھی یہ روایت برقرار رہی بلکہ فوجی حکمرانوں کے ادوار میں مثلاً ایوب خان کا پیش کردہ بنیادی جمہوریتوں کا نظام اور1979ء ایکٹ کے تحت جنرل ضیاء الحق کے دورمیںان اداروں کے انتخابات خالصتاً غیر سیاسی بنیادوں پر کروائے گئے۔جنرل ضیا ء الحق تو اسمبلیوں کے انتخابات بھی غیر سیاسی بنیادوں پر کروانے کے خواہشمند تھے لیکن سیاسی پارٹیوں کی موجودگی میں کسی بھی عوامی سرگرمی کو سیاست سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔اس لیے کنٹونمنٹ بورڈز کے موجودہ انتخابات کو بھی سیاسی پارٹیوں کے درمیان اقتدار کیلئے کشمکش سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں اْمیدواروں کی بڑی تعداد میں شرکت اور پْرجوش انتخابی مہم کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ انتخابات 17سال بعد منعقد کیے جارہے ہیں۔اس لمبے عرصہ کے دوران ملک کے 42کنٹونمنٹ بورڈز کے رہائشی لوگوں کو ایک ایسی انتظامیہ سے پالاپڑا جو غیر منتخب ہونے کی وجہ سے نہ صرف کسی کے سامنے جواب دہ نہیںتھی،بلکہ اْنہوں نے عوام کو درپیش روزمرہ کے مسائل کے حل کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے ان مسائل میں اضافہ ہوتاچلاگیا۔کنٹونمنٹ بورڈز کے رہائشیوں کو ایسے اْمیدواروں کی ضرورت تھی جو ان جمع شْدہ مسائل کو حل کرنے میں مدد دیں۔
انتخابی نتائج پر پہلی نظر ڈالنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ ان میں سیاسی پارٹیوں کی وہی الیکٹورل سپورٹ جھلکتی ہے ،جس کا مظاہرہ مئی 2013ء کے انتخابی معرکے میں ہواتھا۔پاکستان مسلم لیگ(ن)68وارڈز میں کامیابی حاصل کر کے پہلی پوزیشن پر ہے۔ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا نمبر آتا ہے جس کے اْمیدواروں نے43وارڈز میں کامیابی حاصل کی ہے۔گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں بھی دونوں پارٹیوں کے درمیان وکٹری مارجن کچھ ایسا ہی تھا۔البتہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے اْمیدواروں کی تعداد 55ہے۔پارلیمانی انتخابات میں آزاد حیثیت سے جیتنے والے اْمیدواروں کی تعداد بہت کم تھی۔
اسی طرح پنجاب اور خصوصاً لاہور کے دو کنٹونمنٹ بورڈزکی نشستوں میں سے بھاری اکثریت حاصل کرکے مسلم لیگ (ن)نے ثابت کردیا ہے کہ پنجاب اْس کا گڑھ ہے۔آئندہ بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں اور تین سال بعد پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔ان کے نتائج کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا مشکل ہے؛ تاہم کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج کی روشنی میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ عام تاثر کے برعکس،تحریک انصاف پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ کو شکست سے دوچار نہیں کرسکتی۔پنجاب میں مسلم لیگ(ن)کی اس مضبوط پوزیشن کا سبب مرکز اور پنجاب میں اس کی حکومتوں کو ٹھہرایا جاسکتا ہے‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کے ''آزادی مارچ‘‘ اور ''دھرنے‘‘ سے کامیابی سے نبردآزماہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن)کی ڈگمگاتی حکومت پہلے کے مقابلے میں زیادہ مضبوط بن کر اْبھری ہے۔لیکن ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ تاریخی طور پر پاکستان مسلم لیگ(ن)بلدیاتی انتخابات میں دیگر پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ 1979ء میں جنرل ضیاء الحق کے نافذکردہ بلدیاتی نظام اور غیر سیاسی انتخابات میں مسلم لیگ نے بھرپور حصہ لیا تھا۔پاکستان مسلم لیگ (ن)کے بہت سے سینئر رہنماایسے ہیںجنہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز بلدیاتی اداروں کی رکنیت سے کیا تھا۔اس کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی بلدیاتی سیاست میں حصہ لینے سے احتراز کرتی رہی ہے۔اپنے تینوں ادوارِحکومت میںپیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات کروانے میں ناکام رہی۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا ہے۔لاہورجسے شہیدذوالفقار علی بھٹو پاکستان کا دل کہتے تھے اور جو پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا،کے دونوں کنٹونمنٹ بورڈز میں پیپلز پارٹی کا ایک اْمیدوار بھی کامیاب نہ ہوسکا۔یہاں تک کہ ان بیس وارڈزمیں پیپلز پارٹی کا صرف ایک اْمیدوار تھا جو دوسری پوزیشن حاصل کر سکا۔سندھ میں بھی پارٹی کی نشستیں ایم کیو ایم کی حاصل کردہ سیٹوں سے آدھی سے بھی کم ہیں۔صوبہ خیبر پختون خوا‘ جہاں ایک زمانے میں پیپلز پارٹی مقبول ترین پارٹی ہواکرتی تھی، سے صرف ایک نشست حاصل کرسکی۔معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے 2013ء کے انتخابات میں اپنی شکست سے سبق نہیں سیکھا اور تنظیم اور قیادت کے مسائل کے حل پر توجہ دینے کی بجائے بدستور نعروں کی سیاست میں مصروف ہے۔
جماعت اسلامی کی کارکردگی سے بھی پتہ چلتا ہے کہ عوام نے2013ء والے پارلیمانی انتخابات کا موڈ برقرار رکھا ہے۔جماعت اسلامی نے مجموعی طور پر 8نشستیں حاصل کی ہیںلیکن پیپلز پارٹی کی طرح لاہور کی بیس نشستوں میں سے اسے ایک سیٹ بھی نہ مل سکی۔حالانکہ ماضی میں جماعت اسلامی کے اْمیدوار ان حلقوں میں سے بڑی تعداد میں کامیاب ہوتے چلے آئے ہیں۔
کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنے والی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ ان کے نتائج سے آئندہ ہونے والے بلدیاتی یاپالیمانی انتخابات کے نتائج کے بار ے میں اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ہوسکتا ہے اْن کا یہ موقف درست ثابت ہوکیونکہ ان انتخابات میں صرف99نشستوں کیلئے مقابلہ تھا‘ لیکن ووٹرز پر ان کے نفسیاتی اثر سے انکار نہیں کیا جاسکتا‘ خاص طور پر جبکہ بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں ۔ جو پارٹی ان میں کامیابی حاصل کرے گی وہ اسے بنیاد بنا کر آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔