30 جون اور یکم جولائی کی درمیانی شب شمالی وزیرستان کے مقام انگور اڈہ سے متصل پاک افغان بارڈر پر دونوں ملکوں کی سکیورٹی افواج کے درمیان تصادم اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں‘ لیکن یہ تصادم‘ جس میں دونوں طرف جانی نقصان کی اطلاعات موصول ہوئیں‘ اس لحاظ سے زیادہ تشویش ناک ہے کہ اس سے قبل گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری کے جو آثار نظر آ رہے تھے وہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس تصادم سے قبل افغان صدر اشرف غنی کا ایک بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کر رکھی ہے۔ ان کا اشارہ پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر افغان طالبان کو دی جانے والی سہولتوں کی جانب تھا‘ جنہیں استعمال کر کے افغان طالبان افغانستان کی موجودہ حکومت کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ افغان طالبان اب بھی پاکستان کی سرزمین پر واقع اپنے اڈوں اور محفوظ پناہ گاہوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ صدر اشرف غنی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ اس لیے بڑھایا تھا کہ انہیں امید تھی کہ پاکستان نہ صرف ملا عمر کی قیادت میں لڑنے والے افغان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات پر آمادہ کرے گا بلکہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسے بھی افغانستان میں کارروائیاں کرنے سے روکے گا‘ لیکن افغان حکومت کے خیال میں دونوں محاذوں پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان کی مدد سے افغان طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان چین کے صوبہ سنکیانگ کے دارالحکومت اُورمچی اور قطر میں ملاقاتیں ہوئی تھیں لیکن ان ملاقاتوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا‘ الٹا افغانستان میں طالبان نے اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ ان حملوں میں سب سے زیادہ شدید افغان پارلیمنٹ پر حملہ تھا۔ اس حملے میں اگرچہ افغان پارلیمنٹیرین محفوظ رہے‘ مگر اس سے افغان سکیورٹی نظام کی کمزوریاں سامنے آ گئی
تھیں۔ اس حملے سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ افغان طالبان جب چاہیں جہاں چاہیں حملہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ افغان طالبان نے افغانستان کے ان علاقوں میں بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں جو اب تک ان کی پہنچ سے باہر تھے‘ مثلاً صوبہ ہلمند جس کے ایک اہم شہر کندوز کے ارد گرد بیشتر علاقوں پر طالبان قابض ہو چکے ہیں۔ طالبان کی ان کارروائیوں کے بعد امن مذاکرات کی جو امیدیں پیدا ہوئی تھیں وہ تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ اس کے پیش نظر افغانستان کے ڈپٹی وزیر خارجہ حمایت خلیل کرزئی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقات کے دوران انہوں نے تجویز رکھی تھی کہ اگر پاکستان کے کہنے پر افغان طالبان کابل کے ساتھ مذاکراتی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہاں مقیم افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں مختلف ذرائع سے جو مالی امداد مہیا ہو رہی ہے اسے بلاک کر دیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ افغانستان کو یہ بھی شکایت ہے کہ پاکستانی فوج نے آپریشن ''ضرب عضب‘‘ کے تحت شمالی وزیرستان میں پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی تو کی ہے لیکن حقانی نیٹ ورک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور افغانستان کے دعویٰ کے مطابق اس کے جنگجو بدستور سرحد عبور کر کے افغانستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔
تازہ ترین سرحدی تصادم بھی اس علاقہ میں ہوا جس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ یہاں سے حقانی نیٹ ورک کے جنگجو سرحد پار کر کے افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں اور پھر واپس پاکستان آ جاتے ہیں۔ گزشتہ واقعات کے مقابلے میں یہ اس لحاظ سے بھی منفرد نوعیت کا تصادم تھا کہ اس پر افغانستان کی حکومت کی طرف سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا اور قندھاری پاکستانی قونصلیٹ میں تعینات ایک پاکستانی افسروں کو افغان حکام زبردستی اٹھا کر لے گئے اور انہیں کافی دیر تک حراست میں رکھا۔ افغانستان میں پاکستان کے سفارتخانہ اور پاکستان کی وزارت خارجہ کو اس پاکستانی افسر کی رہائی کے لئے بڑی تگ و دو کرنا پڑی۔ اس سے واقعہ کی سنگینی کا انداز لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اگرچہ پاکستان نے اسلام آباد میں افغانی سفیر کو وزارت خارجہ میں بلا کر احتجاج کیا؛ تاہم دونوں ملکوں کی سرحد پر ابھی تک کشیدگی پائی جاتی ہے۔ واقعہ کے دو روز بعد تک سرحد بند رہی اور تصادم کے خطرہ کے پیش نظر اسے آمدورفت کے لیے نہیں کھولا گیا۔
یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس تصادم سے پاک افغان تعلقات کو اس وقت دھچکا لگا ہے جب دونوں ملکوں کو نہ صرف سرحد پر امن کی اشد ضرورت ہے، بلکہ دونوں کے درمیان دوستی اور تعاون پر مبنی تعلقات علاقے کے امن اور خطے کی سلامتی کے لیے انتہائی ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ افغانستان میں جنگ اس وقت شدت اختیار کر چکی ہے اور پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی صورت میں افغانستان کے حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ اس کا فوری اثر پاکستان پر پڑے گا۔ اس کی وجہ سے بہت سے ایسے اقدامات‘ جو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے کے لیے سوچے جا رہے تھے، رک جائیں گے۔ ان میں پاکستان میں مقیم تقریباً 16 لاکھ افغان مہاجرین کی واپسی کا منصوبہ بھی شامل ہے‘ جس پر عملدرآمد کے لیے پاکستان، افغانستان اور اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کے درمیان مذاکرات جاری تھے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نواز شریف کے گزشتہ دورہ افغانستان کے دوران میں افغانستان کی مالی امداد میں اضافہ کر کے جن منصوبوں کی جلد تکمیل کی ہدایت کی تھی وہ بھی دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ان میں طورخم تا جلال آباد سڑک کی تعمیر بھی شامل ہے۔
سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات کے نتیجے میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف جذبات میں مزید اضافہ ہو گا اور ان عناصر کے ہاتھ مضبوط ہوں گے جو صدر اشرف غنی کی پاکستان کے ساتھ مصالحانہ پالیسی کی مخالفت کر رہے تھے۔ افغانستان میں امن مذاکرات کی طرف پیش قدمی نہ ہونے اور اس کے مقابلے میں جنگ میں مزید تیزی آنے کے ساتھ اس قسم کے سرحدی تصادم کے بعد صدر اشرف غنی کی پوزیشن یقینا کمزور ہو جائے گی اور وہ بھی پاکستان کے بارے میں مصالحانہ رویہ میں تبدیلی لانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ حال ہی میں انہوں نے پاکستان پر افغانستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ جاری رکھنے کا جو الزام عائد کیا ہے وہ اس امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔
اس کشیدگی سے جہاں افغانستان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے وہاں پاکستانی مفادات بھی متاثر ہوں گے۔ اس وقت مشرق میں بھارت کے ساتھ ہماری سرحدوں پر بھی حالات معمول کے مطابق نہیں۔ ماضی قریب میں لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں کے درمیان متعدد بار فائرنگ کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے آج سے 11 برس قبل جن دو طرفہ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا وہ ان سرحدی جھڑپوں کی وجہ سے ابھی تک معطل ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت پسندوں اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی تیز ہونے کی صورت میں لائن آف کنٹرول کے آر پار فائرنگ کا تبادلہ پھر شروع ہونے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو مشرق اور مغرب میں واقع ہماری دونوں سرحدیں محفوظ نہیں ۔ یہ صورت حال ملک کے مفاد کے لیے نہ صرف کسی لحاظ سے بھی سود مند نہیں بلکہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ خصوصاً اسی وجہ سے کہ پاکستان میں چین کی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے تعمیر اور ترقی کا جو منصوبہ شروع کیا جا رہا ہے اس کی کامیابی خطے میں امن سے مشروط ہے۔ اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدگی اور غیر یقینی صورتحال کا شکار رہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا خطرہ منڈلاتا رہے، تو نہ پاکستان میں اور نہ بھارت میں قومی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبو کے لیے ترقی منصوبے کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس طرح پاک افغان سرحد پرامن اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون، سرحد کے دونوں جانب ترقی اور خوشحالی کا ضامن ثابت ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر کشیدہ صورتحال سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ عام آدمی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ مختلف ضروریات کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی سرحد کو ہر روز تقریباً 50 ہزار سے زائد افراد عبور کرتے ہیں۔ کشیدگی کی صورت میں سرحد بند کر دی جاتی ہے اور سرحد کے آر پار لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے اس سے کئی افراد جو تعلیم، روزگار اور علاج معالجہ کے لیے افغانستان سے پاکستان اور پاکستان سے افغانستان سفر کرتے ہیں، مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے لیے مسائل کھڑا کرنا دو ہمسایہ اور برادرانہ ملکوں کے لیے کسی بھی لحاظ سے سود مند نہیں۔
پس تحریر: اطلاع ملی ہے کہ اسلام آباد میں افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہو گئے تو اس سے خطے میں امن کے قیام کی کوششوں کو تقویت اور کشیدگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔