امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے چند روز پہلے وزیراعظم جناب محمد نوازشریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے پاک بھارت تعلقات میں موجودہ کشیدگی پر اپنے ملک کی تشویش کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا ہے کہ جنوبی ایشیاء کے ان دو انتہائی اہم ممالک کو تصادم کی راہ سے ہٹ کر آپس میں دوستانہ اور پْر امن تعلقات قائم کرنے چاہئیں تاکہ اس خطے کا امن اور استحکام قائم رہے۔ امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق جان کیری نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ حالات کو مزید بگڑنے سے روکیں بلکہ کشیدگی میں کمی لا کر باہمی اختلافات کو دوطرفہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔
پاک، بھارت کشیدگی یا دونوں ملکوں کے تعلقات میں بحران کی صورت میں امریکہ کی طرف سے سفارتی مداخلت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔اس سے قبل بھی جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطرناک حدوں کو چھونے لگی،تو امریکہ نے سفارتی ذرائع سے اس کو کم کروانے کی کوشش کی۔ حالیہ تاریخ میں اس قسم کی سفارتی مداخلت کے لئے1990-91ء اور پھر2001-02ء کے بحرانوں کی مثال دی جاسکتی ہے۔ 1990-91ء کابحران کشمیر میں عوام کی طرف سے بھارت کے قبضہ کے خلاف اچانک او روسیع پیمانے پر تحریک کا نتیجہ تھا۔یہ مزاحمتی تحریک اتنی اچانک اور ہمہ گیر تھی کہ بھارتی حکومت بْری طرح بوکھلا گئی؛حالانکہ اْس وقت بھارت میں غیر کانگرسی حکومت تھی اور وی پی سنگھ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز تھے۔وی پی سنگھ ایک مخلوط حکومت کے سربراہ تھے اور پاکستان کے بارے میں اْن کا رویہ کانگرسی رہنمائوں سے بہتر تھا۔اس کے باوجود کشمیر میں اس عوامی بغاوت نے بھارتی حکومت کو حواس باختہ کر دیا اور اْس نے پاکستان کو اس کا موردِالزام ٹھہراکر سخت کارروائی کی دھمکی دے ڈالی‘ بلکہ بعض حلقوں کا خیال تھا کہ اگر اْس وقت راجیو گاندھی بھارت کے وزیراعظم ہوتے تو ایک اور پاک بھارت جنگ یقینی تھی۔اس موقع پر اْس وقت کے امریکی صدر جارج بْش (سینئر)نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر رابرٹ گیٹس کو جنوبی ایشیا بھیجا جنہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کروانے میں اہم سفارتی کردار اداکیا۔اس بحران سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کر کے پاکستان اور بھارت نے سیکرٹری خارجہ کی سطح پر دوطرفہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اگرچہ آگے نہ بڑھ سکا۔
2001-02ء کا بحران1990-91ء کے بحران سے بھی زیادہ خطرناک تھا۔اس میں دونوں ملکوں کی مسلح افواج کیل کانٹے سے لیس ہو کر سرحدوں پر ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی تھیں۔سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس تھے اور مبصرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ اگر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان تصادم ہوگیا تو یہ جنگ روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔ان دو ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کا تصور ہی عالمی برادری کو لرزہ براندام کرنے کے لئے کافی تھا کیونکہ پاک بھارت ایٹمی جنگ ایک عالمی ایٹمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی تھی۔اس خدشے کے پیشِ نظر عالمی برادری نے اپنی سفارتی کوششیں تیز کر دیں، خصوصاً امریکہ نے دونوں ممالک کے رہنمائوں سے رابطہ کر کے سرحدی صورتِ حال کو حالتِ جنگ سے واپس حالتِ امن میں لانے پر راضی کر لیااور یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان اس خطر ناک محاذ آرائی کا خاتمہ ہوا۔ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس میں امریکہ نے ایک مثبت کردار ادا کیا تھا۔
اس بحران کے خاتمہ کے بعد2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے قیام اور باہمی تنازعات کو حل کرنے کے لئے دوطرفہ بنیادوں پر بات چیت کا جو سلسلہ شروع ہوا،اس کوبھی ممکن بنانے میں پسِ پردہ جن ممالک نے اہم کردار ادا کیا،اْن میں امریکہ بھی شامل تھا۔امریکہ کے علاوہ جن ممالک نے ان کوششوں میں حصہ لیا اْن میں چین،رْوس ،یورپی یونین اور برطانیہ شامل تھے۔امریکہ سمیت ان تمام ممالک کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کی حمایت جاری رہی اور جب بھی یہ عمل تعطل کا شکار ہوا یا بعض وجوہ کی بنا پر جیسے لائن آف کنڑول پر جھڑپوں کی وجہ سے بات چیت کا سلسلہ منقطع ہوا،تو امریکہ نے نہ صرف دونوں ملکوں پر کشیدگی کم کرنے کے لئے زور دیا،بلکہ دوطرفہ بات چیت اور قیام امن کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔اس سلسلے میں2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی پاک بھارت کشیدگی اور اس کے نتیجے میں ڈھائی سال تک دوطرفہ بات چیت کے معطل رہنے کی مثال دی جاسکتی ہے۔بات چیت کے اس تعطل پر عالمی برادری کو سخت تشویش لاحق تھی اور اس کے چند اہم رْکن ممالک کی کوششوں سے بات چیت کا یہ سلسلہ 2011ء میں دوبارہ شروع ہوا۔لیکن ایک سال بعد ہی یہ سلسلہ پھر منقطع ہوگیا۔اس کی وجہ لائن آف کنڑول پر دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان آئے دن فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات تھے۔امریکہ نے ان واقعات پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک کو اس سے احتراز برتنے اور بات چیت کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے کی تلقین کی۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پْر امن اور دوستانہ تعلقات کے قیام اور جنگ کے امکانات ختم کروانے کی امریکی پالیسی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کو کبھی کامیابی حاصل ہوئی اور کبھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ،لیکن جنوبی
ایشیا کے بارے میں امریکی پالیسی میں اس حد تک ضرور تسلسل موجود ہے کہ وہ دونوں ممالک میں تصادم کے خلاف اور پْر امن بلکہ تعاون پر مبنی تعلقات کا حامی رہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاک بھارت جنگ یا کشیدگی کی صورت میں امریکہ کے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ جنوبی ایشیاسے منسلک جنوب مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا میں مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
تاہم گزشتہ دس برسوں میں امریکہ اور بھارت کے درمیان مختلف شعبوں میں جن میں دفاع اور سلامتی بھی شامل ہیں،تعاون اور شراکت کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ،اْس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام سے وابستہ امریکی دلچسپی اور مفادات میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ان تعلقات کا سلسلہ 2005ء میں شروع ہوا تھا جب سابق صدر جارج ڈبلیو بْش کے دور میں سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے امریکہ کا دورہ کیا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان ''سٹریٹیجک پارٹنرشپ‘‘ کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔اس کے بعد2006ء میں دونوں ملکوں کے درمیان''سول نیو کلیئر کوآپریشن‘‘کا معاہدہ ہوا جس کے تحت امریکہ نے بین الاقوامی ایٹمی مارکیٹ سے بھارت کو ایٹمی ایندھن یعنی افزودہ یورینیم خریدنے میں مدد فراہم کی۔ اس کے علاوہ سول مقاصد کے لئے امریکہ نے بھارت کو متعدد ایٹمی پلانٹ بھی فروخت کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
صدر اوباما کے دور میں امریکہ اور بھارت کے درمیان تعلقات نے ایک نیا عروج حاصل کیا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان کثیرشعبہ جاتی تعاون کی بنیاد گزشتہ سال ستمبر میں نریندر مودی کے دورئہ امریکہ اور اس کے بعد صدر اوباما کے دورئہ بھارت کے موقع پر رکھی گئی تھی۔امریکہ اور بھارت کے درمیان جن شعبوں میں تعاون کے لئے معاہدات ہوئے جن میں دونوں ملکوں کے اشتراک سے دفاعی ہتھیار بنانے کے منصوبے بھی شامل ہیں‘ ان معاہدات کے بعد جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام میں امریکی دلچسپی اور سٹیک(Stake)میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔امریکہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور دوستی سے روکا جا سکتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ کشیدہ صورتِ حال کو ختم کرانے کے لئے جان کیری کا وزیراعظم محمد نوازشریف کو فون امریکہ کی اسی پالیسی اور خواہش کا حصہ ہے۔