"DRA" (space) message & send to 7575

پاک چین اقتصادی راہداری اور قومی اتفاق رائے

وزیراعظم محمد نوازشریف کی دعوت پر پاک‘ چین اکنامک کاریڈور کے مجوزہ روٹ پر متعدد سیاسی پارٹیوں کی طرف سے تحفظات کو دور کرنے کے لیے 13مئی کو اسلام آبادمیں پارلیمانی پارٹیوں کا نمائندہ اجلاس ہوا۔ جس میں حکومت نے شرکاء کو پاک چین اکنامک کاریڈورپر بریفنگ دیتے ہوئے گوادر کو کاشغر سے ملانے والے تقریباََ تین ہزار طویل ریل روڈ کے اس نیٹ ورک پر اُن کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی۔ کل جماعتی کانفرنس حکومت کا بروقت اور مستحسن اقدام ہے‘ جس کے نتائج یقینا مثبت ہوں گے۔
چین کے صدر شی چن پنگ کے حالیہ دورے کے دوران میں پاکستان اور چین کے درمیان تقریباََ 46بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے جن سمجھوتوں پر دستخط ہوئے ہیں، اس تجارتی اور مواصلاتی شاہراہ کی تعمیر اْن میں شامل ہے۔تفصیلات کے مطابق 46بلین ڈالر میں سے 11بلین ڈالر اکنامک کاریڈور کیلئے رکھے گئے ہیں باقی 35 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری توانائی کے منصوبوں میں کی جائے گی‘ جن میں پن بجلی کے علاوہ شمسی توانائی او رکوئلے سے بجلی حاصل کرنے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔پاکستان میں آج تک کسی ملک کی طرف سے اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ امریکہ جس کے ساتھ پاکستان کے فوجی اور اقتصادی تعلقات گزشتہ چھ دہائیوں پرمحیط ہیں،اب تک پاکستان کو قومی معیشت کے مختلف شعبوں میں سب سے زیادہ امداد دینے اور سرمایہ کاری کرنے والا ملک رہا ہے لیکن اس تمام عرصہ کے دوران اْس کی جانب سے فراہم کی جانے والی ''امداد‘‘کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ رقم 40بلین ڈالر سے زیادہ نہیں بنتی۔امریکہ کے بعد جن دیگر ملکوںنے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے اْن میں سعودی عرب اور خلیج فارس کی عرب ریاستیں یعنی متحدہ عرب امارات،قطر اور بحرین شامل ہیں لیکن ان کی طرف سے سرمایہ کاری کی رقوم چینی سرمایہ کاری کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔خود چین کی جانب سے جس نے امریکہ،جاپان،جنوبی کوریا، تائیوان اور ہانگ کانگ ،جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا او رافریقہ میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے،ایک ہی وقت میں کسی ایک ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کی تعمیر اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ جب اس بھاری سرمایہ کاری کا علان کیاگیا تو پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اسے ایک ''گیم چینجر‘‘ کا نام دیا گیا کیونکہ اس کاریڈور کی تعمیر سے نہ صرف چین اور پاکستان کو بھاری مالی اور معاشی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ تین بڑے خطوں یعنی وسطی ایشیا،مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان محض تجارتی اور معاشی شعبوں میں ہی نہیں بلکہ سیاست کے میدان میں تعلقات میں بھی انقلابی تبدیلی آسکتی ہے۔اس شاہراہ کی تعمیر مکمل ہونے اور اس سے مستفید ہونے کی صورت میں پاکستان نہ صرف توانائی کے شعبے میں اپنے مسائل پر قابو پاسکتا ہے،بلکہ اُس کا معاشی خود کفالت کا دیرینہ خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔چین کو اس کاریڈور کی تعمیر سے بے حد فوائد حاصل ہوں گے۔ اُسے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہونے کی وجہ سے 63لاکھ بیرل تیل روزانہ درآمد کرنا پڑتا ہے جس پر اْٹھنے والی ایک دن کی لاگت ایک کروڑ اسی لاکھ ڈالر ہے۔اس تیل کا80فیصد حصہ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے ممالک سے حاصل کیا جاتا ہے۔ چین کے مشرقی اور وسطی علاقوں تک آبنائے ملاکا کے راستے پہنچنے کیلئے تیل کی اس سپلائی کو 9912میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔گوادر اور کاشغر کی شاہراہ کی تعمیر سے یہ فاصلہ گھٹ کر 3626میل رہ جائے گا۔ چین کے مغربی حصوں تک جہاں اس وقت صنعتی ترقی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے یہ فاصلہ اور بھی کم ہوکر محض 2295میل رہ جائے گا۔اگر اس راستے سے چین اپنی ضروریات کا50فیصد تیل بھی درآمد کرلے تو تیل کی ترسیل پر چینی اخراجات ایک تہائی یعنی صرف60لاکھ ڈالر یومیہ رہ جائیں گے‘ اس طرح چین کو ہرسال 2بلین ڈالر کی بچت ہوگی۔لیکن اس مالی فائدے سے کہیں زیادہ اہم سڑیٹیجک فائدہ ہے جو چین کو بحیرہ عرب کے ساحل پر واقع بندرگاہ گوادر تک رسائی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ایک طرف اس سے خلیج فارس،مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے افریقہ میں چین کے معاشی اور سیاسی اثرورسوخ میں اضافہ ہوسکتا ہے اور دوسری طرف اُسے گوادر کی صورت میں بحری تجارتی شاہراہ ''میری ٹائم سلک روٹ‘‘ Maritime Silk Routeکیلئے مغربی ٹرمینل حاصل ہوسکتا ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر جہاں ایک طرف پاکستان میں ریل روڈنیٹ ورک پر مشتمل اس منصوبے کا خیر مقدم کیا گیا،وہاں چین کی طرف سے بھی اس کی جلد تکمیل میں غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا جارہا ہے۔لیکن اس کے ساتھ چند سیاسی حلقوں کی طرف سے اس منصوبے کے کچھ پہلوئوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔ تحفظات کا اظہار کرنے والی صرف صوبہ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والی سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں، بلکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق)اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے تو16مئی کو کوئٹہ میں اس مسئلے پر بحث کیلئے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔جن امور پر ان پارٹیوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے،اْن میں اس کاریڈور کے ا بتدائی روٹ میں مبینہ تبدیلی کاالزام ہے۔ان پارٹیوں کا موقف یہ ہے کہ
پاک چین کاریڈور کے اوریجنل روٹ میں تبدیلی کی جارہی ہے اور اس کا مقصد اس کی تعمیر سے حاصل ہونے والے فوائد سے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کو محروم رکھنا اور پنجاب کو فائدہ پہنچانا ہے۔کیونکہ شروع میں اعلان کیا گیا تھا کہ یہ کاریڈور گوادرسے ژوب،ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتا ہوا،خیبرپختون خوا کے راستے چین کے مغربی صوبے میں واقع شہر کاشغر تک جائے گا۔لیکن اب (معترضین کے مطابق) اس منصوبے کو ملتان اور لاہور کے راستے پشاور سے منسلک کیاجارہا ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے اگرچہ وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے منصوبے کے تین روٹ Alignmentsہیں۔مشرقی،وسطی اورمغربی اور تینوں پر بیک وقت کام شروع کیا جائے گا۔اور اس کا مقصد ملک کے تمام حصوں کو اس کاریڈور سے مستفید ہونے کا موقعہ فراہم کرنا ہے۔لیکن سیاسی پارٹیاں وفاقی حکومت کی اس وضاحت سے مطمئن نظر نہیں آتیں۔بلکہ یہ منصوبہ پنجاب اور دیگر صوبوں کے درمیان تنازع کی شکل اختیار کرتاجارہا ہے۔پختون اور بلوچ قوم پرست پارٹیوں کی کال پر 6مئی کو کوئٹہ میں اس مسئلے پر شٹر ڈائون ہڑتال بھی کی گئی۔اس طرح سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اس موقف کی حامی ہیں کہ اس منصوبے میں کراچی اور سندھ کو باہررکھا گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں ترقی کے نام پر تعمیر ہونے والے منصوبوں کی وجہ سے یاوسائل کی تقسیم پر پیدا ہونے والے بین الصوبائی اختلافات یا تنازعات کوئی نئی بات نہیں۔ماضی میں‘ دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والے گدو اور غلام محمد بیراج سے سیراب ہونے والی زمینوں کی غیر سندھیوں کو الاٹمنٹ اور حال ہی میں بلوچستان میں گوادر کی بندرگاہ اور میرانی ڈیم کی تعمیر کے بعد بلوچی عوام کے مفادات سے چشم پوشی اس کی مثالیں ہیں۔ مسلم لیگ(ن)کی موجودہ وفاقی حکومت نے اگرچہ مرکز اور صوبوں کے درمیان مفاہمت اور تعاون پر مبنی پالیسی اپنا کر ماضی کی تلخیوں کو بہت حد تک کم کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن ہماری چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط تاریخ میں حکمرانوں نے صوبوں کے ساتھ وعدہ خلافیوں کا ایسا ریکارڈ چھوڑا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان مکمل اعتماد بحال ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ مثلاً 1950-51ء میں کوریائی جنگ کی وجہ سے جب پاکستانی پٹ سن کی مانگ میں یک لخت اضافہ ہوا اور اس سے پاکستان کو بھاری زرمبادلہ کمانے کا موقعہ ملا تو اس رقم سے مشرقی بنگال میں ترقیاتی کام شروع کرنے کی بجائے کراچی میں صنعتیں لگائی گئیں۔ یوں ملک کے دوحصوں کے درمیان بدگمانی اور شکوک و شبہات کی بنیادرکھی گئی۔ اسی طرح تربت کے قریب دریائے دشت پر میرانی ڈیم اور گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کے موقعہ پر دعویٰ کیا گیا کہ ان سے بلوچستان میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔لیکن میرانی ڈیم کی تعمیر سے مقامی بلوچ آبادی کو فائدہ پہنچنے کی بجائے دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد فائدہ اْٹھا رہے ہیںاور اسی طرح گوادر منصوبے کی تعمیر سے غیر بلوچ آبادی کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔بلوچستان میں لسانی قوم پرستی کی موجودہ تحریک ان ہی مسائل کی وجہ سے ہے؛ تاہم خوش قسمتی سے اس وقت پاکستان میں منتخب جمہوری حکومت قائم ہے۔اور مسلم لیگ (ن) وسائل کی تقسیم پر پیدا ہونے والے بین الصوبائی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مثبت ریکارڈ رکھتی ہے۔ 1991ء میں پنجاب اور سندھ کے درمیان دریائے سندھ اور اْس کے معاون دریائوں کے پانی کی تقسیم کا فارمولا اور معاہدہ اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ معاہدہ اب بھی قائم ہے۔ اسی طرح پاک چین اکنامک کاریڈور پر پیدا ہونے والے اختلافات اور غلط فہمیوں کو بھی سیاسی پارٹیوں کے درمیان بحث اور بات چیت کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں