ایک خبر کے مطابق مسلم لیگ کے موجودہ تقریباً درجن میں سے تین دھڑوں یعنی مسلم لیگ(ق)،مسلم لیگ(فنکشنل) اور آل پاکستان مسلم لیگ کو ضم کر کے نئے سیاسی اتحاد کے قیام کی کوشش کی جارہی ہے۔اس کوشش میں مسلم لیگ(ق)کے سربراہ چودھری شجاعت پیش پیش ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے کراچی کا دورہ کر کے آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف اور مسلم لیگ(ف) کے سربراہ پیرصاحب پگاڑا سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔اطلاعات کے مطابق چودھری شجاعت اپنی کوششوں کی بارآوری کے بارے میں کافی پر امید ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ بالا تین دھڑوں کے اتحاد کے بعد مسلم لیگ کے باقی دھڑوں کو بھی شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔چودھری شجاعت کی مرادغالباََ شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ اور اعجاز الحق کی مسلم لیگ(ض)ہوسکتی ہیں۔ ان آخری دونوںدھڑوں کو موجودہ قومی اسمبلی میں ایک ایک سیٹ حاصل ہے جس کی وجہ سے قومی سیاست میں ان کا وجود باقی ہے۔
مسلم لیگ کے دھڑوں کو یکجا کرنے کی خبر کوئی نئی یا خصوصی خبر نہیں۔ پاکستان کی یہ خالق پارٹی جسے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل تھا، جب سے بکھر کر مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوئی ہے‘ اس کے اتحاد کے بارے میں آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں۔اصل خبر یہ ہے کہ اس نئے اتحاد کی قیادت پرویز مشرف کریں گے ۔سابق صدر نے اس اتحاد کے عملی طور پر وجود میں آنے سے پہلے ہی اس کے لیڈر کے طور پر سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔اس ضمن میں انہوں نے بعض سیاسی رہنمائوں کو اپنا ہم نوا بنانے کیلئے سوشل کال کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایم کیو ایم کے ان کارکنوں اور رہنمائوںکے ساتھ بھی رابطہ قائم کیا ہے‘ جو پارٹی کی موجودہ قیادت سے ناراض ہیں۔ان میں کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال کا خصوصی طور پر ذکر آیا ہے۔پرویز مشرف نے انہیں سیاست میں دوبارہ سرگرم ہونے کا مشورہ دیا ہے۔
جنوبی ایشیا میں سیاسی پارٹیوں میں دھڑے بندی Factionalism کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔بھارت میں کانگرس اور جنتا پارٹی کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔لیکن حصول اقتدار کے بعد جتنی تیزی سے آل انڈیا مسلم لیگ کے حصے بخرے ہوئے ہیں،وہ اپنی مثال آپ ہیں۔قیام پاکستان کے صرف ایک سال کے اندر کئی اہم رہنماجنہوں نے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مسلمانان ہند کو ایک علیحدہ وطن دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گئے۔ ان رہنمائوں میں مغربی پاکستان سے میاں افتخار الدین (پنجاب)، ایوب کھوڑو(سندھ) اور مشرقی بنگال سے حسین شہید سہروردی اور مولانا عبدالحمیدبھاشانی نمایاں تھے۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ نہ صرف مرکز بلکہ تمام صوبوں میں برسراقتدار تھی کیونکہ اسے پہلی آئین ساز اسمبلی میں اکثریت حاصل تھی۔لیکن1954ء میں مشرقی بنگال کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کو عوامی لیگ کے زیر قیادت یونائیٹڈ (جگتو) فرنٹ کے ہاتھوں عبرتناک انتخابی شکست نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کی خالق اس جماعت کی عوام میں جڑیں کھوکھلی ہوچکی ہیں۔رہی سہی کسر گورنرجنرل غلام محمد نے پوری کر دی جنہوں نے اکتوبر 1954ء میں پہلی آئین ساز تحلیل کر کے مسلم لیگ کو مرکزمیں بھی ایوان اقتدار سے بے دخل کر دیا۔کیونکہ 1955ء میں قائم ہونے والی دوسری آئین ساز اسمبلی میں مسلم لیگ اپنی اکثریت کھو چکی تھی اور اسے1956ء میں حکومت بنانے کیلئے دیگر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا۔1958ء میں ایوب خان نے مارشل لا نافذ کر کے نہ صرف 9سال کی محنت سے تیار کردہ آئین کو منسوخ کیا بلکہ حکومت کو برخاست کرنے کے علاوہ سیاسی پارٹیوں اور سیاسی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کر دی۔1962ء کے آئین کے نفاذ اور مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد جب ایوب خان کو ایک سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کی نظر انتخاب مسلم لیگ پر ہی پڑی جس کے کارکنوں کا ایک کنونشن بلا کر اسے ازسرِنو زندہ کیا گیا۔لیکن چند ایسے مسلم لیگی بھی تھے جو ایک فوجی آمر کی زیر قیادت سرگرم ہونے پر تیار نہیں تھے۔کیونکہ انہوں نے قائداعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح کی زیر قیادت کا م کیاتھاان میں سے ایک ممتاز دولتانہ بھی تھے جنہوں نے ایوب خان کے بلائے ہوئے کنونشن میں شرکت سے انکار کر دیا اور ایک الگ مسلم لیگ بنا لی جو بعد میں کونسل مسلم لیگ کے نام سے مشہور ہوئی۔ایوب خان کی قیادت میں بننے والی مسلم لیگ کنونشن مسلم لیگ کہلائی جو مارچ 1969ء تک ملک کی حکمران جماعت رہی۔
مسلم لیگ صرف پاکستان کے فوجی آمروں کی من پسند پارٹی نہیں رہی؛ بلکہ ہر کسی کی نظر جو قومی سیاست میں اپنا وجود قائم رکھنا چاہتا تھا سب سے پہلے مسلم لیگ پر ہی پڑتی تھی۔اس پر قبضہ جمانے کیلئے یا تو اس کے اندر فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کی جاتی یا پھر ایک نئی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی جاتی۔غالباََ اسی وجہ سے کسی نے کہا تھا کہ مسلم لیگ ایک ایسی خوبصورت بیوہ ہے جس کے ساتھ ہر کوئی نکاح کرنا چاہتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹونے بھی پیپلز پارٹی کے قیام سے قبل ملک معراج خالد کے تعاون سے مسلم لیگ (کنونشن) میں فارورڈ بلاک قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کے نام سے ایک نئی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
پاکستان کی دیگر پارٹیاں بھی اور خصوصاََ وہ پارٹیاں جو کسی وقت عوام میں ہر دلعزیز رہیں۔ دھڑے بندیوں کا شکار ہو گئیں۔ لیکن جتنے دھڑے مسلم لیگ کے بنے ہیں کسی اور پارٹی کے نہیں بنے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی اندرونی توڑ پھوڑ کی سب سے زیادہ ذمہ دار ی پاکستان کے فوجی آمروں پر عائد ہوتی ہے جو اپنے اقتدار کے استحکام کیلئے سیاسی پارٹیوں کو منقسم اور کمزور رکھنا ضروری سمجھتے تھے۔اس ضمن میں ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اول الذکر نے محمد خان جونیجو کی قیادت میں سرکاری مسلم لیگ قائم کی اور موخرالذکر نے چودھری برادران کی قیادت میں مسلم لیگ(ق)قائم کی۔مگر اس کے ساتھ فوجی آمر مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں کے باہمی اتحاد کے بھی پُرجوش حامی رہتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد انہیں فوج کی جگہ ایک نئے حلقہ کی ضرورت پیس آتی تھی۔
مسلم لیگ کے دھڑوں میں اتحاد کی کوشش کے پیچھے بھی ایک سابق فوجی آمر یعنی پرویز مشرف کا ہاتھ ہے کیونکہ اسی نے اپنے مسلم لیگی دھڑے یعنی آل پاکستان مسلم لیگ کی مقبولیت کے بارے میں جو دعوے کیے تھے،وہ بری طرح غلط ثابت ہوئے۔ 2013ء کے انتخابات سے قبل وطن واپسی پر پرویز مشرف کا دعویٰ تھا کہ ان کی پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی کیونکہ بقول ان کے پاکستان کے عوام ان کے ساتھ ہیں۔لیکن مئی2013ء کے پارلیمانی انتخابات میں آل پاکستان مسلم لیگ کہیں نظر نہیں آتی۔بڑی مشکل سے صوبہ خیبرپختون خوا میں اسمبلی کی ایک سیٹ اس پارٹی کے حصہ میں آئی۔ قومی انتخابات کے بعد حال ہی میں ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈکے انتخابات میں نہ صرف مشر ف کی پارٹی کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی بلکہ مسلم لیگ(ق)اور مسلم لیگ(ف)کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔اب اگلا مرحلہ بلدیاتی انتخابات کا ہے۔ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیںاور خیبر پختون خواہ میں30مئی کو ہورہے ہیں۔ان کے بعد ملک کے سب سے بڑے دوصوبوں یعنی پنجاب اور سندھ کی باری ہے۔یہ انتخابات اسی سال متوقع ہیں اور مسلم لیگ کے دھڑوں میں اتحاد کی کوشش کا تعلق ان ہی بلدیاتی انتخابات سے ہے۔چودھری برادران بلدیاتی انتخابات کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔گذشتہ دوبرسوں میں انہوں نے جو سبق سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اکیلے سیاست میں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے وہ مسلم لیگ کے دوسرے دھڑوں کے ساتھ اتحاد کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ جہاں تک جنرل (ریٹائرڈ) مشرف کی قیادت کا سوال ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ سابق صدر نے چودھری برادران کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ مشرف کے علاوہ ان کے پاس کوئی مضبوط لیڈر نہیں۔خودپرویز مشرف کا دعویٰ ہے کہ اس وقت ملک میں قیادت کا ایک خلا ہے اور صرف وہی اسے پر کر سکتے ہیں۔باقی قوم نے تو ان کی بات پر کان نہیں دھرا؛ تاہم چودھری برادران انہیں اپنا لیڈر تسلیم کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اگر چودھری برادران کے ساتھ مسلم لیگ (ف) بھی مشرف کو لیڈر تسلیم کرنے پر راضی ہوجائے،تو باقی دو دھڑوں یعنی شیخ رشید کی عوامی لیگ اور اعجازالحق کی ضیاء لیگ کو بھلا مشرف کی قیادت پر کیا اعتراض ہوسکتاہے؟لیکن آنے والے انتخابات میں پانچ مسلم لیگوں پر مشتمل مجوزہ مسلم لیگ کی حیثیت کیا ہو گی؟ اسے بیان کرنے کیلئے حسین شہید سہروردی کے اس مشہور بیان کا ذکر کرنا پڑتا ہے جو انہوں نے عرب ملکوں کے اتحاد کے بارے میں کہا تھا: Zero plus Zero Plus Zero is equal to Zero یعنی صفر جمع صفر جمع صفر‘ برابر ہے صفر کے۔