بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے دیگر دو اراکین یعنی وزیر دفاع منوہر پاریکر اور وزیر برائے اطلاعات و نشریات راج پردھان سنگھ راٹھور نے میانمار (برما) کے علاقے میں بھارتی الیکشن کے حوالے سے جو بیانات دیئے ہیں، ان کا واحد مقصد پاکستان کو ڈرانا اور دھمکانا ہے تاکہ مسئلہ کشمیر پر وہ اپنے اصولی موقف سے دستبردار ہو کر بھارت کی موجودہ حکومت کی شرائط پر امن اور تعاون کی راہ اختیار کرے۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی شاید پاک بھارت تعلقات کی گذشتہ 68 سالہ تاریخ بھول گئے ہیں۔ آزادی سے لے کر آج تک پاکستان کو کسی قسم کی دھمکیوں اور دبائو سے مرغوب نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ بھارت کی جانب سے جب بھی ایسا رویہ اختیار کیا گیا ہے اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان پہلے کے مقابلے میں زیادہ توانا، پر اعتماد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے سامنے آیا۔
1950ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں کے دوران کشمیر پر کشیدگی اور مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) میں چند شرپسندوںکی لگائی ہوئی ہندو مسلم فسادات کی آگ کی وجہ سے پاک بھارت تصادم کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ بلکہ بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے پاکستان کے خلاف فوجی اقدامات کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ ان دنوں ابھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان دفاعی معاہدات نہیں ہوئے تھے اور پاکستانی مسلح افواج کو امریکی ہتھیاروں کی سپلائی شروع نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس بے سروسامانی کے باوجود پاکستان نے بھارتی دھمکیوں سے مرغوب ہونے کی بجائے کسی بھی ممکنہ جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے پختہ عزم کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کا ''مُکّا‘‘ پاکستانی
قوم کے عزم اور طاقت کا نشان بن گیا۔ قوم کی طرف سے اس حوصلے اور ولولے کے اظہار کے بعد بھارت کو پاکستان کے خلاف کسی اقدام کی ہمت نہ ہوئی۔
1965ء کی جنگ کے بعد اعلان تاشقند کے ذریعے پاکستان پر سفارتی دبائو ڈالنے کی بھارتی کوشش بھی ناکام ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے اعلان تاشقند کے استرداد کا پاکستانی عوام نے جس طرح والہانہ طور پر استقبال کیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قوم سخت نا مساعدحالات میں بھی اپنی آزادی اور خود مختاری پر سمجھوتہ کرنے والی نہیں۔
اس طرح 1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کو مرعوب کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس وقت کی سویلین حکومت نے تمام تر قومی وسائل کو کام میں لاکر دس سال کی مدت میں ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی اور جب مئی 1998ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی تو وزیر اعظم نواز شریف نے اس کا جواب چاغی کے ایٹمی دھماکوں کی صورت میں دیا۔ یاد رہے کہ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم تھے جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ پاکستانی گھاس کھا لیں گے لیکن اپنے دفاع اور قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ انہیں اسی ارادے کی قیمت جان کی صورت میں ادا کرنی پڑی لیکن انہوں نے انتہائی مشکلات اور بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ کی طرف سے
رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کا مالک بنا دیا۔ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارت کے اس وقت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈس اور بی جے پی کے رہنما ڈپٹی پرائم منسٹر ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز زبان استعمال کرنا شروع کر دی تھی۔ اس پر پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کرکے بھارت کو یہ سمجھانا ضروری سمجھا کہ پاکستان بھارت کے ہاتھوں ایٹمی بلیک میل کا شکار نہیں ہو سکتا۔
اگر یہ ثابت کرنا مقصود ہو کہ پاکستان کے خلاف دبائو اور دھمکیوں کی ڈپلومیسی کامیاب نہیں تو 2001-02ء کے پاک بھارت فوجی بحران اور اس کے نتیجے کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ 13 دسمبر 2001ء کو چند مسلح دہشت گردوں نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا۔ بھارت نے بغیر کسی تفتیش اور ثبوت کے اس کا الزام پاکستان کے سر تھونپ دیا اور ایک مراسلے کے ذریعہ پاکستان کے سامنے ایسے مطالبات رکھے جو کہ ایک الٹی
میٹم سے کم نہ تھے۔ اس کے ساتھ ہی پنجاب اور سندھ سے ملحقہ بین الاقوامی سرحد پر مکمل طور پر مسلح اور جنگ کیلئے تیار ہزاروں فوجی دستے تعینات کر دیئے۔پاکستان پر بھارتی حملے کا امکان اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نے اپنے لڑاکا طیارے پاکستانی سرحد کے ساتھ اگلے ہوائی اڈوں تک پہنچا دیئے۔ پاکستان نے بھی اپنی مسلح افواج اور جنگی سازو سامان بھارت کی سرحد کے ساتھ اگلے مورچوں تک پہنچا دیا۔ سرحدی علاقوں سے لوگوں کے انخلاء کے بعد بارودی سرنگوں کا جال بچھا دیا گیا۔ دونوں ممالک جنگ کیلئے بالکل تیار فوجیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی تھیں۔ صورت حال اتنی سنگین اور کشیدہ ہو چکی تھی کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک نے نہ صرف پاکستان اور بھارت میں اپنے سفارت خانوں سے غیر ضروری عملے اور افراد کو واپس بلا لیا بلکہ اپنے شہریوں کو دونوں ملکوں کے سفر پر جانے کے خلاف ہدایات جاری کر دیں۔ یہ خطر ناک محاذ آرائی تقریباً ایک سال جاری رہی لیکن پاکستان نے آنکھ نہ جھپکی اور آخر کار بھارت کو اپنی فوجیں اگلے سرحدی مورچوں سے واپس بلانی پڑیں۔جنوبی ایشیا نہ صرف ایک خوفناک اور تباہ کن جنگ سے بچ گیابلکہ اس کے بعد اپریل 2003ء میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو امن اور کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کی پیش کی کرنا پڑی۔ جسے پاکستان نے قبول کر لیا۔ اس کے بعد 2004ء کے اوائل میں پاک بھارت امن مذاکرات یعنی کمپوزٹ ڈائیلاگ کا آغاز ہوا۔ جو اگرچہ اس وقت معطل ہے ، تاہم 2008ء تک مسلسل منعقد ہونے والے چار رائونڈ اور اس کے بعد 2011-12ء کے دوران ہونے
والے دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور متعدد شعبوں میں تعاون خصوصاً عوامی سطح پر میل جول مواصلاتی رابطوں اور دو طرفہ تجارت کے حجم کو بڑھانے میں کافی کامیابی حاصل ہوئی۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے ارکان جو دراصل آر ایس ایس کے زیر اثر ہو کر پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں کو دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی اس مختصر تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کو ڈرانے اور دھمکانے کی روش ترک کرنی چاہئے کیونکہ یہ پالیسی کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو گی۔ اس کی بجائے موجودہ بھارتی حکومت کو پاکستانی وزارت خارجہ کے اس بیان پر توجہ دینی چاہئے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے عوام کو کشیدگی اور جنگ کی نہیں بلکہ امن کی ضرورت ہے۔ اور پرامن دو طرفہ مذاکرات یعنی ڈائیلاگ سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ اس ڈائیلاگ کو بھارت نے بلا جواز یکطرفہ طور پر معطل کر رکھا ہے۔ حالانکہ پاکستان اس کا فوری احیاء چاہتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو معلوم ہونا چاہئے کہ جنوبی ایشیا کے موجودہ حالات اس محاذ آرائی کے حق میں نہیں خصوصاً اس صورت میں جبکہ دونوں ملکوں کی جمہوری اور نمائندہ حکومتیں معاشی اور سماجی ترقی پر پوری طرح فوکس کرکے اپنے عوام کی حالت بہتر بنانا چاہتی ہیں۔ دھمکیوں اور دبائو پر مبنی پالیسی کو کسی بھی حلقے میں پذیرائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ معلوم نہیں واجپائی اور ایڈوانی کے برعکس نریندر مودی کو یہ حقیقت کیوں سمجھ نہیں آتی؟