جن لوگوں کی نظروں سے کراچی میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری قتل ، اغوا، بھتّہ خوری اور سٹریٹ کرائم کی خبریں گزرتی رہتی ہیں، وہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے اِس سب سے بڑے شہر اور تجارتی اور کاروباری مرکز کے باسی کس عالمِ پریشانی میں حکومتِ وقت اور مقتدر اداروں سے لا اینڈ آرڈر کے قیام کی اپیلیں کر رہے تھے۔ شہر کی تاجر اور کاروباری برادری کا تو برا حال تھا۔ انہیں بلیک میل، بھتّہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ سے بچانے والا کوئی بھی نظر نہیں آتا تھا۔ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں جب حالات حکومت کے ہاتھ سے باہر نکلے جارہے تھے، تو کراچی میں تاجروں کے ایک دفد نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی سے براہ راست فوجی مداخلت کی اپیل کی تھی۔ روز بروز بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیش نظر سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینا پڑا۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کی کمزور فیصلہ سازی اور پولیس کے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کو صورتِ حال کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور اپنے اِس یقین کا اظہار کیا تھا کہ اگر حکومت دہشت گردی کے قلع قمع کے لیے کمر کس لے اور پولیس کو سیاسی مداخلت اور دبائو سے آزاد کر دے تو کراچی میں مکمل طور پر امن قائم ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی اِنہی ہدایات کی روشنی میں نئی (موجودہ) حکومت نے ستمبر2013ء میں کراچی میں پولیس اور رینجرز کے ذریعے جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر کے خلاف آپریشن کا آغازکیا۔ گزشتہ بیس ماہ کے عرصے میں پولیس اور رینجرز نے بے مثال حوصلے اور جانی قربانیوں کے ساتھ جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان کا اعتراف اندرونِ ملک ہی نہیں ملک سے باہر بھی کیا جاتا ہے۔ اِس کا سب سے واضح ثبوت کراچی سٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے پاکستانی معیشت میں ترقی کے رجحانات کی نشاندہی ہے۔ اِس
آپریشن کی کامیابی میں جہاں پولیس اور رینجرز کی قربانیوں کا دخل ہے، وہاں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اِس کے پیچھے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی پر مبنی ایک جامع اور واضح حکمتِ عملی ہے جس کے تحت قانون نافذ کرنے والی قوتوں کو مکمل تعاون ، تائید اور حمایت حاصل ہے۔ اِس آپریشن کی کامیابی میں جن مزید عوامل کو دخل حاصل ہے ان میں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ہر قسم کی دہشت گردی کو نشانہ بنانے کی پالیسی بھی شامل ہے۔ اِسی طرح شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کا راز بھی ایک ایسی واضح حکمتِ عملی میں مضمر ہے، جِس کے تحت ''اچھے طالبان‘‘ یا ''برے طالبان‘‘میں تمیز کئے بغیر ، تمام دہشت گردوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے‘ لیکن کچھ حلقوں کی طرف سے کچھ ایسے تاثر کو پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے، جیسے دہشت گردی صرف قانون نافذ کرنے والی قوتوں کامسئلہ ہے اور وہی اپنے طور پر اِس سے نبرد آزما ہیں۔ جہاں تک حکومت اور سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے، انہیں نہ تو اِس سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ اِس کی بیخ کنی کے لیے ان کے پاس کوئی واضح اور جامع حکمتِ عملی ہے۔ کچھ تبصرہ نگار اور کالم نویس یہ کہنے پر مصر ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیاسی حکومت اور عسکری قیادت کی نہ صرف راہیں جدا ہیں بلکہ آخر الذکر کو اول الذکر کی وہ حمایت یا تائید حاصل نہیں جو موجودہ نازک صورتِ حال کا تقاضا ہے۔ اِس سے اِس تاثر کو تقویّت ملتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے پاس دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ کوئی سوچ ہے نہ ارادہ ہے اور نہ حوصلہ ہے ۔ وہ صرف سیاسی مصلحت سے کام لیتی ہیں یا سیاسی جوڑ توڑ کی ماہر ہیں۔ ایسا تاثر نہ صِرف
حقیقت کے بالکل برعکس ہے ، بلکہ وسیع تر قومی مفادات کے لیے نقصان دِہ بھی ہے۔ اِس لیے کہ پولیس ، رینجرز اور فوج حکومت کا حِصّہ ہوتے ہوئے بھی حکومت کی مرضی اور ہدایت کے برعکس کوئی اقدام نہیں کر سکتیں اور اگر اِن کی طرف سے ایسے اقدامات کئے جائیں گے، تو ان کا نتیجہ الٹ بلکہ تباہ کن نکلے گا۔ جدید دور میں جنگ خواہ وہ دو ملکوں کے درمیان ہو یا دہشت گردوں کے خلاف، سیاسی فریم ورک سے باہر کامیابی سے نہیں لڑی جا سکتی۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی اِس اصول سے مستثنیٰ نہیں ۔ اور اگر اِس مسلمہ اصول کو نظر انداز کر کے اِسے جاری رکھا گیا تو یہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کو درپیش اِس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے بار بار وضاحت کی جاتی ہے کہ اِس جنگ میں سیاسی اور عسکری قیادت میں نہ صرف فکر کی بلکہ حکمت عملی پر بھی مکمل ہم آہنگی ہے۔ اِسی طرح یہ دعویٰ کہ سیاسی پارٹیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دلچسپی نہیں رکھتیں ، بلکہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں ، پاکستانی تاریخ کے حالیہ واقعات کے منافی ہے۔ 1992ء میں کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ایک سیاسی حکومت کے دورمیں شروع کیا گیاتھا۔ اس وقت کراچی میں بوری بند لاشوں ، اغواء، قتل اور بھتّہ خوری کے واقعات میں اِس حد تک اضافہ ہو چکا تھا، کہ لوگ شہر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے اورسرمایہ دار ملک کے دوسرے حصوں بلکہ ملک سے باہر اپنا سرمایہ منتقل کر رہے تھے۔ اِس سے ملک کی معیشت کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا تھا اور ایسی صورتِ حال سے سب سے زیادہ پریشانی حکومتی پارٹی کو لاحق ہوتی ہے، کیونکہ اس نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے ایک متوازن بجٹ یا منصوبہ بندی کرنی ہوتی ہے، جو صرف مضبوط معیشت کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ یہی مسئلہ تھا جو نواز شریف کی پہلی حکومت کے دور میں کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا باعث بنا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت (1993-1996ء) میں کراچی میں امن وامان کی بدتر صورتِ حال ان کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتی تھی۔ اِس لئے (ریٹائرڈ ) جنرل نصیر اﷲبابر کی نگرانی میں جرائم پیشہ افراد‘ جن میں ٹارگٹ کلر، اغوا کنندگان اور بھتّہ خور شامل تھے، کے خلاف سویلین انٹیلی جنس ایجنسی اور پولیس کی مدد سے آپریشن شروع کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سویلین حکومتوں کے تحت یہ دونوں آپریشن کامیاب رہے، اِس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سیاسی پارٹیاں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی استطاعت نہیں رکھتیں۔
ایک حتمی پالیسی کی تشکیل میں حکومت کے مختلف اداروں کی طرف سے موصول ہونے والی آراء ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ اِس قسم کی صورت حال سے ترقی یافتہ ممالک بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔ مثلاً امریکہ میں محکمہ دفاع ''پینٹاگان‘‘ اور وزارتِ خارجہ '' سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ‘‘ کے نقطہ ہائے نظر میں بعض اہم امور پر متعدد بار اختلاف سامنے آیا ہے۔ صدر اوباما نے جب افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے لیے2014ء کی ڈیڈ لائن مقررّ کر نے کا ارادہ کیا تو امریکی خصوصاً افغانستان میں لڑنے والے جرنیلوں نے اِس کی مخالفت کی تھی۔ لیکن جب صدر نے ان کے موقف کے برعکس 2014ء کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی اور افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی مرحلہ وار واپسی کا اعلان کر دیا ، تو اِن تمام جرنیلوں نے نہ صرف اِسے قبول کیا، بلکہ پوری دیانتداری سے اِس پر عمل بھی کیا۔
لیکن ہمارے ہاں اداروں کے درمیان اختلاف رائے کو محاذ آرائی سے تعبیرکر کے اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، بلکہ ان کو ایک دوسرے کے مدِمقابل لا کر کسی ایک کے پلڑے میں محض قیاس آرائیوں اور افواہوں پر مبنی نام نہاد دلائل کا وزن ڈال دیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ سب ادارے حکومت کا حصّہ ہوتے ہوئے حکومتی فیصلے کے پابند ہوتے ہیں۔ پالیسی سازی کے عمل میں ہر ادارے کو اپنے اپنے پرسپیکٹو (Perspective)کے مطابق رائے (in-put)دینے کا حق ہے لیکن حتمی فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کیونکہ اس کا پرسپیکٹو، کسی ایک ادارے کے پرسپیکٹو کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہوتا ہے جِسے عام الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے بہت سے پہلوئوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وسیع تر تناظر میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر اِس فیصلے پر عمل درآمد میں کوئی ادارہ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اِس کا کریڈٹ اس ادارے کے علاوہ حکومت کو بھی جاتاہے کیونکہ فیصلہ اسی کا ہے اور اِس کے غلط یا صحیح ہونے کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ جو حلقے حکومت کے ہی ایک ادارے کو حکومت کے مقابل کھڑا کر کے اسے حکومت سے بالاتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ نہ تو اس ادارے سے مخلص ہیں نہ انہیں حکومت کا مفاد عزیز ہے اور نہ وہ ملک کے خیرخواہ ہیں۔