گذشتہ صدارتی انتخابات میںافغانستان کے عوام نے سابق صدر حامد کرزئی کی جگہ اشرف غنی کو اس امید پر چنا تھا کہ وہ افغانستان میں13برس سے جاری خون ریزی کو بند کر کے ملک میں امن اور صلح کی فضاء قائم کریں گے۔سابق صدر حامد کرزئی اپنی کوششوں میں کس طرح ناکام رہے وہ سب کے سامنے ہے۔اشرف غنی سے وابستہ توقعات کا سبب یہ ہے کہ حامد کرزئی کے برعکس ان کا پاکستان کے بارے میں رویہ زیادہ دوستانہ ہے‘ اور غالباََ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ برس ستمبر میں عہدئہ صدارت سنبھالنے کے بعد انہوں نے جن ملکوں کو سب سے پہلے اپنے غیر ملکی دوروں کیلئے چنا ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔اس کے مقابلے میں انہوں نے بھارت کا دورہ گذشتہ ماہ یعنی مئی میں کیا تھا۔اس کے علاوہ قول اور فعل کے ذریعہ بھی انہوں نے پاکستان کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ نہ صرف پاکستان اور افغانستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اب یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ جب تک ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر نہیں ہوتے،افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے عرصۂ صدارت کے دوران بیس دفعہ پاکستان کا دورہ کیا تھا‘لیکن وہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری لانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔صدر اشرف غنی نے اس مقصد کے حصول کیلئے جو راستہ اختیار کیا اسے پاکستان میں سراہا گیااور پاکستان کی حکومت کی جانب سے بھی مثبت ردِعمل کا اظہار کیا گیا۔دوطرفہ بنیادوں پر ایک سال سے بھی کم عرصہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعلیٰ سطح پر سیاسی اور عسکری شخصیتوں کے جتنے دوروں کا تبادلہ ہوا ہے،اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔پاکستان کے وزیراعظم جناب محمد نوازشریف ،چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ رضوان اختر اور وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور اور قومی سلامتی سرتاج عزیز کابل کا دورہ کر چکے ہیں۔اسی طرح افغانستان کے صدر اشرف غنی کے علاوہ افغان نیشنل آرمی کے سربراہ جنرل کریمی اور افغان ہائی پیس کونسل کے سربراہ بھی پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔حال ہی میں افغان نائب وزیرخارجہ حکمت خلیل کرزئی بھی اسلام آباد میں موجود تھے جہاں انہوں نے پاکستانی حکام سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانے پر بات چیت کی۔
دونوں طرف سے اعلیٰ ترین سطح پر سیاسی اور عسکری شخصیتوں اور دیگر وفود کے تبادلوں کے علاوہ صدر اشر ف غنی کی حکومت نے پاکستان کے اس دیرینہ مطالبے کو بھی تسلیم کر لیا کہ افغانستان اپنے فوجی افسروں کو تربیت کیلئے پاکستان ملٹری اکیڈمی بھیجے گا۔پاکستان کی طرف سے بھی خیر سگالی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کیا گیا۔وزیراعظم محمد نوازشریف نے اپنے دورہ کے دوران طورخم جلال آباد شاہراہ کو جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔اس کے علاوہ افغانستان کی تعمیر و ترقی کیلئے پاکستان کی جانب سے امداد کی رقم 500ملین ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ کیا‘ لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کسی بریک تھرو کے آثار نظر نہیں آئے‘ بلکہ دونوں طرف سے الزام تراشی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں سیاسی تبدیلی سے پاک افغان تعلقات میں بہتری کی جو امیدیں پیدا ہوئی تھیں،وہ دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔اس کی اہم وجہ افغانستان میں امن اور مفاہمتی عمل میں کسی قسم کی پیش قدمی کا نہ ہونا اور طالبان کی طرف سے افغان سکیورٹی فورسز، غیر ملکی ٹھکانوں اور دیگر تنصیبات پر روز افزوں حملے ہیں۔طالبان کے حملوں میں شدت آنے سے پاک افغان تعلقات براہ راست متاثر ہوئے ہیں کیونکہ افغانستان میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ افغان طالبان اپنے حملوں کیلئے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں وہ حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ کا حوالہ دیتے ہیں۔گذشتہ سال فروری میں پاکستان سے متصل افغان صوبہ کنڑ میں ایک افغان فوجی چوکی پر طالبان کے حملہ کے دوران21افغان فوجی مارے گئے تھے۔اس کے علاوہ طالبان نے متعدد افغان سپاہیوں کو اغواء بھی کرلیا تھا۔افغان حکام کی طرف سے الزام لگایا گیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے اور ان میں پاکستانی جنگجوئوںکے علاوہ غیر ملکی مثلاً تاجک،ازبک اور چیچنیا کے باشندے بھی شامل تھے۔افغان حکام کے دعویٰ کے مطابق حملہ آور اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد پاکستانی علاقے میں واپس چلے گئے تھے لیکن پاکستان نے ان الزامات کی نہ صرف سختی سے تردید کی،بلکہ افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت کی خفیہ ایجنسی''را‘‘کے ان اڈوں کو اپنے ہاں ختم کردے جن کے ذریعے بھارت پاکستان میں عمومی طور پر اور بلوچستان میں خصوصی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔اس کے علاوہ پاکستان نے افغان حکومت کو بھگوڑے دہشت گرد ملا فضل اللہ کو بھی پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی کمان کر رہاہے۔
افغانستان میں یقین کی حد تک یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ افغانستان میں امن کی کنجی پاکستان کے ہاتھ میں ہے اور اگر پاکستان چاہے تو افغانستان میں قتل،خون ریزی اور دہشت گردی کی موجودہ صورت حال ختم ہوسکتی ہے اس کے لیے سابق صدر کرزئی کی حکومت کی طرح موجودہ حکومت کا بھی پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ افغان طالبان کو افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرے‘ اور اگر افغان طالبان پاکستان کے کہنے کے باوجود اس پر راضی نہ ہوں تو پاکستان اپنے ہاں مقیم افغان طالبان کی قیادت کے خلاف اقدام کرے اور جن ذرائع سے انہیں مالی امداد فراہم ہوتی ہے،ان کو بلاک کر دے۔ ان مطالبات کا اظہار حال ہی میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغان ڈپٹی وزیرخارجہ حکمت خلیل کرزئی نے کیا تھا۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کی طرف سے افغانستان میں امن اور مفاہمت کے عمل کی ہمیشہ حمایت کی گئی ہے بشرطیکہ یہ عمل افغانستان کی طرف سے ہواور افغانستان کے کنٹرول میں ہو۔
پاکستان نہ صرف افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کا حامی ہے، بلکہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے افغان طالبان کو اس پر راضی کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور اسی کوشش کے نتیجے میں حال ہی میں قطر اور چین کے صوبہ سنگیانگ کے دارالخلافہ ارمچی میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان پہلی دفعہ ابتدائی بات چیت بھی ہوئی‘ لیکن ان ابتدائی رابطوں کے بعد بات چیت کا عمل آگے نہیں بڑھ سکابلکہ افغانستان میں افغان طالبان کے حملے اور بھی تیز ہوگئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق افغان طالبان میں افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے مسئلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ایک دھڑا حکومت کے ساتھ نہ صرف بات چیت بلکہ سمجھوتے کے حق میں ہے جبکہ دوسرا دھڑا جنگ کو تیز کرنے کے حق میں ہے۔اس دوسرے دھڑے کا موقف یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان کی عسکری فتح کے امکانات بڑھ گئے ہیں کیونکہ افغان سکیورٹی فورسز بشمول افغان نیشنل آرمی طالبان کے منظم حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔معلوم ہوتا ہے کہ اس دوسرے دھڑے نے بالا دستی حاصل کر لی ہے اور اسی وجہ ہے افغانستان میں جنگ کے شعلے بلند ہوگئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن بات چیت کا آغاز نہیں ہوتا اور جنگ کی آگ اس طرح بھڑکتی رہے گی تو پاک افغان تعلقات بلکہ خود پاکستان کے قومی سلامتی کے مفادات پر کیااثر پڑے گا؟ظاہر ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کے حملے جاری رہے تو پاک افغان تعلقات کشیدہ ہوجائیں گے۔ کیونکہ افغانستان میں ان حملوں کا الزام پاکستان پر عائدکیا جائے گا اور افغان رائے عامہ جو پہلے ہی پاکستان کو افغان طالبان کی حمایت اور محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا ذمہ دار ٹھہراچکی ہے‘ پاکستان کے مزید خلاف ہوجائے گی۔اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اب تک جو اقدام کیے گئے ہیں،وہ سب ضائع ہوجائیں گے۔دوسری طرف بین الاقوامی برادری بشمول چین افغانستان میں خانہ جنگی کے خلاف ہے اور وہاں امن کی خواہاں ہے۔ اسے ممکن بنانے کیلئے بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان پر دبائو بڑھایا جائے گا۔تیسرے پاکستان اور چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کے تحت پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہے ہیں۔ اس میگا پروجیکٹ کے تحت کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ان علاقوں میں بھی کی جائے گی جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ظاہر ہے کہ افغانستان میں جنگ اور بدامنی کی صورت میں یہ سرمایہ کاری محفوظ نہیں ہوگی۔اس لیے پاکستان کے پالیسی سازوں کیلئے افغانستان کی موجودہ غیر یقینی اور پُر خطر صورت حال ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نبردآزما ہونے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاََ چین،ایران اور صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مل کر افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو تیز کرے۔